نرم کھلونے اور ایک خوبصورت بچی

آئیں ! نرم کھلونوں کا کاروبار کرتے ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

سڑک پر جارہے ہوتے ہیں. آپ کے سامنے والی گاڑی کے عقبی عرشہ ( Rear deck) پر ایک بڑا سا شنیل کا بنا چیتا بیٹھا ہوتا ہے. کسی کی پچھلی ونڈشیلڈ کے ساتھ پیلا بھالو یا سرخ رنگ کا بنا دل لٹک رہا ہوتا ہے. یہ سب کپڑے سے بنے ہوئے روئی بھرے کھلونے یا نرم کھلونے (soft toys) کہلاتے ہیں. ان کی ان گنت اقسام اور سائز بنائے اور بیچے جاتے ہیں. گاڑیوں، گھروں، بطور خاص بچوں کے کمروں اور کمرہ جماعت رکھے جاتے ہیں. اس کے علاوہ کی چین بھی بنتے ہیں. دنیا بھر میں ان کا لاکھوں ڈالر کا سالانہ کاروبار ہوتا ہے.

صرف امریکا نے سال 2017 میں ایک ارب ڈالر کے نرم کھلونے درآمد کیے. چین دنیا بھر میں کھلونے بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے جس میں تیس ہزار سے زائد کارخانے ہیں جہاں ساٹھ لاکھ کاریگر ، سالانہ گیارہ ارب ڈالر کے زیادہ کھلونے بناتے ہیں جو دنیا بھر کو برآمد کیے جاتے ہیں.

ان میں تیس فیصد حصہ سافٹ ٹوائز کا ہے. دنیا بھر میں ان کی مانگ کو دیکھتے ہوئے بھارت بھی اس میدان میں کود پڑا ہے. لیکن ابھی ان کے ہاں اس معیار کا کپڑا بنانے کا انتظام کم ہے لہٰذا چین سے کپڑا درآمد کرنے کے بعد کھلونے بناکر برآمد کیے جاتے ہیں. چین کے تاجر بھی بھارت سے اپنا کپڑا فراہم کرتے ہوئے کھلونے بنواتے ہیں، جو بعد ازاں یہاں سے امریکا اور یورپی ملکوں کو برآمد کیے جاتے ہیں.

اب آپ تصور کہ کتنا مشکل کام ہے. کتنی مہارت یا سرمایہ کاری درکار ہے. ایک سلائی مشین اور ایک قینچی سے آپ ہر طرح کے سافٹ ٹوائز بناسکتے ہیں. شروع میں پاکستان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جائیں. جیسے جیسے مہارت حاصل ہوتی جائے گی برآمد کی طرف بھی جایا جاسکتا ہے.

کپڑے کے میدان میں ہم پہلے ہی بہت برآمدات بھی کرتے ہیں اور جدید ڈیزائن کے کپڑے بنانے کی مشینری اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن آغاز میں اگر عالمی معیار کے کھلونے بنانے کے لیے بھارت کی طرح کپڑا چین سے درآمد بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں. رفتہ رفتہ وہ بھی یہاں بننا شروع ہوجائے گا.

ان کھلونوں کے اندر جو مصنوعی روئی بھری جاتی ہے اسے پولی ایسٹر بال فائبرز کہتے ہیں. یہ مشروبات کی خالی پیٹ بوتل کے اسکریپ سے بنتا ہے. اس کیلئے ایک چھوٹی سی مشین درکار ہوتی ہے جیسے بال فائبر مشین کہتے ہیں.

چین سے یہ مشین چار سے چھ لاکھ کی ملتی ہے یہاں پہنچ کر چھ سے نو لاکھ کی پڑے گی. صاف کیا ہوا کاٹا گیا، پولی ایسٹر یا پیٹ اسکریپ پچہتر روپے فی کلو دستیاب ہوتا ہے. اس میں بھی اگر سبز رنگ کی بوتلوں کا سکریپ لیا جائے تو وہ قریب پچاس روپے فی کلوگرام ملتا ہے.

چھ سے آٹھ لاکھ میں ملنے والی بال فائبر بنانے والی مشین سے آٹھ گھنٹے میں ایک سو کلوگرام تک بال فائبر بنائے جاسکتے ہیں جن کی مجموعی لاگت سبز کیلئے پچہتر اور سفید کیلئے ایک سو روپے پڑے گی. بازار میں اس وقت ساڑھے تین سو روپے فی کلو گرام فروخت ہورہا ہے. اس مشین کی فزیبیلٹی بھی بہت اچھی ہے.

یاد رہے کہ اسی مشین سے حاصل کیا گیا، یہی بال فائبر، پولی ایسٹر رضائیوں، گدوں اور سردیوں میں پہنی جانے والی جیکٹس میں بھی استعمال ہوتی ہے. کچھ لوگ یہ مشین منگوا کر لگا لیں. اور کچھ لوگ اس کی مارکیٹنگ کا کام شروع کرلیں. مختلف ڈیزائن سکول اور فائن آرٹس کے طلباء کو پراجیکٹ کے طور پر نئے کھلونوں کی ڈیزائن کا کام دیا جاسکتا ہے.

اس کا بزنس ماڈل کچھ اس طرح بن سکتا ہے کہ مارکیٹنگ کی صلاحیت رکھنے والے کچھ دوست، بازار سے کھلونے لیکر اس کی ریورس انجینئرنگ کرلیں. اس کے کٹائی کے فرمے بناکر، گلی محلوں میں ان خواتین کو جو اس کام میں دلچسپی رکھتی ہیں، ان کو دیں. ساتھ ہی خام مال مہیا کریں . اگر نئے یا کسٹم ڈیزائن درکار ہوں تو کالج سے یا ماہرین سے کروایا جاسکتا ہے. پھر ان سے مال بنوا کر معیار کی جانچ کرتے ہوئے پیک کروا کر مارکیٹ میں سپلائی کریں.

اس کے علاوہ اس کام کو باقاعدہ صنعت کے طور پر بھی کیا جاسکتا ہے. جس میں ڈیزائن سے لیکر، کٹائی، سلائی، بھرائی اور معیار کی جانچ پھر پیکنگ سب ایک چھت کے نیچے کی جائے گی.

چین میں مختلف کارخانوں کا دورہ کرتے ہوئے ہم نے اس کام میں سب سے زیادہ احتیاط ان کو سوئی سے متعلق کرتے دیکھا. کسی بھی طرح سلائی یا بھرائی کے کسی بھی مرحلے پر سوئی یا اس کا کوئی ٹوٹا ہوا حصہ کھلونے میں نہیں رہنا چاہیے. کیونکہ یہ زیادہ تر بچوں کے کھیلنے کیلئے ہیں، جن کو نہ زیادہ سمجھ ہوتی ہے اور نہ شعور. لہذا کسی بھی غفلت یا چوک کی صورت میں انہیں گزند پہنچنے کا خطرہ موجود رہتا ہے. وہاں کارخانوں میں سوئیاں باقاعدہ شناختی کارڈ پر دی جاتی ہیں. اور خراب سوئی واپس کرنے پر ہی نئی فراہم کی جاتی ہے.

نیز کارخانہ کے داخلی دروازے پر اس قدر زبردست میٹل ڈیٹیکٹرز لگے ہوتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی سوئی گھر سے ساتھ نہیں لاسکتا. اسی طرح سلائی اور بھرائی کے ہر ہر مرحلہ پر کھلونوں کو میٹل ڈیٹیکٹرز سے گزارا جاتا ہے. فائنل پیکنگ کے بعد بھی ایک بار جانچ ہوتی ہے. یہ ایس او پی ہم بھی رفتہ رفتہ سیکھ سکتے ہیں ایسی کیا بڑی بات ہے.

آج کل سماجی ذرائع ابلاغ کی وجہ سے کاروبار کی ایک بالکل نئی جہت آن لائن مارکیٹنگ سامنے آئی ہے. تھوڑی پڑھی لکھی خواتین اس کاروبار کو آن لائن مارکیٹنگ کے ساتھ بھی کرسکتی ہیں.

بات صرف ذرا سی ہمت کرنے کی اور ذرا سا تفکر کرنے کی ہے. مثبت امکانات کے لامحدود جہاں ہمارے منتظر ہیں.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں