آم

آموں کا انوکھا تذکرہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمنہ عمر/ عمرکوٹ، سندھ :

آج تذکرہ کرتے ہیں گرم علاقوں میں پیدا ہونے والےمزے سے بھر پور، گودے دار اور رسیلے پھل کا جس کا نام سنتے ہی منہ میں پانی آجاتا ہے، جی ہاں! آپ بالکل صحیح پہچانے ، بات ہو رہی ہے پھلوں کے سردار آم کی۔
آم چھوٹے ہوں یا بڑے، کچے ہوں یا پکے ہر طور سے لوگوں کا دل موہ لیتے ہیں اور انھیں عام آدمی سے لے کر ادیبوں، شاعروں سیاستدانوں، امراء اور شاہوں کے ہاں ہمیشہ سے پذیرائی حاصل رہی ہے۔

مرزا غالب کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیں آم دیوانگی کی حد تک پسند تھے جبکہ ان کا ایک دوست مرزا کی اس حرکت سے خائف رہتا تھا، ایک بار دونوں کہیں تشریف فرما تھے کہ کہیں سے ایک گدھا آیا اور قریب پڑے آموں کے ڈھیر تک گیا اور آم سونگھ کر واپس ہو لیا۔ غالب کے دوست نے طنزیہ انداز میں مرزا غالب کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھ لو گدھے بھی آم نہیں کھاتے، مرزا نے برجستہ جواب دیا کہ ” ہاں صرف گدھے ہی آم نہیں کھاتے“.

علامہ اقبال کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کی طبیعت شدید ناساز ہوئی، طبیب نے میٹھے سے مکمل پرہیز کرنے کو کہا، یہاں تک کہ آم کھانے پر بھی پابندی لگا دی۔ اقبال فرمایا کرتے تھے کہ ”آم نہ کھا کر مرنے سے آم کھا کر مرجانا کہیں بہتر ہے“۔

ان کی بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر حکیم صاحب نے انھیں روزانہ ایک آم کھانے کی اجازت دی، اجازت پاتے ہی اقبال نے اپنے ذاتی ملازم علی بخش کو ہدایت کی کہ بازار میں جو آم سب سے بڑا ملا کرے وہی لے آیا کرنا،

مولانا عبدالمجید سالک اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان دنوں میں اقبال کی عیادت کے لیے حاضر ہوا تو دیکھا کہ ان کے سرہانے ایک سیر سے زیادہ کا وزنی آم پڑا ہے اور یہ اسے کاٹنے اور کھانے کی تیاری میں ہیں۔ میں نے عرض کی کہ جناب آپ نے پھر بد پرہیزی شروع کردی ہے تو کہنے لگے کہ نہیں، حکیم نے ایک کھانے کی اجازت دی ہے اور یہ بہر حال ایک ہی ان ہے۔

اکبر الہ آبادی علامہ اقبال کے لیے الہ آباد سے لنگڑے آموں کا تحفہ بھیجا کرتے تھے۔ اسی حوالے سے ایک بڑا دلچسپ واقعہ منسوب ہے۔ الہ آباد سے اکبر الہ آبادی نے ڈاکٹر اقبال کو لنگڑے آموں کا ایک پارسل بھیجا۔ اقبال نے آم وصول کیے اور ان کے شکریہ لکھ بھیجا ۔ اکبر کو الہ آباد سے لاہور تک بحفاظت آم پہنچنے پرکافی تعجب ہوا ، کہ اس دور کے ذرائع مواصلات اتنے جدید اور محفوظ نہ تھے کہ ایسے پارسل اتنا بڑا سفر اور وہ بھی بخیریت طے کریں۔

اکبر نے ڈاکٹر اقبال کے خط کا جواب لکھا اور اپنے تعجب کا اظہار اس شعر سے کیا۔
اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا

معروف صوفی شاعر امیر خسرو نے اپنی فارسی شاعری میں آم کی بہت تعریف کی ہے اور اسے ”فخر گلشن“ قرار دیا ہے۔

بھارت کے پہلے نوبل انعام حاصل کرنے والے رابندر ناتھ ٹیگور بھی آم پسند فرماتے تھے اور خود اپنی شاعری میں آم پر ایک نظم لکھ چکے ہیں۔

آم کو تین ممالک پاکستان، ہندوستان اور فلپائن کا قومی پھل ہونے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ آم کا درخت بنگلہ دیش کا قومی درخت مانا جاتا ہے۔

آم اس وقت اگرچہ دنیا کے مختلف خطوں میں کاشت کیا جاتا ہے لیکن اس کی ابتدا ہندوستان سے ہوئی ہے۔ لفظ ”آم “ سنسکرت کے لفظ ”امر“ سے ماخوذ ہے۔ اس لفظ کی تاریخ 4000 سال سے زیادہ پرانی ہے۔

آم تمام مغل بادشاہوں کا پسندیدہ پھل رہا ہے، انھوں نے اس تخمی پھل میں قلمیں لگا کر اس کی کئی انواع بنائی جو ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آم کی 1500 سے زیادہ اقسام ہیں جن میں 1000 سے زائد برصغیر کے خطے میں پائی جاتی ہیں۔ اگر آم کی ذیلی اقسام کا تذکرہ کیا جائے تو تعداد 4000 سے زیادہ ہوجاتی ہے۔

ہندوستان کے خطے میں آم کی مشہور اقسام کے نام ’تیمور لنگ‘ حسن آراء‘ آب حیات‘ دسہری‘ چونسا‘ لکھنوی‘ اکھلوی‘ لنگڑا‘ نیلم‘ رومانی‘ سراولی‘ بیگن پلی‘ فضلی‘ زرد آلو‘ آٹری‘ مال خورد‘ کیسر‘ راجہ پوری‘ جمعدار‘ بے نشان‘ ملغوبہ‘ جومال گوا کی صورتگری ہے‘ راس پوری‘ بادامی‘ عالم پوری بے نشان‘ حمایت‘ جہانگیر‘ بتوہ‘ سکی‘ من پسند‘ اعظم پسند‘ سفیدہ‘ رس پونیا‘ متوا‘ تیموریہ‘ شربتی‘ گلاس‘ نورس‘ رس گولہ‘ شکر گٹھلی‘ طوطا پری‘ راتول‘ منجیرہ‘ امر پالی‘ لاکھا باغ‘ لیلی مجنوں‘ فجری کلاں‘ گلاب خاص ’’سورن ریکھا‘‘ وغیرہ ہیں۔ آم کی ہر قسم کا نام اپنے اندر ایک پوری الف لیلوی داستان سموئے ہوئے ہے۔

تخمی آموں کی طرح قلمی آم بھی مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں جن میں بھورا، سندھڑی، کالا سندھڑی، بنیگن پھلی، دوسہری، الفانسو، ثمر، بہشت، طوطا ہری، سبز، انور رٹول، چونسہ، دل آرام، سرولی، ثریا، پونی، حبشی سرولی، لنگڑا، دوسی ولین، کلکٹر، سورانیکا، بادام، نیلم، بھرگڑی، سفید الماس، زہرہ، شا سندر، سیاہ مائل، زعفران، جبل پوری، جاگیردار شہنشاہ، انمول اور دیگر شامل ہیں قابل ذکر ہیں ہیں۔

آم صرف ایک پھل ہی ہی نہیں جسے چند لمحوں کے مزے کے لیے کھایا جائے بلکہ طبی حوالے سے بھی یہ بیش بہا افادیت رکھتا ہے۔ اس میں نہ صرف وٹامنز کی متعدد اقسام پائی جاتی ہیں بلکہ کیلشئیم، فاسفورس، فولاد، پوٹاشئیم اور گلوگوز سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔

طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ آم دل، دماغ، جگر، سینے اور پھیپھڑوں کے امراض میں مفید ہونے کے ساتھ ساتھ کینسر کے امکانات کو کم کرتا ہے، کولیسٹرول گھٹاتا ہے، چہرے کو بارونق بناتا ہے، تیزابیت کا خاتمہ کرتا ہے، قبض کشا ہے اور خواتین کے مخصوص مسائل جیسے ماہواری میں بے قاعدگی اور لیکوریا جیسے مسائل میں شافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کمزور بچوں کو طاقت دیتا ہے اور اگر حاملہ خواتین باقاعدگی سے اس کا استعمال کریں تو پیدا ہونے والے بچے کی نہ صرف صحت اچھی رہتی ہے بلکہ اس کی رنگت بھی صاف ہونے میں معاون ہوتا ہے۔

آم پر لکھنے کا سوچتے وقت ذہن میں بس یہ تھا کہ کچھ جملوں کے ذریعے اس موسم کے بہترین پھل کو داد دی جائے۔ خود ہمارے گھر میں آم کا موسم شروع ہوتے ہی کچی کیریاں چٹخارے لے کر اور پکے ہوئے آم کے گودے کو مزے لے کر کھایا جاتا ہے۔ ملک بھر کے سیاسی گھرانوں کی طرح ، دوست احباب اور رشتے داروں میں آم کی پیٹیوں کے تحفے دئیے اور لیے جاتے ہیں،

مزید یہ کہ کچی کیریوں کا اچار بنایا جاتا ہے اور اچار کے تو کیا کہنے، اگر عمر کوٹ میں بیٹھ کر بھی کراچی کے کسی فرد سے آم کے اچار کا تذکرہ کیا جائے تو وہ گھنٹوں اپنے منہ میں اچار کی کٹھاس محسوس کرسکتا ہے۔

ہمارے زرعی ماہرین اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ آم کی کوئی ایسی نسل تیار کی جائے جو سال میں صرف ایک فصل نہ دے بلکہ وہ درخت سارا سال آموں سے لدے ہوئے ہوں، انسان کی کاریگری کے ساتھ اگر اللہ کی مدد و نصرت شامل رہے تو کچھ بھی ممکن نہیں رہتا۔
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں