چنگیز خان کی فوج کی جنگ

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا غزل :

” اگر ہمیں سچا دین نہ ملا ہوتا تو ہم واقعی کتے سے بھی بدتر ہوتے۔ “
شہزادہ تغلق تیمور نے چونک کر شیخ جمال الدین ایرانی کی بات سنی اور سوچا کہ آخر یہ کون سا دین ہے جس کے ماننے والے کو اس پر اتنا ناز ہے۔

اور پھر فی الفور ان کے قتل کا ارادہ ترک کر کے اسلام کے بارے میں سوال کیا۔ شیخ کے جواب کے بعد اسلام کی حقانیت اس پر عیاں ہوگئی اور وہ ایمان لے آیا۔

طے شدہ منصوبے کے مطابق اس کے بادشاہ بننے تک اس کے قبول اسلام کو مخفی رکھنا تھا جس میں کافی وقت لگا اور شیخ کا وقت وصال قریب آگیا تو جانے سے پہلے شیخ یہ راز اپنے بیٹے شیخ رشید الدین کو دے گئے جنھوں نے شہزادے کے بادشاہ بن جانے کے بعد دربار تک رسائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر کامیاب ہوئے یوں بادشاہ اور رعایا مشرف بہ اسلام ہوئے۔

تاتاریوں،منگولوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوگیا تھا،
ایک طرف چنگیز خان کے پوتے برکہ خان نے اسلام قبول کیا اور اپنے چچا زاد ہلاکو خان کی فوج کو زیر و زبر کیا اور پھر خود ہلاکو خان کے بیٹے نے اسلام کی حقانیت کو تسلیم کر لیا اور ایمان لے آیا۔

اسی طرح چغتائی خان کے پرپوتے براق خان نے اسلام قبول کیا۔

دوسری طرف ہمارے سامنے وہ غدار ہیں جنھوں نے مذہبی حمیت کو بالائے طاق رکھ کر ضمیر کا سودا کیا۔
کہیں سعد الدین کوپیک کی ہوس ملک گیری اور غیروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی سازشیں ہیں۔
کہیں نظام دکن اور میر جعفر و میر صادق جیسے غدار ہیں جنھوں نے دین سلطنت اور ریاست کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے سخت نقصان پہنچایا۔

کہیں مصطفی کمال پاشا کی نیلی آنکھوں کی ملک و ملت سے بے وفائی ہے۔ یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ ہی لارڈ کرزن کی ان شرائط کا ماننا جن کے نتیجے میں دستور سے سرکاری مذہب اسلام کی شق خارج کرکے ملک بھر میں دینی مدارس اور مذہبی تعلیم پر پابندی لگادی گئی۔

پردہ کو قانوناً جرم قرار دے دیا گیا، یورپی لباس پہننا ضروری قرار دے دیا گیا۔ مزاروں پر جانے اور دعائیں مانگنے پر پابندی لگا دی گئی۔ شمسی کیلنڈر رائج کرکے جمعہ کی چھٹی ختم کر کے اتوار کی چھٹی کا اعلان کیا گیا۔عربی زبان میں قرآن کریم کی اشاعت پر پابندی لگا کر اور ترکی کا عربی رسم الخط منسوخ کردیا گیا، رومن رسم الخط اختیار کر لیا گیا۔ نماز، دعا اور قرآن کریم کی تلاوت کو ترکی زبان کا پابند کردیا گیا۔

مسلمانوں کے عروج میں جہاں مسلمان مجاہدوں کا حصہ ہے وہیں زوال میں بھی دشمن کے ساتھ آدھا حصہ غداروں کا ہے۔

اب ایک طرف عرب امارات کا اسرائیل جیسے سفید شیطان کو تسلیم کر لینا اور مسلم ممالک میں اسے تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی کشمکش کاپیدا ہونا اور واضح موقف کا سامنے نہ آنا گو کہ خون کے آنسو رلاتا ہے، دل ڈوب ڈوب کر ابھرتا ہے ، آنکھیں ایک بڑے حصے کو تاریک دیکھ رہی ہیں لیکن امت مسلمہ کے زوال کے بعد عروج کی نشانیاں جو ہم پڑھتے آئے ہیں ان کو یاد کر کے انھی تاریکیوں سے آس کے جگنو نکلتے دکھائی دیتے ہیں جو یہ پیغام دیتے ہیں کہ انھی تاریکیوں سے نوید انقلاب پھوٹے گی کہ:

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

اللہ ہمیں وہ بینائی عطا فرمائے جو ہر منظر میں حق کو پہچان سکے ۔ آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں