مجرم کار ڈرائیور پر پستول تانے ہوئے

موٹر وے گینگ ریپ : انسانیت سوز واقعہ ، مسئلہ اور حل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ثاقب محمود عباسی :

موٹروے پر پیش آنے والے انسانیت سوز واقعے پہ بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ عام آدمی سے لے کر دانشورانِ قوم تک سارے لوگ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مسئلے پہ بات اور اس کا حل بھی پیش کررہے ہیں ۔ اس سارے معاملے پر مگر کوئی بھی شخص بنیادی مسئلے بلکہ تمام مسائل کی جو جڑ ہے اس ایشو پہ بات کرتا نظر نہیں آتا ہے۔

بسا اوقات حیرت ہوتی ہے بڑے بڑے نابغے اور جینئس بھی بس سطحی باتیں کرتے ہی نظر آتے ہیں ۔ دو دن کسی مسئلے پر خوب دھول اڑائی جاتی ہے، تیسرے دن کوئی نیا ایشو سامنے آنے پر پرانا مسئلہ چاہے وہ کتنا اہم اور حساس کیوں نہ ہو پسِ پردہ چلا جاتاہے۔

موٹروے پر خاتون کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تو ہو سکتا ہے مگر نا تو پہلا واقعہ ہے نا آخری ۔

ایسے میں عام لوگ اگراپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے عمومی و سطحی باتیں کریں تو انہیں اجازت دی جا سکتی ہے ، مگر دانشورانِ قوم کو ایسے واقعات پر مقبول باتیں کرنے کے بجائے مساٸل کا حل سامنے رکھنا چاہیے اور ساٸینٹیفک انداز میں رائے عامہ و اربابِ اختیار کو مسئلہ سمجھا کر اس کے حل کے لیے قائل کرنا چاہیے۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ لاقانونیت ہے ۔ اس مسئلے کو حل کیے بغیر دیگر تمام مسائل اوران کے حل پہ بات کرنا محض وقت گزاری ہے یا پھر ریٹنگ کے حصول کا چکر۔

قانون کی حکمرانی قائم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے بلکہ یوں کہیے کہ ریاست کے قیام کا مقصد ہی قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوتا ہے ۔ صنعا سے حضرموت تک سونے سے لدی پھندی خاتون کے سفر کرنے کی جو تمثیل پیارے آقاﷺنے بیان کی تھی ، وہ دراصل قانون کی حکمرانی کی انتہائی شکل ہے۔

ریاست کا یہ کام ہے کہ وہ ہر شہری کی بلا امتیاز جان ، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔ انہی شراٸط پہ ریاست کے شہری سوشل کنٹریکٹ کرتے اور اپنی ذاتی طاقت کےاستعمال کو ترک کردیتے ہیں ۔
پاکستان کو بدقسمتی سے ورثے میں نوآبادیاتی ماضی، نظام ، قانون ، ادارے اورمزاج ملا ۔ نوآبادیاتی نظاموں کے خمیر میں ہی قانون کی بالادستی نہیں ہوتی ۔ وہ نظام بنایا ہی آقاٶں کے تحفظ اور غلاموں کو زیرِنگین رکھنے کے لیے جاتاہے۔

ہمیں مقتدر طبقہ بھی انگریزوں کا غلام ملا ، فوج اور بیوروکریسی بھی ، جن کے تمام ہتھکنڈے آج بھی کالونیل دور کے ہیں ۔

جرائم دنیا بھر میں ہوتے ہیں مگرترقی یافتہ ممالک میں ان کی شرح نہایت کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ قانون کی حکمرانی کا قیام ہوتاہے۔

قانون کی حکمرانی سے مراد ایسا نظامِ انصاف ہے جہاں بلا تفریق سب کو انصاف ملتا ہو۔ امیر ہو یا غریب ، حاکم ہو یا رعایا ، مقتدرہ ہو یا عوام ، جو جرم کرے گا اسے سزا ملے گی ۔

پاکستان میں قانون کی حکمرانی اس لیے قائم نہیں ہوتی کہ یہاں کی مقتدرہ کے لیے قانون گھر کی لونڈی ہے ۔ ان کو انصاف چاہیے ہی نہیں ہوتا اور اگر چاہیے ہو تو وہ اپنی دولت اور اختیار سے اسے خرید لیتے ہیں ۔ قانون کی حکمرانی کی ضرورت تو عام آدمی کو ہوتی ہے کہ اس کے پاس انصاف خریدنے کے وسائل اور اختیارات نہیں ہوتے۔

ملک کی اشرافیہ کو آخر کیا پڑی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کرے جہاں مشرف کو بھی سزا ملے، نواز شریف ، زرداری ، ترین ، گیلانی اور عمران سب قانون کے کٹہرے میں ایک جیسے ہوجائیں ؟ عام آدمی کی طرح انصاف یا سزا پائیں؟ اگر ایسا ہو جائے تو پھر آقا و غلاموں میں تخصیص کیونکر ہو سکے گی ؟

قانون کی حکمرانی نوے فیصد عام عوام کا مسئلہ ہے ۔ کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا جب تک قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوجائے ۔ ایسا ہوجائے تو پھر اداروں کو اپنی حد میں رہنا پڑے گا ، سیاستدانوں کو عوام کی خدمت کرنی پڑے گی، بیوروکریسی کو سچ مچ کا سول سرونٹ بننا پڑے گا، عدلیہ کو انصاف دینا ہی پڑے گا اور میڈیا کو سچ اور حق کی آواز بننا پڑے گا۔

جب تک اس مسئلے پہ رائے عامہ ہموار نہ کی جائے تب تک اس اونٹ کی کوئی کل سیدھی ہو ہی نہیں سکتی ۔

ایک بیدار اور باشعور رائے عامہ صرف ڈنڈے کے زور پہ ہی اپنا یہ حق منوا سکتی ہے ورنہ ساہیوال کا واقعہ ہو، حیات بلوچ کا قتل ہو، جبری گمشدگیاں ہوں ، میرٹ کا قتل ہو یا آئی جیز کی تبدیلیاں ، بیرون ملک جائیدادیں، اثاثے ہوں یا آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا ، ریلوے حادثات ، ہوائی جہازوں کا کریش ہونا ، ووٹوں کے بکسوں کا غائب ہونا ، خارجہ پالیسی کی ناکامی ، کرکٹ ٹیم کی ہار ، اقتصادی خسارے اور کرپشن ، نظامِ تعلیم کی زبوں حالی یا پھر سرعام قتل ، ڈکیتی اور ریپ کے کیسسز ۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی ایک مسئلہ بھی قانون کی حکمرانی قائم کیے بغیر سدھارا جا سکتا ہو؟

اب سن لیں قانون کی حکمرانی قائم جب تک نہ ہوگی ، عوام الناس میں سے صرف قسمت والوں کی ہی جان ، مال اور عزت و آبرو محفوظ رہ پائے گی ۔ اور قسمت پہ بھروسہ آخر کس حد تک کیا جاسکتاہے؟

قانون کی حکمرانی متقاضی ہے سیاسی استحکام اور سیاسی عمل میں عوامی نمائندگی و بھرپور شرکت کی۔ غلامی کی باقیات نظام قانون کو بدلنے ، پولیس ایکٹ میں تبدیلیوں ، پولیس ریفارمز اور تیز ترین انصاف کی فراہمی کے میکانزم کے قیام کی ۔

یہ سب مگر تب ہوگا جب پارلیمنٹ کی پچاس سے ساٹھ فیصد نشستوں پر عام آدمی ، عام آدمی کی نمائندگی کرنے کے لیے بیٹھا ہوگا۔

موجودہ واقعہ انتہائی قابلِ مذمت ہے مگر مذمت سے کام کب چلتا ہے؟
اگر آٸندہ ایسے واقعات کو روکنا ہے تو مسئلے کو جڑ سے پکڑیں وگرنہ جان رکھیں کل ایسا واقعہ آپ کے ساتھ بھی خدانخواستہ پیش آیا تو دودن کی مذمت کے بعد تیسرے دن آپ کسی کو یاد بھی نہ ہوں گے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں