آپ کے معاشی مسائل کا حل خود آپ کے پاس ہے،بھلا کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جاوید چودھری………..
میرے ایک دوست ہر قسم کے حالات میں سروائیو کر جاتے ہیں‘ ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال جیسی بھی ہو میں نے انھیں کبھی غیر مطمئن یا پریشان نہیں دیکھا‘ میں نے ان سے ایک دن وجہ پوچھی تو وہ مسکرا کر بولے ’’معیشت‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔

وہ بولے ’’معاشرت معیشت کے بغیر ممکن نہیں‘ آپ اگر معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں تو پھر بڑے سے بڑا مسئلہ بھی مسئلہ نہیں رہتا‘ ہمارا کنبہ سات افراد پر مشتمل ہے‘ ہم تمام لوگ کماتے ہیں چنانچہ ہم ہر قسم کے حالات میں سروائیو کر جاتے ہیں‘‘ وہ رکے اور بولے ’’ہماری حکومتیں عوام کو اگر معیشت کی تربیت دے دیں تو یہ ملک مطمئن ممالک کی فہرست میں آ جائے‘ یہ لوگوں کو ٹرینڈ کریں گھر کے ہر فرد کو کمانا چاہیے اور ہنر مند بھی ہونا چاہیے‘ ہمارے سارے مسئلے ختم ہو جائیں گے‘‘ یہ بظاہر چھوٹی سی ٹپ تھی لیکن اس میں پوری دنیا کی کامیابی چھپی ہے۔

پاکستان اس وقت بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ مسائل ناقابل حل ہیں؟ جی نہیں! دنیا کے سو سے زائد ممالک نے یہ مسائل حل کر لیے ہیں‘ ہم بھی اگر کوشش کریں تو ہم بھی ان مسائل سے نکل سکتے ہیں‘ میں آج سے پاکستان کے مسائل اور ان کے حل پر ایک سیریز شروع کر رہا ہوں‘ ہو سکتا ہے ارباب اختیار اس سیریز سے کچھ سیکھ لیں‘ ہم سب سے پہلے معیشت کی طرف آتے ہیں۔معیشت کے بغیر فرد چل سکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ لہٰذا معاشی خوشحالی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے‘ خوش حالی کے لیے ہمیں انفرادی اور قومی دونوںسطحوں پر کام کرنا ہوگا‘ میں پہلے انفرادی حل تجویز کرتا ہوں۔

آپ یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ ممالک کو اسٹڈی کر لیجیے‘ وہاں والدین اس وقت تک بچے کے نان نفقے کے ذمے دار ہوتے ہیں جب تک اس کی جیب میں شناختی کارڈ نہیں آ جاتا‘ امریکا اور یورپ میں ٹیکسی ڈرائیور کا بچہ ہو یا پھر وہ کسی ارب پتی شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ جانتا ہے میں جس دن جوان ہو جاؤں گا مجھے اپنی پاکٹ منی‘ اپنی رہائش اور اپنی سواری کا خود بندوبست کرنا ہو گا چنانچہ یہ بچے جوان ہونے سے پہلے ہی پارٹ ٹائم کام شروع کر دیتے ہیں۔

میں یورپ کے ایسے بے شمارگھروں میں گیا جن میں جوان بچے اپنے ہی والدین کے پے اینگ گیسٹ تھے‘ وہ والدین کے گھر میں رہتے تھے لیکن وہ کمرے کا کرایہ اور کھانے کا بل ادا کرتے تھے‘ یورپ کے تمام بچے جوان ہونے کے بعد جاب کرتے ہیں اور جاب کے لیے ظاہر ہے ہنر درکار ہوتا ہے چنانچہ یہ بچپن ہی سے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ لیتے ہیں اور اس عمل میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں برابر ہوتے ہیں۔

ہم بھی آج سے فیصلہ کر لیں‘ ہم اپنے بچوں کا بوجھ صرف اٹھارہ برس تک اٹھائیں گے‘ یہ اس کے بعد خود کمائیں گے‘ بچیاں گھروں میں رہ کر کوئی نہ کوئی ایسا کام کریں جس سے یہ اپنا اور خاندان کا معاشی بوجھ اٹھا سکیں اور بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی ہلکی پھلکی جاب کریں یا کوئی چھوٹا موٹا بزنس کریں‘ اس سے بچوں میں اعتماد بھی پیدا ہو گا‘ انھیں جاب کرنے کی ٹریننگ بھی ملے گی‘ انھیں پیسے کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گا‘ خاندان پر معاشی دباؤ بھی کم ہو گا اور معاشرے میں نئی جابز بھی نکلیں گی۔

دو‘ ہم اور ہمارے بچے صرف جاب کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں ہم پڑھیں لکھیں گے اور پھر بڑے عہدیدار بن جائیں گے ‘ اس سوچ کے نتیجے میںملک میں دو کروڑ بے روزگار ڈگری ہولڈر موجود ہیں اور ان میں ہر سال دس لاکھ لوگوںکا اضافہ ہو جاتا ہے ‘ ہمیں فوری طور پر اس اپروچ کو تبدیل کرنا ہو گا‘ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا تعلیم روزگار کے لیے نہیں‘ شعور کے لیے ہوتی ہے اور ہم نوکری کے بجائے کاروبار کریں گے ۔

ہم پانچ دس ہزار روپے سے کوئی معمولی کام شروع کریں گے اور اپنی محنت سے اس کام کو لاکھوں کروڑوں روپے کے اثاثوں تک لے جائیں گے۔ آپ فرض کیجیے ایک شہر میں لاکھ لوگ رہتے ہیں‘ یہ لاکھ لوگ صرف لوگ نہیں ہیں‘ یہ ایک لاکھ گاہک یا صارف بھی ہیں اور آپ کو اگر ان میں سے ایک ہزار گاہک مل جائیں اور آپ ہر گاہک سے صرف ایک روپیہ کمائیں تو آپ روزانہ ہزار روپے کما سکتے ہیں اور 20‘ 25 سال کے نوجوان کے لیے یہ اچھی خاصی رقم ہے‘ بس آپ کو ایک اچھا بزنس آئیڈیاچاہیے اور آپ تعلیم کی بدولت یہ آئیڈیا چند دنوں میں حاصل کر سکتے ہیں۔

کاروبار سنت بھی ہے اور ترقی کی چابی بھی۔ آپ ملازمت میں دس لاکھ روپے تنخواہ لے لیں تو بھی آپ ملازم ہی رہتے ہیں چنانچہ ہمیں پڑھے لکھے بچوں کا دماغ ملازمت سے کاروبار کی طرف شفٹ کرنا ہو گا‘ اس سے ہمارے بچے بھی خوشحال ہو جائیں گے‘ ملک میں ان پڑھ اور بے ہنر لوگوں کے لیے نوکریاں بھی نکلیں گی اور حکومت پر جابز کا دباؤ بھی کم ہو جائے گا اور تین‘ ہم میں سے ہر شخص کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر ہونا چاہیے‘ ہم خواہ پی ایچ ڈی ہوں‘ ہم خواہ ارب پتی ہوں اور ہم خواہ وزیراعظم ہوں‘ ہمیں کوئی نہ کوئی کام‘ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھنا چاہیے۔

اس سے ہم کام کی عظمت سے بھی آگاہ ہوں گے اور ہمارے دل میں کام کرنے والوں کااحترام بھی پیدا ہوگا‘ امریکا میں ہر شخص کے پاس اپنا ’’ٹول باکس‘ ہوتا ہے اور یہ عموماً گھر کے نلکے سے لے کر چھتوں کی مرمت تک خود کرتا ہے‘ اس وجہ سے امریکا میں موچی‘ نائی‘ ترکھان‘ لوہار اور سویپر کو بھی عزت دی جاتی ہے کیونکہ وہاں جارج بش اور بارک حسین اوباما بھی یہ کام جانتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں