داتا دربار، مزار حضرت علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش

ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط اول)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

” داتا گنج بخش “ کے مزار کے احاطے میں اور آس پاس رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں؟ حیران کن انکشافات

انور جاوید ڈوگر :

انور جاوید ڈوگر انویسٹی گیٹو جرنلزم کا ایک بڑا نام تھے، مڈل تک تعلیم حاصل کرنے والے انور جاوید ڈوگر نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو ایک دن ایسا آیا جب وہ بڑے بڑے صحافیوں کے لئے قابل تقلید بنے۔ صحافی ان کے انداز صحافت سے سیکھتے تھے۔

زیر نظر فیچر ” ہم بنے داتا کے ملنگ “ انورجاوید ڈوگر کی تفتیشی/ تحقیقی صحافت (انویسٹی گیٹو جرنلزم ) کی ایک شاندار مثال ہے۔ اس کے لئے انھوں نے ایک ملنگ کا بہروپ دھارا اور کئی ہفتے حضرت علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش کے مزار پر رہے ،

پھر انھوں نے ” ہم بنے داتا کے ملنگ “ کی صورت میں بتایا کہ وہاں مزار کے احاطے میں اور آس پاس رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں کون کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں، انور جاوید ڈوگر نے پوری ذہانت، محنت سے ان کا پتہ چلایا اور پھر طشت از بام کیا۔

یہ شام کے ایک اخبار روزنامہ ” یلغار “ میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ اب بادبان ڈاٹ کام پر قسط وار شائع کیا جائے گا، امید ہے کہ یہ فیچر آپ کے لئے معلومات افروز ثابت ہوگا۔ ( ادارہ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کے دربار پر دنیا بھر سے زائرین آتے ہیں۔ پاکستان کا ہی نہیں غالباً یہ دنیا کی واحد ہستی کا دربار ہے جہاں 24 گھنٹے لنگر جاری رہتا ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اس دربار سے کئی سفید پوش بھی لنگر لے کر اپنے بچوں کے پیٹ کی بھوک مٹاتے ہیں۔ یہاں پر بے پناہ عبادت بھی ہوتی ہے۔ اس قدر قرآن خوانی شاید ہی ملک کے کسی دوسرے دربار پر ہوتی ہو۔ منتیں مانی جاتی ہیں اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔

ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہاں شر کی قوتیں بھی موجود ہیں۔ انہی شر کی قوتوں اور خیر کی برکتوں کو عام کرنے کے لئے ذیل میں داتا دربار پر سات دن کے زیر عنوان کئی سچی کہانیاں اور واقعات پیش کئے جا رہے ہیں۔ یہ ایسے واقعات اور ایسی کہانیاں ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ کیجئے اور اپنی رائے سے آگاہ کیجئے:

میرے پاس مختلف لباسوں پر مشتمل ایک بیگ تھا۔ جس میں لباس شامل تھے۔ داتا دربار کے باہر ہی ایک نجومی نے مجھے گھیر لیا۔ ابھی اس نے ڈیرے ڈالے ہی تھے کہ اسے گاہک کی شکل میں، میں مل گیا۔ میرا لباس دیکھ کر اس نے کہا:
”شاہ جی ! آﺅ اپنا ہتھ وی وکھاﺅندے جاﺅ “ نجومی بابا کے پاس اپنا گیس بھی نہیں چل رہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ ہی موجود ایک ساتھی سے گیس مانگا اور اس کی روشنی میں میرا ہاتھ پکڑ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

قدرے توقف کے بعد لج پال قلندری نجومی بولا:
”شاہ جی! آپ کا ہاتھ بتاتا ہے کہ یا تو آپ کو درویش ہونا چاہیے یا پھر بادشاہ۔ بادشاہ تو آپ ہیں نہیں۔ آپ درویش ہیں“۔

اسی اثنا میں بابر بھٹی نے کیمرہ کی آنکھ سے ہم دونوں کو تاڑا تو نجومی نے فوراً پینترہ بدلا اور کہنے لگا:
اگر آپ درویش نہیں تو پھر آپ صحافی ضرور ہیں۔ میں سمجھ گیا ۔ یہ نجومی صاحب خاصے چالاک آدمی ہیں۔ میرا لباس دیکھ کر انہوں نے مجھے درویش کہہ دیا۔ کیمرے کی روشنی میں دیکھتے ہی صحافی قرار دے ڈالا اور بادشاہ اس لئے کہہ دیا کہ یہ خواب ہر شخص دیکھتا ہے۔

میں نے نجومی صاحب سے کہا کہ ” مجھے اپ کی علمیت کا اندازہ تو ہو چکا ہے۔ بتائیے اب میں آپ کی کیا خدمت کروں۔“ وہ صاحب بولے : ”شاہ جی! پاپی پیٹ کی خاطر نجومی بنا بیٹھا ہوں چند کتابیں پڑھ لی ہیں۔ پہلے سرکاری نوکری کرتا تھا مگر نوکری سے نکالے جانے کے بعد ادھر ادھر ہاتھ پاﺅں مارے لیکن…. اب نجومی بن کر گزر اوقات کر رہا ہوں۔ “

میں نے لجپال قلندری نجومی سے کہا ” اپنا پیٹ پالنے کے لئے کام کرنا اچھی بات ہے مگر اپنا پیٹ پالنے کے واسطے لوگوں کو گمراہ کرنا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ “

میں نے محسوس کیا کہ اس جملے کے بعد نجومی صاحب کے چہرے پر شرمندگی کے آثار پائے گئے۔ میں وہاں سے یہ سوچ کر داتا دربار کی طرف چل پڑا کہ چلو اس نے شرمندگی تو محسوس کی ہے۔ آج کے معاشرے میں تو لوگ بدکاری کرتے وقت بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ داتا دربار کے مین گیٹ پر آیا تو حسب سابق جلی اور خوش نما انداز میں لکھے ہوئے اس شعر نے میرا استقبال کیا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما

میرے پاﺅں میں جوتے تھے ہی نہیں اس لئے جوتوں کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں کے عتاب سے بچتا ہوا میں دربار کی طرف چل پڑا۔ داتا دربار کے توسیعی منصوبے نے مجھے حیران و ششدر کر کے رکھ دیا۔ آج میں ہر ایک شخص اور دیوار کو ٹٹولنے کے انداز میں تک رہا تھا۔ دربار کو دو راستے جاتے ہیں۔ ایک خواتین کے لئے مخصوص ہے جبکہ دوسرا مرد حضرات کے لئے۔

زائرین کے ساتھ میں داتا دربار پر پہنچا۔ وہاں کھڑے ہو کر دعا کی:
” اے میرے پروردگار! مجھے تمام تر آلودگیوں سے محفوظ رکھنا اور بالخصوس داتا دربار پر گزرنے والے شب و روز کے بارے میں لکھتے وقت میری اور میرے قلم کی رہنمائی کرنا۔“

حسب عادت میں نے ان الفاظ پر اپنی دعا ختم کی:
” اے میرے پروردگار“ مجھے عزت دے، صحت دے اور جب موت دے تو شہادت کی موت دے! آمین۔“
دعا ختم ہوئی تھی کہ میرے کان میں سکیورٹی والے ایک نوجوان کی آواز پڑی، وہ بلند آواز سے لوگوں کو تلقین کر رہا تھا کہ زائرین اپنی اپنی جیبوں کا خیال رکھیں، اپنی جیبوں کا خیال رکھیں۔ یہاں جیب تراش موجود ہیں۔

مجھے حیرت ہوئی کہ اس ہٹے کٹے نوجوان کو جیب تراشوں کی موجودگی کا علم کیسے ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد میری حیرت نے حقیقت دیکھ لی۔ دو افراد رو رہے تھے کہ وہ مسافر ہیں اور اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

ابھی میں دربار کے دائیں جانب آکر ” پیر سید آزاد حسین شاہ آف اوچ شریف “ بن کر بیٹھا ہی تھا کہ داتا دربار کی انتہائی خوبصورت مسجد کے ایمان افروز میناروں میں سے ”اللہ اکبر“ کی آواز بلند ہوئی۔ میں مسجد کی طرف چلا گیا۔ اس وقت دربار کے صحن میں کوئی دو درجن کے قریب ملنگ اور ہزاروں زائرین موجود تھے مگر نہایت دکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ نمازیوں کی تعداد 5 فیصد بھی نہیں تھی اور نماز ادا کرنے والوں میں ایک بھی پیر، درویش یا ملنگ نہیں تھا۔

اس وقت علامہ اقبال کا یہ شعر مجھے بہت یاد آیا کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی نہ بن سکا

نماز کی ادائیگی کے دوران میری ملاقات ایک نوجوان کے ساتھ ہو گئی۔ اسے میں نوجوان اس لئے کہہ رہا تھا کہ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹا تھا۔ اس نے بڑی عقیدت سے بلایااور کہنے لگا :
”شاہ جی! ہمارے حق میں دعا کریں۔“

اس کے ساتھ کافی دیر گفتگو ہوتی رہی۔ بے تکلف ہوئے نوجوان نے بتایا کہ میرا نام ارسلان خان ہے اور میں پشاور کا رہنے والا ہوں۔ باتوں ہی باتوں میں اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ نوجوان ہوٹل میں رہ رہا ہے اور یہ کہ وہ کاروباری آدمی ہے اور اکثر لاہور کا سفر کرتا ہے۔ میں نے اس کا ہاتھ دیکھ کر اسے جب یہ بتایا کہ وہ اسلحے کاکاروبار کرتا ہے تو وہ حیران ہو گیا ۔ میں نے اس کے دل کا چور پکڑلیا تھا اور وہ اسے میری ” بزرگی کا کرشمہ سمجھ رہا تھا۔“

اپنے ساتھ چلنے کی دعوت بھی دی اور یہ پیش کش بھی کی کہ ہوٹل میں مجھے اپنے خرچ پر ٹھہرائے گا۔ میں نے اس کی پیش کش کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم ” فقیروں“ کو ہوٹلوں کی آسائش سے کیا غرض۔ ہم تو انہی پتھریلی زمینوں پر بیٹھنے اور آرام کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

ارسلان خان مجھ سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ رات بارہ بجے تک کوئی چار مرتبہ میرے پاس آیا۔ ہم نے چائے اکٹھے پی۔ جب ہم دونوں اکٹھے موجود ہوتے تو سکیورٹی یا پولیس کا کوئی ایک آدھ کردار ہمارے اردگرد ہوتا تھا۔ میں کہتا کہ سکیورٹی والے اور پولیس کے اہلکار اس کھوج میں ہیں کہ ” درویش “ ” پیر“ یا ” فقیر“ کہاں سے آگیا ہے۔ ہم انہیں کہیں کہ
بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

جہاں ارسلان خان ٹھہرا ہوا تھا ، ہم نے کرائے پر اسی ہوٹل میں کمرہ لیا، وہاں گئے تو ارسلان خان نے جو کہ کاﺅنٹر پر ہی موجود تھا ، مجھے مخاطب ہو کر کہا:
” شاہ جی ! آپ تو کہتے تھے میں ہوٹل میں قیام نہیں کروں گا۔ اب آپ ہوٹل میں کیا لینے آئے ہیں۔“
میں نے اسے مطمئن کرنے کے لئے کہا: ”خان صاحب! یہ نوجوان میرے ”عقیدت مند“ ہیں۔ میں اس نوجوان بچے کی ضد کے آگے ہمت ہار گیا ہوں لیکن اس نے ہوٹل کی انتظامیہ سے کہہ دیا کہ میرے کمرہ میں سے بیڈ نہ لگوائیں کیونکہ ہم تو زمین پر سونے کے عادی ہیں۔“

میں نے ہوٹل سے بیڈ اٹھوا دئیے تھے تا کہ کسی کو میری ” بزرگی “ پر شک نہ ہو اور میں دیکھوں کہ لوگ ” پیروں “ کی پوجا کس طرح کرتے ہیں۔ اس ہوٹل میں چند گھنٹے قیام کے بعد میں پھر داتا دربار چلا گیا۔ یہاں پر ایک سائیں نے دری بچھا رکھی تھی ۔

سائیں نذرنہ جانے کس تاڑ میں تھا ، اس نے میرا پرتپاک استقبال کیا اور کہنے لگا :
” شاہ جی ! آپ زمین پر نہیں ، اس دری پر بیٹھیں گے۔“
دری کے اوپر اس نے ایک چادر بھی بچھا رکھی تھی۔ سائیں نے مجھے بتایا کہ مختلف درباروں پر حاضری دینا اس کا کاروبار ہے۔ جب میں نے اوچ شریف کے گدی نشین کے طور پر اپنا جھوٹا تعارف کرایا تو اس نے اوچ شریف کے دربار کے متولیوں کے بارے میں تمام تفصیلات بتائیں۔ ان میں سے کئی لوگوں کو میں جانتا تھا ۔

جب میں نے اس کی باتوں کی تصدیق کی اور بعض معلومات فراہم کیں تو اس نے یہ تسلیم کر لیا کہ میں اوچ شریف کے گدی نشینوں میں سے ایک ہوں۔

سائیں نے درباروں پر ہونے والی خرابیوں کا ذکر شروع کر دیا، میں بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ ایک مرحلہ پر اس نے آہ بھر کر کہا کہ
” شاہ جی ! کاش !! نگینہ اگر آج ز ندہ ہوتی تو میں …. آپ کی ایسی خدمت کرواتا کہ آپ زندگی بھر یاد رکھتے۔ “ سائیں نذر نے نگینہ کا اس انداز سے ذکر کیا کہ میں اس سے یہ استفسار کیے بغیر نہ رہ سکا۔
” سائیں! یار!! یہ نگینہ کون تھی؟ “
اب سائیں نذر کی زبانی ان کی کہانی سنئے۔
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں