گرلزہاسٹل، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد

یونیورسٹی ہاسٹل کا ایک قصہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ جبیں :

ایک دوست نے اپنے یونیورسٹی ہاسٹل آمد اور اس کی تیاری کی دلچسپ داستان لکھی ہے۔ پڑھ کر ہمیں ماضی کے پردوں میں چھپا ایک قصہ یاد آیا جسے آج بھی یاد کر کے یک دم دل میں پھلجڑیاں سی چھوٹنے لگتی ہیں۔

سال پکا تو یاد نہیں لیکن شاید 2001 یا 2002 کا آس پاس تھا۔ موسم گرما کی مختصر سی دورانیہ کی ٹرم جس میں اکثر لوگ گھروں کو چلے جاتے، بس چند ایک جن کا کوئی مضمون اس سمسٹر ہی میں آفر ہوا ہوتا ہاسٹل میں ٹکا رہتا ۔ اس لیے ان دنوں ہاسٹل اور یونیورسٹی کی رونقیں خاصی پھیکی ہوتیں۔

چھٹی کا دن تھا اور غالباً صبح نو دس بجے کا وقت کہ ہمیں ہاسٹل وارڈن کے کمرے سے بلاوا آیا۔ اپنی ہم جولی کے ساتھ ٹہلتے ہوئے دربار میں حاضر ہوئے تو وہاں پہلے سے دو قدرے فربہی مائل، اجنبی لڑکیاں عبایہ اور سکارف میں لپٹی کرسیوں پر براجمان تھیں ۔ ان کی نشست سے بھی خوب معلوم ہو رہا تھا کہ انہوں نے جو لبادہ زیب تن کر رکھا ہے اس کی انہیں عادت نہیں ہے ۔

عبائے کے سامنے کا بٹنوں والا حصہ کھسک کر بالکل بغل میں جا پہنچا تھا اور سکارف کی ٹھوڑی کے نیچے لگائی گئی پن بھی کان کے قریب۔

لڑکیوں کے نشست کے انداز سے ایک لابالی پن سا جھلکتا تھا لیکن چہروں پر متانت اور سنجیدگی۔ ہم قدرے متذبذب سے دفتر میں جا کھڑے ہوئے۔

وارڈن انگریزی میں صاحبات سے محو گفتگو تھیں اور کمرہ کا ایک کونہ بہت سے اوپر نیچے رکھے جستی ٹرنکوں سے بھرا ہوا تھا۔ جن پر رکھے کچھ تھیلے بھی ادھر ادھر لڑھکنے کو بے تاب تھے۔

جب ہم اچھی طرح سامان اور لڑکیوں کا جائزہ لے چکے تو وارڈن نے ہمیں مخاطب کیا :
” یہ امریکہ سے ہماری نئی طالبات آئی ہیں ۔ ہوسٹل میں رہنے سے کچھ گھبرا رہی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ انہیں اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے جائیں، چند دن اپنے ساتھ رکھیں ، اپنائیت کا اظہار کریں ، نئی جگہ سے مانوس ہونے میں مدد دیں تا آنکہ یہ الگ کمرے میں الگ سے رہنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
یہ دونوں بہنیں نیویارک سے ہیں ۔ زیبا اور زرینہ “

وارڈن نے مسکرا کر انہیں دیکھا ۔ ہم نے بھی جلدی سے انہیں ہی دیکھ کر امریکی طرز کی مسکراہٹ اچھالنے کی کوشش کی ۔ اور وارڈن کی رہنمائی میں ان کا سامان اٹھائے انہیں اپنے ہمراہ لیے بالائی منزل پر واقع کمرے کی جانب روانہ ہوئے۔

دونوں بہنیں خاموش لیکن قدرے پرجوش سی محسوس ہو رہی تھیں۔ کچھ تھیلے انہوں نے اٹھائے کچھ ہم نے باقی بھاری سامان وارڈن نے ہاسٹل کے ملازمین کے ذریعے کمرے میں پہنچا دیا۔

جب ہم دونوں بہنوں کی معیت میں زینہ طے کر کے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے ، دونوں بہنیں حاجی کیمپ میں واقع اس غریبانہ ہاسٹل کے در و دیوار کا خوب اچھی طرح جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے خیرسگالی سے بھرپور مسکراہٹ ہماری طرف اچھالتی رہیں ۔ کمرے میں پہنچ کر جب باہمی تعارف اور نیک جذبات کا تبادلہ ہو چکا اور جہیز کا سب سازوسامان ہمارے جہازی سائز کمرے کو بھر چکا ۔ تو ہم نے انہیں آرام کے لیے اپنے بستر پیش کیے۔

لیکن انہوں نے ” نہیں ہم پہلے صفائی کریں گے “ کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے جھٹ عبایہ اتار کر ہمارے حوالے کیے اور لگیں ایک کپڑے سے کمرے کی دیواروں کو زور زور سے جھاڑنے، دوسرے لفظوں میں پھانڈا مارنے۔

ہم نے قدرے ہونق سے ہو کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ابھی امتیاز خالہ بس صفائی کے لیے آیا ہی چاہتی ہیں، پھر ہم میزبان ان کے ساتھ مل کر جس طرح کی صفائی آپ کو درکار ہوئی ایسی ہی کر اور کروا کر دم لیں گے لیکن دونوں بہنوں کے نہ ہاتھ رکے نہ ایک دوسرے کو ہدایات دیتی زبانیں۔ آخر ہم دونوں سہیلیوں نے ہی ہمت ہار کر ان کے ساتھ صفائی کے عمل میں شامل ہو جانے میں عافیت جانی۔

کوئی گھنٹا دو گھنٹے کی مغزماری کے بعد ہماری دانست میں اچھے خاصے صاف کمرے کو دوبارہ صاف کر کے نہا دھو کر دونوں بہنیں باہر نکلیں تو ہم نے ان کے لیے میس سے من و سلوی کا انتظام کر رکھا تھا۔

اگلا مرحلہ ان کے سامان کے ٹھکانے لگانے کا تھا جس کے لیے ہزار کوشش کے باوجود ہمیں کوئی جگہ سمجھ نہ آتی تھی پہلا ٹرنک کھلا تو اس میں سے زندگی بھر کے نہانے دھونے کے صابن اور شیمپو نکلے ۔
دوسرے میں شاید پورے ہاسٹل کے لیے بستر تھے ۔۔۔۔ علیٰ ھذا القیاس ۔

جوں جوں ان کے تھیلے اور ٹرنک کھلتے گئے، ہماری آنکھیں بھی اسی طرح کھلتی چلی گئیں۔ پہلے ہم نے مومنانہ خوش گمانی سے کام لیتے ہوئے سوچا شاید یہ کچھ سامان ہم لوگوں کو تحفہ دینے کےلیے لائی ہوں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ہم اپنی اوقات میں آ کر ا پنے آپ پر عائد کردہ ڈیوٹی کو عین ثواب سمجھتے ہوئے انہیں میس کے کھانے کے فضائل، ہاسٹل کی فطری زندگی کی خوبیاں اور اسلامی یونیورسٹی کے نادر و نایاب ماحول پر بریف کرنے لگے۔ چند ہی گھنٹوں میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ دونوں بہنیں بہت ہی معصوم سادہ اور پیارے دل کی مالک ہیں۔
باپ ہندوستانی مسلمان اور ماں جنوبی امریکی کی عیسائی خاتون ہے۔

اردو کے چند الفاظ کو وہ اتنی محبت سے ادا کرتیں کہ دل خوش ہوجاتا ۔ دونوں بہنوں کے مابین ایک سال کا فرق تھا۔ ایک بھائی ان سے چھوٹا ہے جس کا نام زین ہے۔ ماں باپ دونوں اپنے اپنے مذہب پر قائم ہیں اور ان کے طے کردہ اصول کے مطابق بچے باپ کے مذہب پر ہوں گے البتہ سمجھ دار ہو کر وہ اپنے لیے اپنی مرضی کا دین منتخب کرنے کا اختیار رکھتے ہوں گے۔

شام میں ہم چاروں نے اکٹھے چہل قدمی کی۔ دونوں بہنوں کے ایک ایک جملے سے اپنے والد کے لیے بے پناہ محبت جھلک رہی تھی۔ شاید باپ کی اسی شفقت کے زیر اثر انہوں نے مسلم رہنے کو ترجیح دی اور پھر اسلام کی مزید تعلیم کے لیے انٹر نیٹ پر سرچ کرتے کرتے ہمارے ساتھ چہل قدمی کرنے یہاں حاجی کیمپ آ پہنچی تھیں۔ داخلہ کےلیے ابھی انہیں رہنمائی درکار تھی کہ کس شعبہ میں داخلہ لینا ان کے لیے زیادہ مفید ہو گا ۔ ہم حتی المقدور انہیں اپنے مبلغ علم کی روشنی میں مشوروں سے نوازتے رہے۔

رات کے کھانے میں یاد نہیں پڑتا کیا تھا البتہ اس عشائیے اور اس سے قبل ظہرانے میں دونوں کی زیادہ مرچوں کے لیے سی سی اور پانی پر پانی چڑھائے جانا نہیں بھولتا۔

ان کے والد مراد آبادی تھے ۔ اور نیویارک میں ٹیکسی چلاتے تھے ۔ اپنے ابا کا حلیہ بیان کرتے ہوئے جس طرح دونوں بہنوں کامقابلہ چل رہا تھا ہمارے لیے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔

ایک کہتی : گنجے ہیں
دوسری فوراً : چھوٹے سے ہیں
( ساتھ ساتھ امریکیوں کی طرح ہاتھ سے اشارے )

پہلی دوسری کی بات اچکتے ہوئے : توند باہر ہے
دوسری وقفہ دئیے بغیر : سانولے ہیں۔
پھر دونوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ہوائی بوسہ دیا اور مراد آبادی والد کی جانب منہ ول نیویارک شریف اچھال دیا۔

رات گئے سونے سے قبل ان باتونی بہنوں نے ہمارے سر پر بم پھوڑا :
” ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال ہم واپس نیویارک چلے جاتے ہیں ، اگلے سال جب یونیورسٹی اپنے نئے کیمپس میں منتقل ہوجائے گی تو واپس آ کر داخلہ لے لیں گے “

پھر ہمارے کھلے اور قدرے بجھےمنہ کو دیکھ کر فوراً تسلی دی: ” جس شعبے میں آپ نے کہا اسی میں داخلہ لیں گے۔، ابھی ادھر مکھیاں ، چھپکلیاں اور مرچیں بہت ہیں “

ہم پوچھنا تو چاہتے تھے اور اس سامان کا کیا جس کو دیکھ کر ہر کوئی کہے ” اب ادھر سے تو ہر گز نہ جائیں گے ہم “

ایک تو پہلی بار ہمارے نازک کندھوں پر کسی کو مانوس کرنے کی ذمہ داری ُڈالی گئی اور وصل کی گھڑی آن بھی پہنچی ۔

ہم نے اپنی ہم جولی سے کہا : ” صبح اٹھ کر اس مسئلے کا کچھ حل تلاشیں گے اور انہیں پھر سے قائل کرنے کی کوشش کریں گے“۔
لیکن صبح ان دونوں بیبیوں نے ہماری سٹریٹیجی طے ہونے سے قبل ہی اییمبیسی میں کال کر کے کمک بھی منگوا لی۔

ہمیں اپنا ای میل ایڈریس بھی دیا جسے ہمیں ان دنوں استعمال کرنا بھی شاید نہیں آتا تھا اور پیکنگ شروع۔
ہم نے اچھے میزبانوں کی طرح دوبارہ ضرور آنے کے وعدے وعید لیے ۔ نئے کیمپس کے متعلق بہت ہی سنہرے روپہلے خواب دکھائے اور ان کے تھیلے باری باری نیچے پہنچائے۔ دونوں بہنیں مسلسل سامان اکٹھا کرنے میں مصروف تھیں اور ہم دونوں ڈھونے میں۔

ایک بڑے جستی ٹرنک کو بابا جی سے کہہ کر گیٹ پر پہنچا ہم مزید لینے کے لیے واپس مڑنے ہی والے تھے کہ دیکھا دونوں بہنیں اسی پہلے دن والے انداز میں عبائے چڑھائے سکارف سر پر ٹکائے ایک ایک ٹرنک اپنے اپنے سر پر رکھے بلا مبالغہ مین گیٹ کی طرف بھاگی چلی آ رہی ہیں۔

ایک لمحہ ہم سٹپٹائے پھر انہیں بھاگتے دیکھ کر ضبط کا یارا نہ رہا اور اس قدر بے ساختہ ہنسی کے فوارے ابلے کہ بے چاریاں خود بھی ہنسنے لگیں۔ کیا ہی کسی سٹیشن پر بھی یہ منظر دیکھنے کو ملا ہو گا۔

ایمبیسی کی گاڑی گیٹ کے اندر آ چکی تھی دونوں نے اپنے اپنے سر سے ٹرنک اتار کر گاڑی میں رکھوائے چٹاک چٹاک ہمارے منہ اور ہاتھ چومے ۔ گاڑی میں اپنے جہیز سمیت بیٹھیں اور یہ جا وہ جا۔
گاڑی گیٹ سے نکلی ۔ ہم نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگیں ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں