ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

جنسی زیادتی کے مجرم، شرعی سزائیں اور روشن خیال دانشور

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید :

ظلم اور ناانصافی کے واقعے کی آڑ میں اپنی دکان چمکانا بھی مضحکہ خیز اور عبرت انگیز ہے۔
یہ کہنے والے کس کو بے وقوف بنارہے ہیں کہ مغرب میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں ہوتی یا عورت وہاں محفوظ ہے۔ کیا آپ کو اعداد و شمار درکار ہیں؟

اور پھر اس بات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس کی وجہ جنسی آزادی ہے اور پاکستان میں ایسے واقعات کی وجہ مذہبی حدود کی وجہ سے پیدا ہونے والی جنسی گھٹن ہے ، خود کسی گھٹن زدہ ذہنیت کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔

جہاں انسان ہے، جہاں نفس کا شر ہے، جہاں طاقت اور ہوس اپنا کھیل کھیلنے کو بے چین ہوتی ہے، جہاں شیطانی خواہشات کو کوئی کمزور اپنا آسان شکار معلوم ہوتا ہے وہاں ہر طرح کا ظلم ممکن ہے اور ظلم ہوتا ہے۔ اس لیے مغرب میں بھی جنسی آزادی کے باوجود یہ ظلم پوری شدت سے ہوتا ہے۔

مغرب میں بھی جتنے کیسز جنسی زیادتی کے رپورٹ ہوتے ہیں ، اس سے کئی گنا زیادہ رپورٹ نہیں ہوتے۔ گھریلو تشدد بھی کم نہیں۔

جنسی گھٹن کا وہاں بھی یہ عالم ہے کہ ہر طرح کی آزادی کے باوجود ہوس ہے کہ مٹنے کا نام نہیں لیتی اور شیطانی ہوس کا جہنم ہل من مزید کا نعرہ لگاتے نت نئے جہان ڈھونڈتا رہتا ہے۔
ہاں فرق اتنا ہے کہ انصاف کی فراہمی اور قانون کی بالادستی نے ان معاشروں کو سنبھال رکھا ہے۔

پاکستانی معاشرہ کو بھی درندوں کا معاشرہ کہنا اپنا بغض نکالنا ہے۔ پاکستانی تو آپ بھی ہیں اور میں بھی ہوں اور میرے اور آپ کے بھائی بند بھی ہیں۔ ہر معاشرے کی طرح یہاں بھی اکثریت اچھے انسانوں کی ہے۔
ہر روز لاکھوں لڑکیاں سفر کرتی ہیں، ملازمت اور تعلیمی اداروں کو جاتی ہیں، بازاروں میں ہوتی ہیں۔
خود میں نے اسکول کالج میڈیکل کالج اسپتال بازار ملنے جلنے کے لیے ہر جگہ کا سفر کیا ہے۔

نائٹ ڈیوٹیز بھی کی ہیں اور اسپتال میں کبھی کبھی اکیلی ڈاکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے۔ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا ہے۔ برے لوگ بھی ملے مگر اکثریت عام سے بھلے انسانوں کی ہے۔
اور مغرب میں سارے فرشتے نہیں۔ کیا آپ کو ان کے جرائم کے اعداد و شمار اور تفصیلات درکار ہیں؟

بات صرف اتنی ہے کہ وطن عزیز میں لاقانونیت اور کرپشن کا عفریت لوگوں کو مایوس کرتا ہے ، اور وہ بے بسی کے عالم میں شور کرتے ہیں۔۔ بااثر بچ جاتا ہے، غریب چاہے مرد ہو یا عورت اس کے لہو یا عزت کی کوئی قیمت نہیں اور حکمران بھنگ پی کر مگن رہتے ہیں۔

افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ مجرم کو سخت سزا دینے کے عوامی مطالبے پر کچھ روشن خیال دانشوروں کو فلسفہ سوجھنے لگتا ہے۔ وہ سمجھانے لگتے ہیں کہ مجرم کو سزا سزائے موت، رجم، یا کوڑوں کی سزا تو بہیمانہ کام ہے البتہ ہونا یہ چاہیے کہ ان ہوس کے ماروں کی جنسی گھٹن کے علاج کے لیے مذہب اپنی حدبندیاں اٹھا کر ان کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کردے۔

اور وہی خواتین جنہیں یہ زور زبردستی کرکے پامال کرتے ہیں ، بخوشی ان کے چرنوں میں قربان ہونے کو تیار ہوجایا کریں۔
بے چاروں کی ہوس پوری ہو، گھٹن دور ہو۔۔۔
ذرا غور سے پڑھیے اسلام کو گھٹن زدہ کہنے والے خود کس قدر تاریک خیال ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدود کی سزاؤں پر اعتراض ہوتا ہے۔
ہاتھ کاٹنے پر اعتراض ہوتا ہے۔
سزائے موت پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔

مگر اعتراض کرنے والے کچھ اور سزائیں تجویز کرتے ہیں۔
مثلاً یہ کہ زیادتی کے مجرم کو نامرد بنایا جائے۔
جناب جسم کے ایک حصے کو ناکارہ بنانے کا مطالبہ آپ کو انسانی لگتا ہے ۔
مگر چوری کرنے کے جرم پر ہاتھ کاٹ کر اس کو ناکارہ بنانا جو جسم ہی کا ایک اور حصہ ہے آپ کو غیر انسانی اور وحشیانہ لگتا ہے؟ یہ کس قسم کی دلیل ہے۔

اس کے پیچھے کون سی نفسیات کارفرما ہے؟
ان دونوں جرائم کے نتائج اپنے اپنے اعتبار سے بھیانک ہیں۔ تو پھر آپ کا فیصلہ دونوں معاملات میں مختلف کیوں ہے؟

آپ سزائے موت کو غیر انسانی سمجھتے ہیں مگر ایک انسان کو اس کے تمام بنیادی حقوق یعنی آزادی اور اس سے وابستہ تمام دوسرے حقوق سے محروم کرکے کئی برس تک قید میں رکھ کر اس کے جذباتی اور نفسیاتی وجود کو شدید نقصان پہنچانے کو انسانی عمل سمجھتے ہیں؟

جیل کے قیدیوں کو ہزار قسم کی جسمانی و نفسیاتی امراض لاحق ہونے کا رسک زیادہ ہوتا ہے، ان کے سماجی تعلقات تباہ ہوجاتے ہیں، ان کا سماجی امیج برباد ہوتا یے؟ گویا کہ ایک مرتبہ مارنا تو غیر انسانی ہے اور کئی برس تک ترسا ترسا کر مارنا آپ کے نزدیک انسانیت پر رحم ہے؟

اگر ایک ایسے انسان کو جس کا جرم ثابت ہوچکا سزا کے طور پر بھی مارنا یا یا کسی عضو سے محروم کرنا وحشیانہ اور غیر انسانی ہے تو کئی انسانوں کو قتل کرنا اور زخمی کرنا اس سے کئی گنا زیادہ وحشیانہ اور غیر انسانی ہے۔

لہذا
سب سے پہلے جنگوں پر پابندی عائد کی جائے اور انسان پرست اپنے فوجیوں کو ایسے انسانوں کو قتل کرنے اور زخمی کرنے کے انعام کے طور پر تنخواہیں اور تمغے دینا بند کردیں جن کا جرم ثابت بھی نہیں ہوتا۔

بات یہ ہے کہ یا تو سزا کا تصور ہی ختم کردیجیے ۔ یہ ایک قسم کی سزا انسانی اور دوسری قسم کی غیر انسانی۔۔۔ یہ دلیل دل کو نہیں لگتی۔

انسانیت کے علمبردار ایک ایسے شخص کو سزائے موت دینے کو غیر انسانی اور لایعنی قرار دے رہے ہیں جو قتل، جنسی زیادتی اور فساد فی الارض جیسے گھناؤنے جرائم کا مرتکب ہو۔ مگر وہی انسانیت کے علمبردار مرسی کلنگ کے نام پر ایک ایسی انسان جان کو ختم کرنے کو جائز سمجھتے ہیں جو کسی جرم کا مرتکب نہیں بلکہ کسی درد میں مبتلا ہو۔ اصول ایک ہونا نہیں چاہیے؟ درد کسی اور کا ہو یا اپنا کسی کی جان لینے کی وجہ نہیں بننا چاہیے؟ مگر یہاں آپ کے یہاں تضاد ہے۔

آپ اتنی کثیر تعداد میں ان مجرموں کو تو سرکاری خرچے پر برسوں پالنے کو تیار ہیں جنہوں نے قتل، ڈاکہ زنی، جنسی زیادتی اور فساد فی الارض جیسے سماج کو نقصان پہنچانے والے جرائم کیے۔ اور ان تمام برسوں میں ان کے جرائم کا شکار ہونے والا مظلوم بے چاری کئی حوالوں سے مالی اور دوسرے ری سورسز کو ترستا رہے گا جو اسے تو کوئی فراہم نہ کرے گا،بلکہ وہی ریسورسز مجرم کے لیے استعمال ہوتے رہیں گے۔ سوچیے جیلوں پر افرادی قوت، ادارہ جاتی انتظامات اور رقم کے ساتھ ساتھ کیا کیا وسائل لگتے ہیں جبکہ سماج کا مظلوم انہی وسائل کو ترستا رہتا ہے۔

اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ جرم کرنے والے کو سزا ملے، انسان اپنے کیے کے انجام سے ڈرے، مجرم اور معاشرے کو یہ بتایا جائے کہ برے کام کا انجام برا ہوتا ہے اس لیے سزا سے ڈرو،
مظلوم کے دکھ کا کچھ مداوا ہو،۔

انصاف ملنا بہت بڑی بات ہے۔ اور مجرم کا گھناؤنی حرکت کرکے مزے سے پھرنا مظلوم کی ، سچائی کی، اجتماعی انسانی ضمیر کی توہین ہے۔

سو یا تو ہر قسم کی جسمانی سزا کا تصور ہی ختم کردیجیے، کسی بھی حال میں کسی کو بھی موت نہ دیں نہ زخمی کریں اور صرف وعظ و نصیحت اور فلموں، گانوں،ڈراموں، مظاہروں، نعروں، تقریروں اور گالیوں سے کام چلاتے رہیں جو آپ روشن خیال لوگ اب بھی کررہے ہیں یا پھر سیدھی طرح اسلام کے طریقے کو اپنا کام کرنے دیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں