سیدمنور حسن، سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان

سید منورحسن کا گھرانا، انکے جانے کے بعد

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

افشاں نوید :

سید منورحسن رحمہ اللہ تعالیٰ کی اہلیہ سےعید سے کچھ پہلے ملاقات ہوئی۔
شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔
تنہا کمرے میں قرآن پڑھ رہی تھیں۔

میں نے سلام دعا کے بعد پوچھا:
” عائشہ باجی ! کیسے لگتے ہیں شام وسحر منور صاحب کے بن؟“

بولیں: ” تکلیف بڑھتی جارہی تھی، دیکھی نہیں جاتی تھی۔“
اچھی جگہ چلے گئے ان شاءاللہ اس کی رحمت کے سائے میں ہوں گے۔

یہ تو عارضی جدائی ہے۔ دعا کرو اس کی جنتوں میں اکٹھے ہوں۔ ہمیشگی تو وہاں ہے۔ یہاں تو مسافرت کا گھر۔
اس وقت تو آنے جانے والے تنہا نہیں ہونے دے رہے۔
شریک حیات کی جدائی معنی تو رکھتی ہے۔
جو آزمائش دیتا ہے وہ صبر بھی عطا کرتا ہے۔

میں نے کہا: ” کچھ ان کے آخری ایام کے بارے میں بتائیں؟ “
بولیں: ” خاموش طبع تھے۔ بتاتے تو کچھ تھے نہیں اس لیے خود محسوس کرنا ہوتا تھا۔ بیماری کی شدت میں بھی نہ کوئی مطالبہ، نہ آہ و بکا، نہ پریشانی کا اظہار۔
کچھ ایسا نہیں کیا کہ ہم گھبرا جائیں۔

بس ان کے اعصاب جواب دیتے جارہے تھے۔
یادداشت تو تقریباً دو برس سے متاثر تھی۔
کہہ کر بھول جاتے، رکھ کر بھول جاتے۔

مجھے ذاتی خرچ کے لیے پیسے دیتے تھے۔
پچھلے دوبرس کے پیسے میں نے الگ ہی رکھے ہیں خرچ نہیں کیے۔۔ گمان گزرتا تھا کہ یادداشت کمزور پڑ رہی ہے ایسا نہ ہو کسی کی امانت کے پیسے رکھے ہوں بھول کر اس میں سے دے دئیے ہوں۔

میں نے بیٹی سے ذکر کیا کہ پچھلے دو برس کے ابو کے کوئی پیسے میں نے احتیاطاً خرچ نہیں کیے۔
بیٹی بولی: ہاں! ابو ملاقات پر گاہے گاہے مجھے بھی جو پیسے دیتے تھے اتفاق سے میں نے بھی خرچ نہیں کیے، الگ ہی رکھے ہیں۔ مجھے بھی گمان گزرتا تھا کہ ابو کی یاداشت کبھی کبھی بہت متاثر لگتی ہے۔ شک کی چیزوں سے بچنا ہی چاہیے۔“

میں نے سنا اور سوچا۔ یہ اس معاشرے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جہاں۔۔۔۔
کرپشن بھی پکڑی جاتی ہے تو اربوں کی ہوتی ہے لاکھوں کی نہیں۔
جہاں پلازے، پٹرول پمپ بنائے جاتے ہیں، شوگر ملیں لگائی جاتی ہیں قومی دولت پہ قبضہ کرکے۔

یہ ایک مثال نہیں، ہمارے اطراف ایسے ہزاروں لوگ ہوں گے جو تقویٰ کے اسی اعلیٰ درجہ پر فائز ہوں گے۔
زندگی یونہی پھونک پھونک کر احتیاط کے ساتھ گزارتے ہوں گے۔
بہت ذمہ داری کا عنوان ہے مسلمان ہونا۔
جی خوش ہوتا ہے ان صحبتوں میں بیٹھ کر۔

سماج میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں الحمدللہ
مگر شومئی قسمت کہ
قوموں کی برادری میں ہم اپنے حکمرانوں سے پہچانے جاتے ہیں۔

جس ملک کے ایسے محتاط باشندے ہوں وہ دنیا کے ملکوں میں کرپشن کی دوڑ میں وننگ اسٹینڈ کے اریب قریب ہی نظر آتا ہو۔
چودہ اگست کا جشن سرگوشی میں کہہ رہا ہے کہ
اچھے لوگوں کے اچھے حکمران ہونا چاہئیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں