ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

ڈرامے کی ہیروئنیں اور ہیرو

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرجویریہ سعید :

ویسے تو ڈراموں کی ہیروئنیں اکثر کم پڑھی لکھی، کند ذہن اور جھینپو ٹائپ مظلوم لڑکیاں ہوتی ہیں یا پھر دوبارہ کم پڑھی لکھی ، کند ذہن مگر تیز طرار لڑکیاں ہوتی ہیں جو نہ کام کی ہوتی ہیں نہ کاج کی۔ اور ان کی ماؤں کی نالائقی اکثر ان ہیروئنوں کی حرکتوں اور سرگرمیوں سے نظر آرہی ہوتی ہے۔

لیکن کچھ ڈراموں کی ہیروئن ورکنگ وومن بھی ہوتی ہے۔ مگر ٹھہریے یہ بھی پڑھی لکھی ذہین اور سلجھی ہوئی شخصیت کی مالک نہیں ہوگی۔ بلکہ ملینیئر ابا کی نالائق ، مغرور اور بددماغ اکلوتی اولاد ہوگی۔

سچ یہ ہے کہ ان تمام ہیروئنوں کی اصل خوبی ان کا حسن و ادا ہے ورنہ حسن و ادا کے بغیر اس قسم کی حرکتوں کو کوئی مائی کا لال برداشت کرکے دکھائے تو مانیں۔

تو جب حسن و ادا موجود ہو تو عوام کو بے وقوف بنانا کیا مشکل ہے۔ ساری عوام دل پکڑے ڈرامے بھی دیکھے جاتی ہے۔ اور ان کم پڑھے لکھے فارغ خواتین وحضرات کے مسائل پر ان کے ساتھ ہنستی اور روتی جاتی ہے۔

خیر آج ہمیں ہیروئن سے لینا دینا نہیں۔ ہمارا فوکس کوئی اور ہے۔
کہنا یہ تھا کہ یہ جو ملینیئر باپ کی حسین مگر نالائق ، کند ذہن اور بددماغ یا معصوم بیٹی ہوتی ہے اس کے پیچھے ایک گدھا نما ہیرو لگا ہوتا ہے۔

اس بندے کی نہ عزت نفس ہوتی ہے نہ اس میں کوئی خاص عقل پائی جاتی ہے۔ ظاہر وہ یہی کرتا ہے کہ دولت پر نہیں خاتون پر دل آگیا ہے، مگر گدھوں والی حرکتوں سے اکثر اس پر وہی والا غصہ آتا ہے جو عموما مظلوم ہیروئنوں کی ماؤں پر آتا ہے۔

ایسے ہی ایک ہیرو کو سائکائٹرسٹ کے روپ میں گدھے نما حرکتیں کرتے دیکھ کر خاصی کوفت ہوئی۔ مگر سنا ہے کہ عوام کو خاصا پسند ہے۔

اسی بنا پر یہ ہم نے اور ہماری ان سہیلیوں نے جو ان ڈراموں کی پرستار ہیں یہی فیصلہ کیا کہ ہمیں حسب معمول ڈراموں سے دور ہی رہنا چاہیے ۔
اس سے زیادہ دلچسپ ڈرامے ہمارے اسپتال میں روز ہوتے ہیں۔

یہ جس ڈرامے کا تذکرہ ہے،اس کے سارے مرد گھامڑ ہیں ، ذرا غور فرمائیے گا۔
ایک مرد پھاپے کٹنی دوست ہوکر بھی۔
ایک مرد بے بس اور بھولا سائکائٹرسٹ ہو کر بھی۔

ایک مرد پڑھا لکھا انجینئر مگر اتنا بے با کہ وہ تو اپنی بیوی کا بھی چھوٹا بھائی ہی لگ رہا ہے۔ بہن چانٹے لگاتی ہے، بیوی پپولتی ہے، ماں بلائیں لیتی ہے، دوست الو بناتا ہے، باس عزت اتار دیتا ہے۔ لڑکی بیستی کردیتی ہے۔

اس سے جب کچھ نہیں ہوتا تو چپل پہن کر نیک شریف بچے کی طرح کھڑکی کی طرف منہ کرکے بیٹھ جاتا ہے یا منہ لٹکا کر چپ چپ پھرتا ہے۔
ایک مرد گھٹیا اور ظالم باپ ہے،
ایک مرد گھٹیا اور کرپٹ۔۔ پہلے ملازم اور پھر باس،
دو مرد بے چارے اور ایماندار ملازم
ہیروئن نما ولن ورکنگ ویمن کے رعب حسن کے سامنے سارے گنگ ہیں۔

ایک نانی کے بھوت کا آسرا تھا ، وہ بھی گھامڑ سائکائٹرسٹ نے بھگا دیا۔ کیسے؟ سیشن کیے نہ دوا دی، وہی نجی ملاقاتیں اور شادی کا پروپوزل ۔۔۔ کیا خیال ہے؟

اور ساری عوام ان حسین آنکھوں، لب و رخسار اور چست مغربی لباس کے ساتھ ادائیں دکھاتی کم ذہین خاتون کے بارے میں لکھتی جاتی ہے۔۔۔۔۔
"Miral’s character is so mesmerising”

آخر میں ایک گزارش ہے
خدارا یہ نصیحت نہ کیجیے گا کہ
” آپ اپنی اس پوسٹ سے اس ڈرامے کی ریٹنگ بڑھا رہی ہیں۔ “

مجھ گمنام پڑھی لکھی،عمر رسیدہ، کم صورت سڑوس اور ” بدذوق “ خاتون کے ارشادات گرامی کے بغیر بھی اس کی فین فالوونگ ہزاروں لاکھوں میں ہے۔

میں متاثر ہوسکتی تھی مگر اس سے زیادہ حسین لڑکیوں کو پرانی پتلون اور بوسیدہ ٹی شرٹ میں رات ساڑھے دس بجے برفانی سردی میں سڑکوں پر بھیک مانگتے اور شراب کے لیے گلی میں پھرتے دیکھ چکی ہوں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں