مزار حضرت علی رضی اللہ عنہ

علی رضی اللہ عنہ ، اللہ اور رسول کی امانتوں کے امین

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا غزل :

آپ رضی اللہ عنہ امین ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن آپ کے منہ میں ڈالا اور ’ علی ‘ نام رکھا ۔

ایسے امین کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے وقت لوگوں کی امانتیں آپ کو سونپتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چہیتی بیٹی کے لیے آپ کو پسند فرماتے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کو خاتون جنت کا امین بنادیتے ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ ایسے امین تھے کہ ایک شب بیت المال کے حساب کتاب مصروف میں تھے۔ اور کوئی ملاقات کے لیے آیا، آپ رضی اللہ عنہ کو احساس ہوا کہ یہ غیر متعلق باتیں ہیں، تو آپ نے چراغ بجھا دیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں خرچ نہیں ہونا چاہیے۔

آپ رضی اللہ عنہ خدا اور رسول کی امانتوں کے امین ہیں۔ مگر کیسے؟؟؟
تو دیکھیے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ سے عہد نامے لکھوارہے ہیں۔
چشم تصور سے تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ سے خطوط تحریر کروارہے ہیں۔

اور صرف یہی نہیں جو اجزائے قرآن لکھے جاچکے ہیں آپ رضی اللہ عنہ اس کے بھی امانت دار ہیں۔

آپ ہی تو امین ہیں محبت کی گواہی کے اور محبت کے نباہ کے۔ اور صدق کے اور صدق کی گواہی کے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ہی جا کر مشرکین کو سورہ برات کی آیات سنائیں۔

آپ رضی اللہ عنہ وہ ہیں جو باعث فخر سمجھتے ہیں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں بھی سینا پڑیں۔

پھر آپ رضی اللہ عنہ کی امانت اور دیانت کی گواہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے منہ سے دیتے ہیں۔
کہ

علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ۔
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ۔
تم میں سب میں بہترین فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔

علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔
علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔

لیلۃ المبیت گواہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کو خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت سمجھا اور اس کی پروا کیے بغیر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر لیٹ گئے۔

میرے نبی کی ذوالفقار کے باغی
شیر خدا کا عہد توڑنے والے
حیدر کرار کے قول سے پھرے ہوئے

میرے علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا نام لے کر علی رضی اللہ عنہ کے طریقے سے انحراف کرنے والے جان لیں کہ آپ نے لوگوں کے اصرار پر خلافت کا منصب یہ کہہ کر قبول کیا کہ میں ذرا بھی قرآن و سنت سے ہٹ کر فیصلے نہ کروں گا۔

آپ رضی اللہ عنہ نے سبق دیا کہ اپنے ذاتی مفاد اور منصب حاصل کرنے کے لیے کبھی اجتماعی مفاد پر ترجیح نہ دی جائے اور اپنے ملی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔

آپ رضی اللہ عنہ مسلسل اسلام کی روحانی اور علمی خدمت کرتے رہے ۔ مسلمانوں میں تصنیف وتالیف علمی تحقیق کاذوق پیدا کیا اور بہت سے شاگرد تیار کیے جو علمی کام سر انجام دے سکیں۔ اور قرآن وسنت کی حقیقی روح کا فیض عام کر سکیں۔

علم نحو کی داغ بیل آپ رضی اللہ عنہ ہی نے ڈالی۔ اور فن صرف و معانی کے اصول بھی بیان کیے۔

آپ رضی اللہ عنہ خدا کے سپاہی ہیں کہ جب غزوہ خندق میں عمروبن عبد ود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کو قتل کرنے کا ارادہ کر کے اس کے سینے پر بیٹھ گئے تو اس نے نعوذ باللہ آپ کے چہرے پر تھوک دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اور آپ رضی اللہ عنہ اس کے سینے سے اتر گئے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ اپنی ذات کے لیے ہوگا۔ پھر کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا۔

غزوہ بدر ہے، جنگ کا پہلا تجربہ ہے مگر غزوے کا سہرا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر ہے کہ اس غزوے میں آپ نے 36 مشرکین کو جہنم واصل کیا۔

جنگ خیبر میں قلعے کا وہ دروازہ جو بیس افراد کھولتے تھے حضرت رضی اللہ عنہ نے اس کے حلقے میں ہاتھ ڈال کر ایک جھٹکے کے ساتھ توڑ دیا۔

مگر تاریخ شاہد ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے نہ تو کبھی دشمن کی خواتین پر ہاتھ اٹھایا۔
نہ کبھی بچوں کو یرغمال بنایا۔

اور کبھی مال غنیمت کا لالچ نہیں کیا۔

آپ رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حصرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی خاص محبت کرتے تھے۔

آپ رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرمایا کہ اللہ نے ابو بکر کا نام صدیق رکھا اور پھر آپ نے سورۂ الزمر کی آیت تلاوت فرمائی:
”وہ جو سچائی لے کر آیا اور وہ جس نے اس سچائی کی تصدیق کی وہی متقی ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قوی و امین ہونے کی گواہی دی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مومن، متقی، صالح، سابق الخیرات فرمایا۔
اور ان کے غیر معذب اور جنتی ہونے کا اعلان کیا۔

اپنے دور خلافت میں ان کے متعلق فرمایا کہ!

ﷲ کی قسم میں اسی نقشِ قدم پر چل رہا ہوں جس پر عثمان آئے تھے۔

ایک مرتبہ فرمایا کہ!

جو شخص عثمان کے دین سے بری ہے وہ ایمان سے ہی بری ہے

آپ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو طالب ہیں، والدہ فاطمہ بنت اسد ہیں ۔ روایات کے مطابق آپ مکے میں کعبے کے اندر جائے حرمت میں پیدا ہوئے۔

علی خدا کے سپاہی اور خدا کے راستے کے شہید ہیں کہ 661ء میں جب وہ جامع مسجد کوفہ میں نماز پڑھ رہے تھے عبد الرحمن بن ملجم نامی ایک خارجی نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ دو دن بعد شہید ہو گئے۔

آپ رضی اللہ عنہ بھی ان خوش نصیب صحابہ کبار سے ہیں جنھیں ان کی زندگی ہی میں جنت کی خوشخبری سنادی گئی۔

یہ چند کلیاں ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی کہ قلم قرطاس تھک جائیں گے مگر علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ختم نہ ہوگی۔،نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کی عقیدت و محبت کی انتہا کو ہم کسی ایک پہلو سے مکمل نہیں کرپائیں گے مگر سچ یہی ہے کہ!

جو ناز رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہی ناز علی ہے۔

ہر اک ادا میں ہیں سو جلوے ماہتابی کے
نثار دیدہ و دل شان بو ترابی کے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں