آسیہ سے اسرائیل تک، لبرل طبقے کی سٹریٹیجی کیا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عاصم حفیظ …….

پاکستان کی قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ یہودیوں سے دوستی کا مطالبہ سامنے آیا ۔ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی ممبر عاصمہ حدید نے اس پر "اسلامی دلائل” دئیے ۔ انہوں نے قبلہ کی تبدیلی کو یہودیوں کو خوش کرنے کی کوشش قرار دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل سے بتایا جبکہ یہاں تک کہا:نماز میں درود ابراہیمی دراصل یہودیوں کےلئے دعا ہے ۔ مسلمانوں کی بقا اور عالمی امن کی ضمانت یہی ہے جلد از جلد یہودیوں سے دوستی کی جائے اس کے لئے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدوں کی مثال دی۔
اس تقریر کا ایک پہلو سیاسی اور قومی بحث ہے جو شروع ہو چکی ہے ۔ ہمارے ہاں کی روایات کے مطابق حکومت کے حامی اس کی تاویلیں کر رہے ہیں ۔ ہر صورت اور ہر معاملے میں سپورٹ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد میسر ہے ۔ کچھ اگر اعلانیہ حمایت نہیں کر سکتے تو خاموش ہوکر معاملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں البتہ مخالفت نہیں ۔ کچھ دینی حلقے اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ان کی مین سٹریم میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ تک زیادہ رسائی نہیں ہے ۔
اس معاملے اور حالیہ عرصے میں پیش آنیوالے دیگر واقعات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ ایک الٹرا ماڈرن خاتون کو تاریخ ۔ سیرت اور علمی حوالے کس نے دئیے ۔ اس ممبر اسمبلی نے کچھ ایسے سوالات اٹھانے کی کوشش کی کہ جنہوں نے سوچنے پر مجبور کردیا ۔ سوالات چونکہ دینی ہیں اس لئے اہل علم اب دلائل سے جوابات تیار کر رہے ہیں ۔ اس صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے سوالات جب اُٹھائے جاتے ہیں تو ایک بڑا طبقہ جو کہ سیکولر خیالات کا حامی ہے٫ ماڈرن تعلیم یافتہ ہے وہ تو فوری متاثر ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے علمائے کرام کے جوابات نہیں دیکھنے کیونکہ انہیں یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ یہ طبقہ تو "جاہل گنوار اور شدت پسند” ہے ۔ اصل دین تو یہی ہے جو محترمہ فرما رہی ہیں ۔
اس سے پہلے آسیہ کیس میں بھی یہی دیکھا گیا ۔ ایک انتہائی متنازعہ فیصلے کو کلمہ شہادت سے شروع کیا گیا، قرآن و حدیث کے دلائل کا انبار لگا دیا گیا ۔ اس فیصلے کا نہ صرف اردو ترجمہ ہوا بلکہ منٹوں میں اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا بھی گیا ۔ فیصلے پر حکومت کا دفاع کرنیوالوں کا فوری مطالبہ یہی تھا کہ فیصلہ پڑھا جائے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سب سے چھوٹی سورت تلاوت کرنے کے لئے کوئی دستیاب نہ ہو اگر پڑھے تو غلط پڑھے اور جہاں اعلی ترین عدلیہ کے ججز برطانوی لاء کالجز کے گریجویٹ ہوں وہ اگر فقہ ۔ قرآن و حدیث کے گہری علمی دلائل اور ایسے سوالات اٹھانا شروع کر دیں کہ جن کے جواب کے لئے بڑے بڑے مفتی اور شیوخ الحدیث کو میدان میں آنا پڑ جائے تو معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے ۔
آسیہ کیس میں عام شہری ذمی کے حقوق اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے دلائل پر بحث کر رہا تھا ۔ قانون شہادت کی تشریحات کے سوال اٹھائے جا رہے تھے ۔ ایسے مدلل فیصلے اور علمی و فقہی نقطے کوئی پوری طرح سمجھا کے بھیجے تو ہی بیان ہو سکتے ہیں ۔ آسیہ کیس کے فیصلے کے بارے میں بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دینی علوم پر بھرپور دسترس رکھنے والے کسی سکالر کے دلائل کا مجموعہ ہے ۔ اب یا تو واقعی ان ججز نے درس نظامی کے بعد دینی علوم ۔ فقہ ۔اسلامی قانون کی باریکیوں میں سالوں کی محنت کی ہے یا پھر انہیں یہ سب دلائل ریڈی میڈ کہیں سے تیار کرکے دئیے گئے ہیں ۔ دینی طبقے کو اس بارے بھرپور تیاری کرنی ہو گی کہ آنیوالے دنوں میں مزید ایسے سوالات اٹھائے جائیں گے جن پر عوام کو مطمئن کرنے کے لئے بہت محنت درکار ہو گی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کسی منصوبہ ساز نے سوچ لیا ہے کہ اس معاشرے کو اب اسلامی دلائل میں ہی الجھانا ہے ۔ "ریاست مدینہ” کے بڑے سے ٹائٹل کے نیچے اب ہر بحث بظاہر قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے دلائل کی بنیاد پر ہو گی ۔ ہر کچھ عرصے بعد ایک نیا شوشا چھوڑا جائے گا اور اس سے متعلقہ دینی دلائل۔ لبرل و ماڈرن طبقے اس کے حق میں دلائل دیں گے اور جب تک علمائے کرام اور دینی سکالرز قرآن و حدیث کی مستند تعلیمات سے اس کا رد کریں گے اس وقت تک یہ ایشو ایک بڑے طبقے کو متاثر کر چکا ہو گا اور کوئی نئی بحث شروع کرا دی جائے گی۔ ایک طرف کنٹرولڈ میڈیا اور سوشل میڈیا کے بےپناہ وسائل کے حامل بڑے نیٹ ورکس جبکہ دوسرے جانب معاشرے میں محدود کر دیا گیا دینی طبقہ ۔ تیاری کر لیں اب مقابلہ دینی دلائل کا ہو گا ۔ تاریخ اسلامی اور فقہ کی کتابوں سے ہی ایسے واقعات و دلائل لائے جائیں گے جن سے سوالات جنم لیں گے ۔ آسیہ کیس کے معاملے میں فیصلے کے نکات اور اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی کو ایک شاعر کا منہ بند کرنے کا من گھڑت واقعہ بڑے پیمانے پر وائرل کرنا اس کی مثالیں ہیں جبکہ قومی اسمبلی جیسے بڑے فورم پر یہودیوں سے دوستی کے لئے قبلہ کی تبدیلی اور درود ابراہیمی کو یہود کے لئے دعا قرار دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں