ماہ صفر

ماہِ صفر کی بدعات، حقیقت کیا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نبیلہ شہزاد :

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ صفر ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے جس دین توحید کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اسی کو ہی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر مکمل کیا اور واضح الفاظ میں فرما دیا:

” آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی“ ( المائدہ)

جس آیت مبارکہ کے بارے میں یہودی بھی حسرت، رشک و حسد رکھتے ہیں کہ کاش ! یہ آیت ان کے لیے نازل ہوتی لیکن ہم میں سے کئی مسلمانوں کی بد قسمتی دیکھیے کہ رب کائنات کے تکمیل کردہ دین میں مشرکانہ تہذیبوں سے متاثر ہو کر کئی خرافات پیدا کر لیں۔

اگر ان ساری بدعات و خرافات کا ذکر کرنے لگیں تو صفحات کم پڑ جائیں۔ ادھر ہم صرف مطلوبہ بدعات کا ہی ذکر کریں گے جو صفر کے مہینے میں کی جاتیں ہیں۔ صفر کا مہینہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دورِ جاہلیت سے ہی منحوس سمجھا جاتا ہے اور اس کے متعلق مختلف عقیدے گھڑے جاتے ہیں۔

وجہ تسمیہ

” صفر“ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ تین حروف۔۔ ص، ف، ر ہے جس کا معنی ہے” خالی ہونا “، ” پیلا ہونا “ ہے۔ ان معانی سے موسوم کچھ باتیں ہیں جن میں زیادہ تر مشہور درج ذیل ہیں:

اول: ایک مہینے کا نام صفر ہے اور یہ نام کئی وجوہ کی بنا پر رکھا گیا۔
دوم : ایک بیماری کو صفر کہا جاتا ہے جس میں انسان کے پیٹ میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور چہرہ پیلا پڑ جاتا ہے۔
سوم: یرقان کی بیماری کو بھی صفر کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں چہرہ اور آنکھیں پیلی ہو جاتی ہیں۔
چہارم: گھر کے خالی ہو جانے کو بھی صفر کہتے ہیں۔ اس کی بھی کئی وجوہات تھیں۔

(الف) ۔ اس مہینے میں لوگ گھروں سے اناج اکٹھا کرنے کے لیے گھروں سے نکلتے تھے جس کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہو جاتے۔
(ب)۔ اہلِ مکہ انسانی ضروریات پوری کرنےکے لیے مکہ سے باہر نکلتے اس سے بھی ان کے گھر خالی ہو جاتے۔

(ج)۔ لگاتار تین مہینے حرمت والے مہینے آئے یعنی ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ چونکہ ان مہینوں میں عرب میں لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت اور جنگ و جدل سے پرہیز کیا جاتا تھا۔ ان لگاتار مہینوں میں آخری مہینہ محرم کا ہے چنانچہ محرم کے ختم ہوتے ہی اہلِ مکہ دوسرے قبائل سے جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور ان کے گھر خالی ہو جاتے۔

صفر ، زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس قرار

قبل از اسلام بھی اس مہینے کے بارے میں بدشگونیاں پائی جاتی تھیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے دنیا جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کئی طرح کی توہمات اور وساوس میں مبتلا تھی۔ خصوصاً صفر کے مہینے کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ مہینہ بیماریوں اور مصیبتوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کا گمان تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے، جب پیٹ خالی ہو اور بھوک لگی ہو تو وہ سانپ کاٹتا اور تکلیف پہنچاتا ہے۔

وہ کہتے کہ یہ آفت و مصیبتوں اور بلاؤں کے نزول کا مہینہ ہے۔ وہ اس مہینے میں کوئی خوشی کی تقریب منعقد کرنے سے اجتناب کرتے جیسے شادی بیاہ و ختنہ وغیرہ۔ پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرآن کی صورت میں نوری ہدایت نامہ لے کر آئے جس سے باطل و توہمات و بد شگونیوں کے سارے اندھیرے مٹ گئےاور اس کی جگہ صراطِ مستقیم کے نور نے ڈیرے ڈال لیے۔

لیکن صد افسوس! بیچارے کچھ مسلمان اپنی لاعلمی کی وجہ سے ابھی تک ظلمات کی پستیوں میں گرے پڑے ہیں اور اس مہینے ماہِ صفر کے بارے میں مختلف بدعات میں جکڑے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں میں بدعات

موجودہ مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے ماہِ صفر کے بارے میں مختلف خرافات میں پڑے ہوئے ہیں جیسے:

توہم پرست لوگ اس مہینے سفر کرنا درست نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس مہینے میں نیا کاروبار شروع کرتے۔ اس مہینے میں شادی نہیں کرتے۔ نئے شادی شدہ جوڑے کو ماہِ صفر کے پہلے تیرہ دن الگ رکھا جاتا۔

چنے ابال کر، بعض جگہوں میں ابلی گندم بھی لوگوں میں بانٹتے ہیں تا کہ ہماری بلائیں دوسروں کی طرف چلی جائیں۔ آٹے کی چھوٹی چھوٹی 365 گولیاں بنا کر مچھلیوں کے لیے نہروں یا تالابوں میں ڈالی جاتیں ہیں۔ 365 گولیاں سال کے 365 دنوں کی بلائیں ٹالنے کے لیے ہیں۔

ماہِ صفر کے آخری بدھ کی بدعات

ماہِ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں کچھ لوگوں کے اندر ایک غلط نظریہ پایا جاتا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے آخری بدھ غسلِ صحّت فرمایا۔ لہٰذا اس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، خوشیاں منائی جاتی ہیں، روزہ رکھا جاتا ہے۔ پھر ایک مخصوص طریقے سے نوافل بھی ادا کئے جاتے ہیں۔

آخری بدھ والے دن عمدہ کھانا پکایا جاتا ہے۔ ایک اور رسم، چُری کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے جس میں کوئی میٹھی چیز بنا کر تقسیم کی جاتی اور اس رسم کی نسبت حضرت عائشہ کی طرف کی جاتی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

آخری بدھ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے غسلِ صحت نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بیماری نے شدت پکڑی۔ اسی خوشی میں یہود، جو کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے حسد، بغص و عناد رکھتے ہیں۔ وہ شیرینیاں بانٹتے ہیں اور مسلمان اپنی لاعلمی کی وجہ سے یہودیوں کی خوشی میں شریک ہو جاتے ہیں۔

اگر تھوڑی سی عقل سے بھی کام لیں تو کیا دل گوارہ کرتا ہے کہ ایک ایسی پیاری ہستی جو ہمیں اپنی جان و مال اور ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ اس کی تکلیف کا دن ہو اور ہم اس دن کی یاد میں خوشی منائیں( استغفرُاللہ)

من گھڑت حدیث سے استدلال

ماہِ صفر کے بارے میں نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر اسلام کے دشمنوں نے جھوٹی روایات کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کا گھناؤنا فعل انجام دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ ان روایات میں ایک من گھڑت حدیث بہت مشہور ہے جو درج ذیل ہے:

ترجمہ: ” جو شخص مجھے صفر کا مہینہ ختم ہونے کی خوشخبری دے گا، میں اسے جنت کی خوشخبری دوں گا۔“

اس بارے جان لینا چاہیے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ اس کی نسبت آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز نہیں۔

چنانچہ ائمہ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے۔ ان ائمہ حضرات میں علامہ عجلونی، ملا علی قاری، علامہ شوکانی اور علامہ طاہر پٹنی رحمتہ اللہ وغیرہ شامل ہیں۔

ماہِ صفر کی نحوست بارے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تردید

ماہِ صفر کے بارے میں فاسد و باطل خیالات و نظریات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ ایسے نظریات و عقائد کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے پاؤں تلے روند چکے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:
ترجمہ:” (اللّہ کے حکم کے بغیر) کسی کی بیماری کسی کو نہیں لگتی۔ نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے اور نہ بدفالی لینا درست ہے۔“ (صحیح بخاری و مسلم)

بدشگونی کا عقیدہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

قرآن وحدیث کی روشنی میں بدفالی و توہمات، بد شگونی و نحوست کفار کا فعل ہے اور مسلمانوں کو اپنا ایمان سلامت رکھنے کے لیے اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔

کافر قوموں کے واقعات میں قرآن میں اس کا تذکرہ بارہا ملتا ہے کہ وہ اپنے اوپر آنے والی مصیبتوں کا ذمہ دار نبیوں اور اس کے پیروکاروں کو ٹھیراتے کہ یہ سب تمہاری نحوست سے ہوا ہے۔ جن میں کچھ آیات کا مفہوم ادھر ذکر کر رہے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل پر جب اللّہ تعالیٰ کی طرف سے انعام و اکرام کی بارش ہوتی تو کہتے یہ سب کچھ ہماری بدولت ہے لیکن جب کوئی مصیبت پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور پر ایمان لانے والوں کی نحوست قرار دیتے۔

ان کی طرح قومِ ثمود نے بھی اپنے پیغمبر سے یہی کہا:
” اے صالح علیہ السلام! ہم تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بدشگونی لیتے ہیں“

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی جب اپنے نائب انطاکیہ کی طرف تبلیغِ دین کے لیے بھیجے تو اہلِ انطاکیہ نے ان کی بات نہ مانی، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا:
” ہم تم سے بدشگونی لیتے ہیں۔ یعنی تمہارا یہاں آنا ہمارے لیے نحوست و بے برکتی کا سبب ہے۔“( سورة یٰس: آیت 18)

اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریے کی تردید کرتے ہوے فرمایا:
” خبردار! یہ نحوست اللّہ کی جانب سے ان کے برے اعمال کی بدولت ہے۔“ (سورة الاعراف: آیت13)

کسی چیز، شخص یا مہینے و دن کو منحوس سمجھنا اور اپنی طرف سے ہی طرح طرح کے شگون لینا باطل عقیدہ ہے بلکہ اسلام کا نظریہ و عقیدہ ہے کہ انعامات و بھلائیاں، مصائب و پریشانیاں یا تو تقدیرِ الٰہی سے ہیں یا پھر انسان کے اپنے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا ہیں۔ فرمایا:

” بھلائی جو تمہیں پہنچے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی تمہیں پہنچے وہ تمہارے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔“ ( النساء: 79)

سورة توبہ میں فرمایا۔
” کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے حق میں لکھ رکھی ہے۔ وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو تو اللّٰہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔“ ( آیت: 51)
ایمان، تقویٰ، توبہ اور صالح اعمال اللّہ تعالیٰ کے فضل کو دعوت دیتے ہیں۔

سورة الاعراف میں فرمایا:
” اگر کسی بستی و علاقہ کے باشندے ایمان لے آئیں اور اللّہ سے ڈرنے لگیں تو ہم ان پر زمین و آسمان سے رحمتوں کے خزانے کھول دیں گے۔“ (سورة الاعراف: آیت 96)

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال سے بھی ان بدعات و خرافات کا باطل ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس لیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے نکاح صفر کے مہینے میں کیا۔ صفر کے مہینے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بہت سی فتوحات حاصل ہوئیں جن میں فتح خیبر سر فہرست ہے۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جس نے ہمارے دین کے معاملے میں نیا کام شروع کیا جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، خلفاء اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں تو وہ مردود ہے۔“ (صحیح مسلم)

پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” اور اس بات پر یقین کر لو کہ اگر پوری امت جمع ہو کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللّٰہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ اور اگر پوری امت مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے۔“

سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” بدشگونی شرک ہے۔ بدشگونی شرک ہے۔ تین بار ایسا فرمایا“
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو بدعات، بدشگونی و توہمات جیسے باطل عقائد سے بچائے۔ آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں