رقیہ اکبر چودھری، اردو کالم نگار، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ، بلاگر

عورت کی نزاکت کو تماشا مت بنائو صاحب!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رقیہ اکبر چودھری :

چند دن پہلے کسی دوشیزہ کی تصویر نظر سے گزری (جو اتفاق سے ایک ماں بھی تھی) اپنے بچے کی غلاظت دھونے میں مصروف تھی اور تصویر پر کیپشن تھا:
” جتنا چاہو پڑھ لکھ لو کرنا تو یہی ہے “
اور یہ کہ
” کرنا تو یہی ہے گرلز ، پھر ایٹیٹیوڈ کس بات کا “

گویا کہ اپنے ہی بچے کی دیکھ بھال کرنا ،اس کی صفائی ستھرائی کا کام کرنا باعث ننگ و عار ہے ، گھٹیا درجے کا غلیظ کام جسے کسی ” پڑھی لکھی “ باشعور عورت کو سرانجام دینا ” زیب “ نہیں دیتا۔۔اور ناں ہی بچے کی دیکھ بھال کرنے والی ماں کو ایٹیٹیوڈ سوٹ کرتا ہے۔

اور آج ایک تحریر پڑھی جہاں صاحب تحریر نے حقارت سے لکھا تھا کہ
” علمی میدان میں عورتوں کی کارکردگی زیرو ہے پھر بھی برابری کی بات کرتی ہیں “

تو مجھے سمجھ نا آئی کہ صاحب مضمون کہنا کیا چاہتے ہیں، برابری سے ان کی کیا مراد ہے؟ گویا علمی میدان میں جھنڈے نا گاڑنے والی عورتوں کا اور کوئی کام کوئی کارنامہ قابل توجہ ،قابل فخر ہے ہی نہیں ،اہم نہیں ، البتہ جھنڈے گاڑنے والی عورتوں کو مرد کی برابری کا پورا حق حاصل ہے؟

اچھا اس کا مطلب گویا یہ بھی ہے کہ جو مرد علمی میدان میں کوئی جھنڈے نہیں گاڑ رہے تو وہ عورتوں کے برابر ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح آپ نے بھی کئی تصویریں اور تحریریں دیکھی ، پڑھی ہوں گی جس میں گھریلو امور کی انجام دہی کو حقارت و کمتری کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ، مذاق اڑایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچیاں گھرداری کو ” جی کا روگ اور جنجال “ سمجھنے لگتی ہیں۔ مثلاً

چھٹی یعنی اتوار کے دن کے حوالے سے لکھا ہوتا ہے
بابا کی پرنسس نے آج مشین لگائی ہوئی ہے
بابا کی ڈول آج برتن دھونے میں مصروف ہے، اسے تنگ مت کریں

عید تہوار پہ بھی یہ کیپشن تواتر سے دیکھنے کو ملتے ہیں:
” تیار شیار ہو کے بھی کچن ہی تو سنبھالنا ہے“
” مہندی لگانے کا فائدہ دھونے تو تم نے برتن ہی ہیں “
اتنی پڑھائی لکھائی کی کیا ضرورت، سنبھالنا تو تجھے چولہا چکی ہی ہے۔۔

برتن دھونا ، جھاڑو پونچھا کرنا ، ہانڈی روٹی کر کے اپنے گھر والوں کی خدمت کرنا، بچے پالنے جیسی اہم اور خوبصورت ذمہ داری ادا کرنا جب آپ کے نزدیک ” باعث عار“ ہو گا، آپ اس پر میمز بنائیں گے، انہیں حقارت سے دیکھے گے، لڑکیوں کو احساس دلائیں گے کہ یہ ” گھٹیا “ کام ہیں جنہیں تم سر انجام دیتی ہو تو کس گمان میں ہیں آپ کہ وہ سڑکوں پر
اپنے موزے خود ڈھونڈو
اپنا کھانا خود گرم کر لو
کے بینر لیکر کھڑی نہیں ہو جائیں گی؟

آپ ایک لڑکی کو ” اپنے ہی بچے“ کی دیکھ بھال کرنے پر اسے ” غلیظ اور گھٹیا “ کام کرنے کا احساس دلائیں گے تو کیا توقع رکھتے ہیں اور کیوں رکھتے ہیں کہ وہ ” بچوں “ کی نگہداشت اور جملہ امور سر انجام دینے سے گریز نہ کرے؟

آپ ایک بیٹی کو کھانا بنا کر اپنے باپ اور بھائی کے سامنے پیش کرنے پر مذاق ٹھٹھا اڑائیں گے اور چاہیں گے کہ ایک بیوی کے روپ میں وہ آپ کو کھانا گرم کر کے پیش کرے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جناب۔

آپ نازک اندام دوشیزہ کو عید والے دن خوبصورت لباس پہنے اور مہندی لگے چوڑیوں بھرے ہاتھوں سے کچن میں اپنے گھر والوں کیلئے پکوان تیار کرنے پر تماشا لگائیں گے تو پھر ذہن میں رکھیں کہ وہ چوڑیاں اتار کر پھینک دے گی ،مہندی سے اپنے ہاتھ نہیں رنگے گی اور رد عمل کے طور پر انہی ہاتھوں میں بینر پکڑ کر سڑک پر آ جائے گی کہ
اپنا کھانا خود گرم کرو۔۔۔

وہ چوڑیوں کی بجائے ہاتھوں میں ٹائر پکڑ کر کہے گی
مجھے گاڑی ٹائر بدلنا آتا ہے
تو آپ چلا اٹھیں گے کہ یہ مرد کی برابری کی بات کرتی ہے۔۔۔بتائیں قصور کس کا ہوا؟

آپ کو شکوہ ہے کہ عورتیں کیوں برابری چاہتی ہیں،آپ کو غصہ ہے اس بات پہ۔۔۔
خون کھولتا ہے آپ کا کہ یہ نرم و نازک مخلوق آپ جیسے جی دار ، بہادر ،کڑیل مرد سے مقابلے پہ کیوں اتر آئی ہے۔۔؟

آپ دن رات اس پہ بحث کرتے رہتے ہیں کبھی نتیجہ خیز کبھی لا حاصل۔۔۔ کئی وجوہات ڈھونڈ لاتے ہیں اس کی۔
ہو سکتا ہے جو وجوہات زیر بحث آتی ہیں سو فیصد درست ہوں یا بالکل بھی نا ہوں؟
مگر آج ذرا اس پہلو پہ دیکھ لیں شاید کچھ افاقہ ہو جائے۔

عورت نرم و نازک ہے ، جذباتی ہے ، آپ نے اس کی ان خوبیوں کو جو دراصل رب تعالی نے آپ کی سربراہی کو خطرے سے بچانے کیلئے عنایت کی تھیں آپ نے عورتوں کو اس پر شرمندہ کرنا ذلیل کرنا شروع کر دیا۔

عورت جسمانی طور پر کمزور تھی تو فائدہ آپ کو تھا کیونکہ طاقت ور بمقابلہ طاقتور صرف کھینچا تانی کا باعث بنتا ایک نیام میں دو تلواریں کہاں رہ سکتی ہیں۔ اللہ نے اسے جسمانی اور جذباتی طور پر نازک بنایا تاکہ وہ خود کو مرد کی حفاظت کے حصار میں رکھے اور آپ نے اسی نزاکت کو ” کمزوری اور بزدلی“ کا طعنہ بنا کر عورت کے منہ پر دے مارا۔

پھر بھی آپ کو اس بات کا غصہ ہے کہ یہ نرم و نازک مخلوق آپ جیسے جی دار ، بہادر ،کڑیل مرد سے مقابلے پہ کیوں اتر آئی ہے۔۔۔ تو کیا بہادری اور جی داری بس جسمانی طاقت کے مظاہرے سے وابستہ ہے؟

ایک عورت جو اپنی جان پر کھیل کر ایک بچے کو جنم دیتی ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ستر یا شاید سات سو ہڈیوں کے ٹوٹنے جیسے درد اور اذیت کو سہنے کے برابر ہے کیا یہ بہادری اور جی داری نہیں ہے؟ کیا یہ دنیا کا سب سے مشکل اور اہم ترین کام نہیں ہے؟

آپ نے ہر وہ کام جو اللہ نے عورت کی فطرت میں رکھا جسے وہ صدیوں سے سرانجام دیتی آ رہی تھیں اسے عورت کیلئے باعث ندامت بنا دیا، اسے گھٹیا کاموں کی فہرست میں شامل کر دیا اور ہر وہ کام جو مرد سرانجام دے آپ نے کہا بس وہی اعلیٰ ، برتر اور قابل فخر و ستائش کام ہے وہی کام ہی بس دنیا میں عزت اور مرتبے کے حصول کا سبب ہے تو پھر کیسے توقع رکھتے ہیں کہ وہ نام، عزت ،فخر اور مرتبے کیلئے وہ کام کرنا شروع نہیں کر دے گی؟

کیا علمی میدان میں جھنڈے گاڑنا ہی صرف سر اٹھا کر جینے والا کام ہے؟ اس کے علاوہ جو ان پڑھ مرد کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں ان کی کوئی اہمیت ، قدر وقیمت نہیں؟ اور جو عورتیں ایک نسل کو جنم دیتی ہیں، ان کی دیکھ بھال کر کے ، بہترین تربیت کر کے ایک ایسی نسل تیار کرتی ہیں جو دنیا کا نقشہ ہی بدل دے کیا یہ اسی درجے کا ،اتنی ہی برابری کا اہم کام نہیں؟

یہ جو مرد علمی میدان سر کرتے چلے جاتے ہیں اس کے پیچھے گھر کی عورتوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے جو انہیں دنیا جہان کی فکروں سے آزاد کر کے پوری یکسوئی سے اپنا کام کرنے کے مکمل مواقع فراہم کرتی ہیں تب جا کر یہ کچھ ” کارہائے نمایاں “ سرانجام دینے کے قابل ہو پاتے ہیں تو کیا علمی میدان میں عورتوں کا یہ کنٹریبیوشن نہیں؟

اگر آپ کا جواب ” نہیں “ میں ہے تو پھر تیار رہیے آنے والی ” عورتیں “ چولہا ہانڈی نہیں کریں گی ، بچوں کی پرورش اور تربیت بھی نہیں کریں گی (بلکہ شاید بچے ہی پیدا کرنے سے انکار کر دیں یا سرے سے شادی جیسے ” جھنجھٹ “ سے ہی انکار کر دیں گی) بس صرف پڑھیں گی اور پھر علمی میدان میں جھنڈے گاڑیں گی

کیونکہ آپ کے نزدیک قابل فخر ، گردن اکڑا کر اور سر اٹھا کر جینے لائق کام تو صرف ” علمی میدان “ میں جھنڈے گاڑنا ہی ہے اور آپ کو ایسی ہی عورتیں تو چاہئیں۔ مناسب تعلیم کے ساتھ گھرداری کرنے والیاں تو آپ کے خیال سے ” باعث ننگ و عار “ ہیں تو پھر شکوہ کس بات کا ہے؟

یاد رکھیں اگر عورتوں کو گھر کے میدان میں ” سرگرم “ دیکھنا چاہتے ہیں تو گھرداری کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا اور گھریلو امور کی انجام دہی کو ان کیلئے باعث فخر بنانا ہو گا۔

اگر عورت کو اپنے گھر کے مرد کی حفاظت کے حصار میں رکھنا مطلوب ہے تو اس کی نزاکت کو تماشا مت بنائو اس کی نزاکت کو اس کیلئے وجہ ندامت و شرمندگی بنانا چھوڑ دو اس کی جذباتیت کو اس کی خامی بنا کر اس کا مذاق مت اڑائو ورنہ وہ کٹھور بن گئی، نزاکت چھوڑ کر سخت جان ہو کر باہر نکل آئی تو گھر تو خراب ہوں گے سب سے پہلے آپ کی اپنی ” انا “ کا بت پاش پاش ہو گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں