رضوان رانا، اردوکالم نگار

زر کا سفر : تعریف اور تاریخ کے تناظر میں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا :

ہمارے ملک کے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر پاکستانی معیشت میں نئی جان آجاتی ہے اور ملک بھرمیں اربوں روپے کا لین دین اور جانوروں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے.

اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں تقریباً 73 لاکھ قربانی کی کھالیں جمع ہوتی ہیں، جس سے لیدر انڈسٹری کو خام مال ملتا ہے اور یوں اس شعبے میں بھی روزگار کے مواقع جنم لیتے ہیں.

چارے ، بھوسے کا کاروبار، قربانی کے اوزار، جانوروں کی دیکھ بھال اور انتظامات، مویشیوں کے لیے ٹرانسپورٹ، منڈیوں میں مزدوروں کے لیے کام کے مواقع، قصّابوں اور کھالوں سے متعلق شعبوں سمیت کتنے ہی کاروباروں کو زندگی ملتی ہے ، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو روزگار میسّر آتا ہے.

جہاں لوگ سنت ابراہیمی اور مذہبی فریضہ انجام دیتے ہیں وہاں ملک پاکستان میں کچھ دنوں کے لیے ایک’’ کیٹل انڈسٹری‘‘ وجود میں آ جاتی ہے، جس سے لاکھوں افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اُٹھاتے ہیں.

کاروبار سے ہی منسلک ہے پیسے کی ریل پیل اور تقسیم زر ، جو معاشرے میں افراد کو باندھے رکھتی ہے. ایک کی جیب سے نکل کر زر دوسرے کے ہاتھ میں جاتا ہے تو پیسے کی اس سرکولیشن سے ایک شاندار معاشی نظام قائم ہوتا ہے جو معاشرے میں ہر فرد کو اپنی جگہ متحرک اور جوڑے رکھتا ہے.

بلا شبہ پیسے یا زر کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں مگر یہاں میں اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے زر سے متعلق کچھ ایسے حقائق کا ذکر کروں گا جو یقیناً آپ کی معلومات میں ایک شاندار اضافہ ثابت ہو گا.

پیسہ یا زر کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں ایک حقیقی جبکہ دوسری اعتباری کہلاتی ہے.

حقیقی زر کا اطلاق سونے،چاندی پر ہوتا ہے اور سونے چاندی کے علاوہ زر کی باقی تمام اقسام خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں ’ اعتباری زر‘ کہلاتی ہیں . سونے چاندی کو حقیقی زر اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کی قوتِ خریدفطری ہے، اگر بحیثیت ِ زر ان کا رواج ختم بھی ہوجائے تب بھی جنس کے اعتبار سے ان کی ذاتی مالیت برقرار رہتی ہے . جبکہ اگر اعتباری زر کی زری حیثیت ختم ہو جا ئے تو سونے چاندی کی طرح اس کی افادیت باقی نہیں رہتی.

جبکہ کرنسی کے مقابلے میں ’ زر ‘ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے، کیونکہ اس میں کرنسی کے علاوہ دوسری اشیا بھی شامل ہیں جن کو معاشرے میں آلہ مبادلہ کے طور پر قبول کیا جاتا ہے.

اس کے برعکس کرنسی کا اطلاق صرف کاغذی زر پر ہوتا ہے . تاہم اس اعتبار سے دونوں ایک ہیں کہ زر کی طرح کرنسی بھی آلہ مبادلہ کی حیثیت سے استعمال ہونے کے علاوہ اشیا کی قیمتوں کا تعین کرتی اور قابل ذخیرہ ہوتی ہے.

کرنسی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ
سونے ، چاندی کے بحیثیت ِزر استعمال ہونے سے قبل دنیامیں ’ زرِبضاعتی‘ یا ’ اجناسی زر‘ ( النقود السلعیة ) کا نظام رائج تھا.

اس سسٹم کے تحت ہرخطے کے لوگوں نے اپنے علاقے میں مقبول اور قیمتی شمار ہونے والی اشیا کو زر کا درجہ دیا . بعض علاقوں میں چاول بعض میں چمڑا اور بعض میں چائے زر کے طور پر استعمال ہوتی تھی.

اس نظام میں یہ طے پایا کہ ایسی اشیا کوزرِ بضاعتی قرار دیا جائے جن میں حسابی وحدت، قیمتوں کی یکسانیت، بحیثیت ِمال جمع کئے جانے کی استعداد اور قوتِ خرید موجود ہو۔ یہ اشیا نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھیں مثلاً ساحلی علاقہ جات میں موتیوں کو بطورِ ثمن (زر)استعمال کیا گیا. سرد علاقوں میں پشم کو ثمن ٹھرایا گیا. جبکہ معتدل موسم کے حامل ممالک میں آباد لوگوں کی خوشحال زندگی اور آسودہ حالی کی بنا پر خوبصورت اشیا (مثلاً قیمتی پتھروں کے نگینے ،عمدہ لباس، ہاتھی کے دانت اورمچھلیوں وغیرہ)کو کرنسی قرار دیا گیا.

جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں چاول کو بطورِ کرنسی استعمال کیا گیا جبکہ وسط ِایشیا میں چائے، وسطی افریقہ میں نمک کے ڈلوں اور شمالی یورپ میں پوستین کو کرنسی قرار دیاگیا.

رومی بادشاہ جولیس سیزر (دورِ حکومت 60تا 44ق م) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی فوج کو تنخواہ نمک کی شکل میں ملتی تھی. نمک کو لاطینی میں ” سیل“ کہتے ہیں ، اسی سے لفظ Salary نکلا ہے جس کامعنی ’ تنخواہ ‘ ہوتا ہے.

چونکہ اشیا ضائع ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان نہیں ہوتی، اس لئے یہ نظام مستقل جاری نہ رہ سکا. لوگوں نے اس کی جگہ سونے چاندی کا استعمال شروع کر دیا. ابتدا میں سونے چاندی کے وزن کا ہی اعتبار ہوتا تھا. سکوں کا رواج بعد میں شروع ہوا۔

سکے کب وجود میں آئے ؟ اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے. البتہ قرآنِ مجید سے یہ پتہ چلتاہے کہ حضرت یوسفؑ کے دور میں درہم موجود تھے، کیونکہ ان کے بھائیوں نے اُنہیں درہم کے عوض بیچاتھا :
” اُنہوں نے اس کو انتہائی کم قیمت، جو گنتی کے چند درہم تھے، کے عوض فروخت کر دیا۔“ ﴿سورة یوسف
:20﴾ واضح رہے کہ حضرت یوسفؑ کا دور 1910 تا 1800ق م ہے.

اسی طرح کہتے ہیں کہ سونے کا سکہ سب سے پہلے لیڈیا کے بادشاہ کروسس (دورِ حکومت: 560تا541 ق م) نے متعارف کرایا.

بعثت ِ نبویؐ کے وقت عرب میں لین دین کا ذریعہ درہم و دینار تھے، لیکن گنتی کی بجائے وزن کا اعتبار کیا جاتا. یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ درہم و دینار عرب کے مقامی سکے نہ تھے بلکہ ہمسایہ اقوام سے یہاں آتے تھے.

٭درہم ساسانی سکہ تھا جو عراق کے راستے عرب پہنچتا اور لوگ اس کی بنیاد پر باہم لین دین کرتے. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو برقرار رکھا. یہ درہم چونکہ مختلف وزن کے ہوتے تھے، اس لئے جب نصابِ زکوة کے لئے درہم کا وزن مقررکرنے کی نوبت آئی تومسلمانوں نے ان میں سے متوسط کو معیار بنایا، چنانچہ اسی کو شرعی درہم سمجھا گیا.

ایک قول کے مطابق یہ کام حضرت عمرؓکے دور میں جبکہ دوسرے قول کے مطابق بنو اُمیہ کے دور میں ہوا. جو صورت بھی ہو، تاہم آخر کارجس شرعی درہم پراجماع ہوا وہ وہی ہے جو عبد الملک بن مروان کے دور میں بنایاگیا. لیکن فقہا اور مؤرخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے. جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن975ء2 گرام چاندی ہے.

٭ اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آتی. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باقی رکھا حتی کہ خلفائے راشدین اور حضرت معاویہؓ کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی. جب مسند ِخلافت عبدالملک بن مروان کے پاس آئی تو اُنہوں نے زمانہ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو ’ ‌شرعی دینار‘ کہاجاتا ہے، کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا تھا.

سونے چاندی کے سکے وجود میں آنے کے بعدبھی بعض علاقوں میں مخصوص اشیا زر کی حیثیت سے استعمال میں رہیں .

مشہور سیاح ابن بطوطہ جب سوڈان گیا تو اس وقت وہاں نمک کے ساتھ ہی لین دین ہوتا تھا، چنانچہ وہ اپنی تحریروں میں لکھتا ہے :

” سوڈان میں نمک بطورِ روپیہ کے چلتا ہے اور سونے چاندی کا کام دیتا ہے. اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیتے ہیں اور ان کے ذریعے خرید و فروخت ہوتی “.

پھرمختلف اسباب کی بنا پر آہستہ آہستہ درہم دینار کا رواج ختم ہوتا چلا گیا اور ان کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی. اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں کرنسی نوٹوں کا ہی دور دورہ ہے کیونکہ یہ آسان ترین ذریعہ مبادلہ ہے .

نوٹ کی ایجاد کے متعلق کہا جاتاہے کہ اہلِ چین نے 650ء سے 800ء کے درمیان کاغذ کے ڈرافٹ بنانے شروع کئے تھے، انہی ڈرافٹ نے آگے چل کرکرنسی نوٹوں کی اشاعت کا تصور دیا. اسی لئے کاغذ کی طرح کرنسی نوٹ بھی اہل چین کی ایجاد شمار ہوتے ہیں . سب سے پہلے کرنسی نوٹ910ء میں چین میں ایجاد ہوئے.

ابن بطوطہ جو 1324ء سے1355ء کے درمیان چین کی سیاحت پر گیاتھا،وہ اپنے سفر ناموں میں چین کے نوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتاہے :

” اہل چین درہم یا دینار کے ذریعہ سے خرید وفروخت نہیں کرتے بلکہ سونے اور چاندی کو پگھلا کر ان کے ڈلے بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں اور کاغذ کے ٹکڑوں کے ذریعہ سے خرید وفروخت کرتے ہیں.

یہ کاغذ کا ٹکڑا کفدست (ایک بالشت ) کے برابر ہوتا ہے اور بادشاہ کے مطبع میں اس پر مہر لگاتے ہیں. ایسے پچیس کاغذوں کو بالشت کہتے ہیں .

مشہورمؤرخ ابن مقریزی جب بغداد گئے تھے تواُنہوں نے بھی وہاں چین کے نوٹوں کا مشاہدہ کیا تھا.

چین کے بعد جاپان دوسرا ملک ہے جہاں چودھویں صدی عیسوی میں کرنسی نوٹ جاری ہوئے . یورپ میں پہلا باقاعدہ نوٹ 1661ء کو’ سٹاک ہام بینک ‘ آف سویڈن نے جاری کیا.

انگلینڈ نے 1695ء میں کرنسی نوٹ جاری کئے. ہندوستان میں پہلا نوٹ 5 ؍ جنوری1825ء کو ’ بنک آف کلکتہ ‘ نے جاری کیاجس کی مالیت دس روپے تھی.

آزادی کے بعد پاکستان میں کرنسی نوٹ یکم اکتوبر 1948ء کو جاری کئے گئے .
ابتداء میں تونوٹ کی پشت پر سو فیصد سونا ہوتا تھا،لیکن بعد میں مختلف معاشی وجوہ کے باعث سونے کی مقدار سے زائد نوٹ جاری کئے جانے لگے اورمختلف اَدوار میں یہ تناسب بتدریج کم ہوتا رہا یہاں تک کہ1971ء سے نوٹ کا سونے سے تعلق بالکل ختم ہو چکا ہے….!!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں