حکومت نے اقبال ڈے کی چھٹی کیوں ختم کی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرعاصم اللہ بخش………

“اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے” ۔۔۔۔ لیجیے، اقبال کی یہ بات بھی پرانی ہوئی۔

ہمارے حکمران اقبال سےبھی بڑے اپدیشک ہو گئے ہیں، ان کا تو سارا کام ہی زبانی کلامی چل رہا ہے ۔ مثال کے طور پر یہی بات کہ یوم اقبال کی تعطیل اس لیے منسوخ رہے گی کہ ہمیں بہت سا کام کر کے جلد از جلد ترقی کر جانا ہے ۔ یہ سب اس ملک کی حکومت کا کہنا ہے جو سال میں لگ بھگ 104 ہفتہ وار چھٹیاں کرتی ہے۔ اسے سال میں اس ایک تعطیل سے خطرہ ہے کہ ترقی کی رفتار سست نہ پڑ جائے۔ یا پھر واقعی یہی بات ہے ؟ چلیں اگر ایسا ہی ہے (اور ہمیں اپنی حکومت پر بھروسہ کرنا چاہیے) تو پھر ایسا کیوں نہ کر لیا جائے کہ یوم اقبال کی تعطیل ضرور کی جائے اور اس ہفتہ حکومتی دفاتر وغیرہ ہفتہ اتوار کے بجائے صرف اتوار کو بند ہوں ۔۔۔ ایک دن کی کمی یہیں پوری ہو گئی ۔۔۔ اقبال کے سر ہماری پسماندگی کا تمام تر الزام اب نہیں رکھا جا سکتا۔ حکومت کےلیے کھلا موقع ہے وہ فوراً یہ کام کر کے اپنے متعلق ہر بدگمانی کی نفی کر دے ۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ حکمران مسلسل ہمیں بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، رنج اس بات کا ہے کہ وہ سچ مچ ہمیں بے وقوف سمجھتے بھی ہیں۔

جناب ۔۔۔ مسئلہ نہ ترقی کا ہے اور نہ تعطیل کا ۔۔۔ مسئلہ کہیں اور ہے، کچھ اور ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ تعطیل پر سب “چھٹی” ہی مناتے ہیں ، اب یوم کشمیر کی تعطیل پر ساری قوم کشمیر آزاد کروانے تو نکل کھڑی نہیں ہوتی ۔۔۔ لیکن یہ اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ کسی کاز سے ہماری وابستگی اس قدر زیادہ ہے کہ ہم اس کی خاطر زندگی کی بنیادی ضرورت یعنی معاشی جدوجہد کو بھی پس پشت ڈال کر اس کے لیے خود کو وقف کر سکتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ قوم اور ریاست کی ترجیحات میں اس کا کیا مقام ہے ۔ یہی معاملہ اقبال کا ہے ۔ اقبال مبینہ (اب شاید سابقہ) طور پر ہمارے قومی شاعر ہیں (تھے) ۔ وہ پاکستان کے ان دو ڈھائی مشاہیر میں سے ایک ہیں جن پر کم و بیش پوری قوم کا اتفاق ہے، اور یوں وہ ہمارے قومی اتفاق رائے کی علامت بھی ہیں۔ پیغام صرف یہ دینا ہوتا ہے کہ ہمارے لیے ان کی اہمیت اس قدر ہے کہ ہم ایک دن ان کی خدمات کے اعتراف میں وقف کر سکتے ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے۔

لیکن کیا کیا جائے اقبال کا حال بھی ہم نے سی این جی والا کر دیا ۔ سی این جی مارکیٹ میں آئی توحکومت نے ہمیں نے یہ باور کروانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گویا من و سلوی اتر آیا۔ “گرین فیول” ماحول دوست کم خرچ وغیرہ وغیرہ ۔ پھر ایک دن معلوم ہؤا کہ گاڑیوں میں گیس کا استعمال تو ظلم عظیم ہے ۔۔۔۔ اس سے گیس کا ضیاع ہوتا ہے ، انجن کی عمر گھٹ جاتی ہے ۔۔۔ اور پھر ایک طویل فہرست۔ اقبال بیچارے کے ساتھ بھی یہی ہؤا ۔۔۔ روح کو گرماتا گرماتا اچانک بیچارہ دہشت گردی اور رجعت پسندی کا مبلغ ٹھہرا۔ حکیم الامت اور شاعر مشرق کے بجائے داعش اور القاعدہ کا پیامبر بن کر رہ گیا ۔

بہرحال ۔۔۔۔ ن لیگ کے پرانے پاکستان کے بعد اب نئے پاکستان میں بھی قاعدہ یہی ٹھہرا ہے کہ ترقی کا تمام سفر 9 نومبر کو طے ہؤا کرے گا۔ گویا سرکاری سطح پر اقبال کو باقاعدہ الوداع کہنے کا وقت آن پہنچا۔ ریاست کے لیے اب اقبال کا وجود معدوم ہو چکا ۔۔۔۔ دیکھیے نصاب سے کب یہ قصہ تمام ہوتا ہے۔ ویسے مفت مشورہ یہ ہے کہ چند چیزوں کو سنبھالے رہیں ، کام آئیں گی ۔ ورنہ دوسری صورت یہ ہے کہ ترکی سب کچھ کر کے بھی راندہ درگاہ ہی ہے آج تک۔ یورپ والے آج بھی ملیچھ ہی سمجھتے ہیں اسے۔

بہرحال غنیمت یہ ہے کہ قائد اعظم یہاں بھی خوش قسمت رہے ۔۔۔۔ ان کا یوم پیدائش 25 دسمبر ہونے کی وجہ سے بچا رہے گا ۔۔۔۔ کیونکہ کرسمس کی چھٹی تو بہرحال لازم ہے۔ اقبال بھی سیانے ہوتے تو کوئی دیوالی وغیرہ کو ہی یوم ولادت بنا لیتے ۔۔۔۔ ہم اب دیوالی کی تعطیل بھی دینے لگے ہیں ۔ اچھا ہو جاتا پاکستان میں بسنے والی دیگر اقلیتی برادریوں کی دلجوئی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں نہ بس سکنے والے اقبال جیسے اقلیتی کی بھی حوصلہ افزائی ہو جاتی ۔

بہرحال ہمیں کیا ۔۔۔۔ ہمیں تو بس ترقی کرنا ہے ۔۔۔۔ وہ بھی صرف 9 نومبر کو !!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں