خالد احمد

خالداحمد کے پسندیدہ مصنفین کون ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمود الحسن :

دس سال پہلے ، میں نے ’ایکسپریس ‘کے لیے، خالد احمد صاحب کا جو انٹرویو کیا تھا اس کا وہ حصہ یہاں شئیر کیا جارہا ہے جس میں انھوں نے اپنے پسندیدہ مصنفین کے بارے میں بتایا :

’’ مشفق خواجہ مجھے پسند ہیں۔ وہ بڑے آدمی تھے۔ میں ہر روز ان کا ایک فکاہیہ کالم ضرور پڑھتا ہوں۔ دوسرا ادیب جسے میں روز پڑھتا ہوں، وہ مشتاق احمد یوسفی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کا میں نے ایک بار تقابل کیا تھا S. J. Perelman کے ساتھ جو امریکا کا بہت بڑا مزاح نگار ہے۔ یوسفی صاحب نثر لکھتے نہیں، اسے بناتے ہیں۔ یعنی ایک خاص طریقے سے جیسے ایک عمارت کو بنایا جاتا ہے۔

ان کی کتاب برسوں بعد شائع ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ پوری تراش خراش کے بعد فقرہ لکھتے ہیں۔ اگر آپ کو صحیح اُردو پڑھنی ہے تو وہ مشتاق احمد یوسفی کی نثر ہے، جو کیفیت وہ آپ کے اندر پیدا کرتی ہے کوئی اور نثر پیدا نہیں کرتی۔

عام طور پر لوگ نثر کے اندر چھپے ہوئے پیغام پر نظر رکھتے ہیں، لیکن میں نثر کی طرف نگاہ کرتا ہوں۔ اگر نثر اچھی نہیں ہے تو مجھ تک پیغام نہیں پہنچ سکتا۔ ”فسانۂ آزاد“ بھی مجھے بہت پسند ہے۔ اسی طرح سے وہ لوگ بھی پسند ہیں جو اُردو کے ساتھ تھوڑی زبردستی کرتے ہیں۔ مثلاً خان فضل الرحمان خان کو جو چیزیں ہیں، وہ خاص قسم کی نثر لکھتے تھے۔ اس طرح سے محمد سلیم الرحمان ایک خاص قسم کی نثر اپنی کتابوں میں لکھتا ہے۔ خاص طور پر یونانی ادب کے مشاہیر میں اس نے بڑی عمدہ نثر لکھی ہے۔ ایک کھردری قسم کی نثر ۔

قرة العین حیدر میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ مختلف قسم کے اسلوب کی ایک البم بنا کر پیش کرتی ہیں۔ ان کی یادداشتیں ”کار جہاں دراز ہے“ مجھے بہت پسند ہیں۔ انہوں نے اس میں خود کو اتنا زیادہ آزاد کیا ہے کہ مختلف ادوار کا ذکر کرتے ہوئے مختلف انداز کی نثر لکھی۔ انتظار حسین کے ہاں بھی خاص قسم کا ایک محاورہ ہے۔

انتظار وہ ادیب ہیں جو ختم ہونے والے محاورے کو برت رہے ہیں۔ ان کی نثر میں خاص آہنگ ہے جو ان کی آبائی بستی ڈبائی کا ہے۔ اصل چیز وہ ہے جو وہ کاغذ پر منتقل کرتے ہیں۔ لکھنے والا کاغذ کے اوپر دنیا پیدا کرتا ہے۔اسی طرح عصمت چغتائی کی نثر میں گھریلو قسم کا ذائقہ آپ کو ملے گا۔ ایسا محاورہ جو ہمارے تخیل میں موجود ہے۔ اب مردوں کو تو معلوم نہیں کہ عورتیں کیا سوچتی ہیں، لیکن ہم نے یہ بات اخذ کی ہے کہ ضرور ایسا محاورہ ہو گا جو عورتیں بولتی ہیں۔۔محمد خالد اختر اور محمد کاظم کے اردو میں تبصرے بھی مجھے بہت پسند ہیں۔

شاعری میں میر اور غالب پسند ہیں۔ کئی مرتبہ میر زیادہ بہتر لگتا ہے اور کئی مرتبہ غالب بہتر لگتا ہے۔ صناعی اور چابک دستی میں میر بہت آگے ہے۔ جدید شعرا میں فیض اور منیر نیازی پسند ہیں۔

منٹو کا اسلوب اس آدمی کا اسلوب ہے جو تیزی سے الفاظ لکھنے والا ہے لیکن تحریر میں خوبصورتی بہت زیادہ ہے۔ راجندر سنگھ بیدی بھی بہت پسند ہے۔ بچپن میں بلونت سنگھ اچھا لگتا تھا۔ وہ اُردو میں پنجابی الفاظ لاتا ہے۔ بہت سارے میرے دوست ایسی اُردو پسند نہیں کرتے جیسی احمد بشیر نے لکھی ہے، لیکن مجھے وہ اُردو اچھی لگتی ہے۔

اسی طرح ساقی فاروقی زبان کے ساتھ زبردستی کرتا ہے تو مجھے ایسے لوگ بہت پسند ہیں، جو زبان کو وسیع کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو صحیح لکھتے ہیں، لیکن اسپاٹ لکھتے ہیں۔ میں زبان میں پھنس جاتا ہوں۔ مجھے پیغام کے ساتھ دلچسپی نہیں ہے۔ زبان کا جادو ہی میرے نزدیک اصل چیز ہے۔

انگریزی میں ورڈزورتھ، بائرن اور کیٹس پسند ہیں، لیکن سب سے زیادہ مجھے برائوننگ پسند ہے۔ برائوننگ بھی زبان کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے۔ انگریزی زبان میں ایسی چیزیں نکالنے کی کوشش کرتا ہے ، جو کسی اور نے نہ نکالی ہوں۔ زبان کے ساتھ جو بھی ادیب کھلواڑ کرے گا، وہ میرا پسندیدہ ہو گا۔برنارڈ شا بھی بہت اچھی زبان لکھتا تھا اور تخلیقات کوبڑی عمدگی سے پیش کرتا ۔

جیمز جوائس بھی پسند ہے ،اس کی زبان عجیب و غریب اور پاگلوں والی ہے۔ نابو کوف میں جو اختراع تھی اس نے مجھے اس کے سارے ناول پڑھوا دئیے۔ جان اپڈائک بہت پسند رہا اور اس کے تمام ناول میں نے پڑھے۔ فکشن کا اسلوب ہی مجھے پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اچھا مزاح بہت کم لکھا گیا۔مغربی ادب میں مزاح کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ ایک تو جو آئرش لوگ ہیں انھیں پڑھا ہے،ان میں جے پی ڈانلیوی کی مزاح نگاری کا میں بہت قائل ہوں۔

روسی میں عظیم ترین ادب تخلیق ہوا خصوصاً ناولوں میں تو روسی ادب کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس عظیم ادب کے تخلیق ہونے کی وجہ زار کے زمانے کی شورش تھی، یہ اس قسم کی شورش نہ تھی جس طرح کی سوویٹ روس میں تھی، زار نے ادیبوں کو اتنا زیادہ نہیں دبایا جتنا بعد میں آکر نظریے نے دبایا،

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایران میں شاہ کے زمانے میں تو ادب تخلیق ہوا، لیکن اسلامی انقلاب کے بعد اس پائے کا ادب تخلیق نہ ہو سکا۔ کیونکہ زار اور شاہ کے زمانے میں کم از کم مزاحمت تو ہو سکتی تھی بعد میں تو ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ مزاحمت کا دروازہ ہی بند ہو ہوگیا، اس لیے بڑا ادب زیادہ تخلیق نہیں ہوا۔‘‘


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں