جنرل محمد ضیاالحق، سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان

جنرل ضیا الحق کا خطاب : اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر سے پہلے تلاوت ہوئی تھی یا نہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل :

یہ واقعہ یکم اکتوبر 1980 رات آٹھ بجے کا ہے، جب ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے لاتعداد پاکستانی ایک حیرت سے دوچار ہوئے۔

ٹیلی ویژن سکرینوں کے سامنے بیٹھے یہ لوگ اُس وقت کے فوجی حکمراں جنرل ضیاالحق کی تقریر کے منتظر تھے لیکن عین اس وقت قرآن کی تلاوت شروع ہو گئی اور وہ بھی اس اطلاع اور تاثر کے ساتھ کہ یہ آیاتِ ربانی اس وقت تاریخ کے ایک منفرد اور یادگار واقعہ کے طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں گونج رہی ہیں۔

جیسے ہی تلاوت ختم ہوئی، جنرل ضیا نے اپنے مخصوص لہجے میں ’نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٖ الکریم‘ کہہ کر اپنا پُرجوش خطاب شروع کر دیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تلاوت کے واقعے کی طرح جنرل ضیاالحق کی تقریر بھی ایک طرح کی نئی روایت تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے قبل کسی فوجی حکمراں یا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو اس فورم سے مخاطب ہونے کا موقع کبھی نہیں ملا تھا۔ لیکن اس بین الاقوامی ادارے کی تاریخ میں کسی ملک کے حکمران کو ایک عقیدہ رکھنے والے تقریباً 50 ملکوں کی نمائندگی کرنے کا موقع پہلی بار مل رہا تھا، یوں یہ اجلاس اور خطاب یادگار حیثیت اختیار کر گیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنرل ضیا کے خطاب سے قبل تلاوت کیسے اور کیونکر ممکن ہوئی؟ اس کی تفصیل کافی دلچسپ ہے لیکن جب عالم اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے جنرل ضیا کے انتخاب اور اُن کے خطاب کے سلسلے میں اختیار کی گئی ابلاغی حکمت عملی سے آگاہی ہوتی ہے تو ان واقعات کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

اور حکمت عملی کی اس آگاہی سے یہ پتا چلتا ہے کہ رائے عامہ میں مقبولیت کے حصول کے لیے شخصی حکومتیں کیسی کیسی تراکیب اختیار کرتی ہیں۔

جنرل ضیاالحق کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کی ترجمانی کا اعزاز کن حالات کے تحت ملا اِس پر گفتگو کرتے ہوئے اُس زمانے میں جنرل ضیاالحق کے قریبی ساتھی، جو بعد میں وفاقی وزیر اطلاعات بھی بنے، راجہ محمد ظفرالحق نے بتایا کہ ‘دراصل وہ زمانہ ایسا تھا جس میں مسلم دنیا اگرچہ بہت سے مسائل سے دوچار تو تھی لیکن خوش قسمتی سے اِس کے درمیان اِن مسائل کے بارے میں اتفاق زیادہ اور اختلافِ رائے نہایت معمولی تھا۔ بس، اسی چیز نے مسلم امہ کو اس فیصلے پر پہنچا دیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ درحقیقت ’یہ تین رکن ممالک کی تجویز تھی‘ جن میں ترکی، سعودی عرب اور پاپوا نیوگنی شامل تھے۔

ان ملکوں کا خیال تھا کہ موجودہ دور میں دستیاب لیڈران میں سے صرف ضیاالحق ہی پوری جرات کے ساتھ عالم اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں، ان ملکوں کی طرف سے تجویز سامنے آئی تو دیگر ملک بھی اس سے متفق ہوتے چلے گئے۔

سینیئر صحافی اور کالم نگار محمود شام اُن دنوں سیاسی رپورٹنگ کیا کرتے تھے، اس وجہ سے اس دور کی حزبِ اختلاف، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے بارے میں ان کی معلومات کا دائرہ اپنے ہم عصر صحافیوں کی نسبت زیادہ وسیع تھا۔ وہ اس معاملے کے ایک مختلف پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

’اصل میں یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا، اس کے پس پشت کچھ دیگر عالمی محرکات بھی کارفرما تھے جن میں لیبیا اور شام جیسے ممالک کا انداز فکر خاص طور پر قابل ذکر ہے۔‘

انھوں نے کہا ’یہ ملک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے معاملے پر پاکستان کی حکومت سے ناراض تھے اور جب موقع ملتا تھا، خفگی کا اظہار کر دیا کرتے تھے۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس کے نتیجے میں انھیں ہم خیال بنایا جاسکے یا کم از کم وہ غیر جانب دار یا خاموش تو ہی ہو جائیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ عالم اسلام کے نمائندے اور قائد کی حیثیت سے جنرل ضیا کی شخصیت جب یوں ابھر کر سامنے آئی ’تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکمت عملی بڑی حد تک کامیاب رہی۔‘

جنرل ضیاالحق اپنے خطاب کے لیے نیویارک پہنچنے سے قبل ایران، عراق اور پیرس بھی گئے تھے، پاکستانی اخبارات نے جنرل ضیاالحق کے اس غیر ملکی دورے کی کوریج بہت پُرجوش طریقے سے کی، اُن کے نیو یارک پہنچنے سے قبل نوائے وقت میں شہ سرخی کے اوپر سات کالمی باکس میں ایک خبر شائع ہوئی: ’صدر ضیا الحق آج عالم اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔‘

گویا اس خبر کی اہمیت شہ سرخی سے بھی بڑھ کر تھی۔

خبر کی ذیلی سرخیوں اور متن کی تفصیلات میں بتایا گیا تھا کہ پورا عالم اسلام اس تقریر کا بے چینی سے منتظر ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ جنرل ضیا اپنے خطاب میں اپنے امن مشن، خاص طور پر ایران عراق جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کریں گے، جس کی اقوام عالم بے چینی سے منتظر ہیں۔

مستقبل یعنی ایک دن کے بعد رونما ہونے والے واقعے سے قارئین کو باخبر رکھنے کے اس غیر معمولی اہتمام نے جنرل صاحب کے مشن کو مزید نمایاں کر دیا کیونکہ اوپر تلے سات اور آٹھ کالم کی دو خبریں ویسے بھی اخبار کے قاری میں ایسا احساس پیدا کر سکتی ہیں کہ معاملہ معمول سے کہیں بڑھ کر ہے۔

خبر کی تحریر بتاتی ہے کہ لکھنے والے نے اسے اس احتیاط کے ساتھ قلم بند کیا کہ کوئی معمولی سے معمولی بات بھی درج ہونے سے رہ نہ جائے۔ مثال کے طور پر اخبار نے لکھا کہ ریڈیو کے مطابق طویل مذاکرات کے بعد عراق کے صدر صدام حسین نے اپنی موٹر گاڑی میں صدر جنرل محمد ضیاالحق کو بغداد کی سیر کروائی۔

ان مذاکرات کے بعد گذشتہ 24 گھنٹے کے دوران جنگ کی شدت میں کمی دیکھی گئی۔۔۔۔۔ کویت کے اخبار السیاسہ نے لکھا ہے کہ کویت کے حکمراں شیخ جابر الاحمد جنرل ضیا کے دورے کے نتائج کے منظر ہیں۔۔۔۔۔ وغیرہ۔ اس طرح کی خبروں نے گویا بال ٹو بال کمنٹری جیسی صورت حال پیدا کر دی۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ان دنوں پاکستان کے دیگر اخبارات کی بھی تھی۔

اس ماحول کی تشکیل میں اخبار کے بعض دیگر مندرجات نے بھی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں نوائے وقت میں شائع ہونے والا ایک کارٹون خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں کارٹونسٹ جاوید اقبال نے تقریر کے لیے روسٹرم پر کھڑے ہوئے جنرل ضیاالحق کے سامنے سامع کی صورت میں ایک گلوب کو دکھایا جس میں اقوام عالم کے کروڑوں کان مقرر کو سننے کے لیے بے چین دکھائی دیتے تھے۔

اس طرح یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ عالمی مسائل کے سلسلے میں پوری دنیا جنرل ضیاالحق کو سننے کی منتظر ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستانی عوام کی نگاہ میں بھی ان کے خطاب کی اہمیت اجاگر کی گئی جس کا اندازہ ان کے خطاب سے اگلے روز نوائے وقت کی خبر سے ہوتا ہے:

’پوری قوم گوش بر آواز تھی، خطاب انگریزی میں ہونے کے باوجود جب بھی اسلام کا ذکر آتا، لوگوں کے چہرے بُشرے فرطِ جذبات سے چمک اٹھتے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ ہر پاکستانی عالمِ اسلام کی نمائندگی کا اعزاز ملنے پر خوش و خرم ہے۔‘

جنرل ضیا کے خطاب کے بعد انھیں عالم اسلام کی مؤثر نمائندگی کرنے پر مبارک دینے کا سلسلہ شروع ہوا، آئندہ کئی روز تک جس کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی رہیں، اس سلسلے میں سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کی طرف سے جاری ہونے والی ایک خبر توجہ طلب ہے جو2 اکتوبر 1980 کو پورے پاکستانی پریس میں شائع ہوئی:

’اسلامی ملکوں کے سفیروں نے صدر پاکستان کے خطاب کو ادب، تاریخ اور ڈپلومیسی کا شاہکار قرار دیتے ہوئے عالم اسلام کا مؤقف بہترین انداز میں پیش کرنے پر انھیں مبارکباد دی ہے۔‘

خبر کے متن کے مطابق یہ بیان سعودی عرب، کویت اور بنگلہ دیش کے سفیروں کا تھا تاہم سفیروں کے بیانات کی تفصیل میں یہ جملے نہیں ملتے جو اے پی پی نے خبر کے ابتدائیے میں شامل کیے تھے۔

مبارک بادی اور تحسین کا یہ سلسلہ اخبارات کے اداریوں اور کالموں میں بھی دیکھا گیا۔ روزنامہ جنگ نے اپنے اداریے میں لکھا:

’جنرل ضیا کی تقریر ہر اعتبار سے قابل تعریف ہے، ہمیں خوشی ہے کہ جنرل اسمبلی میں اسلامی ممالک کے نمائندوں نے بھی ہماری طرح اسے حوصلہ افزا اور ولولہ انگیز ہی قرار دیا ہے اور اس بارے میں اہل پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کی رائے میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔‘

نوائے وقت میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں صحافی عارف نظامی نے لکھا: ’جنرل ضیا کا یہ خطاب دو اہم مسلمان ملکوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان کی یہ کامیابی ایک تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جسے تاریخ میں تادیر یاد رکھا جائے گا۔‘

’کیا اخبارات یہ سب خود بخود کر رہے تھے؟‘

ناصر بیگ چغتائی اس زمانے میں اپنے صحافتی کیرئیر کے ابتدائی برسوں میں تھے اور ایسے واقعات کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔

بعد کے برسوں میں جب وہ جنگ اخبار کراچی میں اہم ذمہ داریوں پر فائز ہوئے اور اخبار کے مدیر اعلیٰ و مالک میر خلیل الرحمٰن کی قربت حاصل ہوئی تو انھیں اس قسم کے سوالات ان سے پوچھنے کے مواقع ملے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جنرل ضیا کے خطاب سے پہلے اور اس کے بعد بنائے جانے والے ماحول کے بارے میں ایک سوال پر میر صاحب مرحوم نے انھیں بتایا کہ اس مقصد کے لیے جنرل ضیا کے بااعتماد ساتھی اور سیکریٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمٰن نے ایک جامع حکمت عملی وضع کی تھی جو مؤثر رہی۔

ناصر بیگ چغتائی اس سوال کے جواب میں میر صاحب کی فراہم کردہ اطلاع کا ذکر کرنے کے علاوہ اپنے مشاہدات اور بعض معلومات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جنرل مجیب کی مؤثر حکمت عملی میں تو کوئی کلام نہیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اس زمانے کے اخباری مالکان کی ایک بڑی تعداد بھٹو صاحب کی مخالفت میں رضا کارانہ طور پر بھی جنرل ضیا اور ان کی حکومت کا ساتھ دے رہی تھی، لہٰذا ماحول کو ’سازگار‘ بنانے میں صحافیوں کے اس طبقے کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اخبارات نے اس خطاب کے سلسلے میں جو ماحول تیار کیا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یکم اکتوبر یعنی تقریر کے روز لوگ شام پڑتے ہی اپنے کاروبار بند کر کے گھروں کو چلے گئے یا شہر میں ریڈیو، ٹیلی ویژن کی دکانوں اور چائے خانوں میں جمع ہو گئے۔ روزنامہ جنگ کے الفاظ میں:

’آج صدر پاکستان جنرل ضیاالحق کی تقریر کی وجہ سے راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیشتر لوگ سرشام ہی دوکانیں بند کر کے اپنے یا اپنے عزیز، دوستوں کے گھروں میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے سامنے بیٹھ گئے۔ بازاروں میں رونق ایک دم ختم ہو گئی۔ صدر پاکستان کی تقریر کے دوران ہوٹلوں اور دوسری ٹی وی والی دوکانوں کے سامنے لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع تھے اور وہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک مسلسل صدر مملکت کی تقریر سنتے اور دیکھتے رہے۔‘

دو اکتوبر کو جس روز جنرل اسمبلی سے جنرل ضیا کے خطاب کی خبریں شائع ہوئیں، روزنامہ جنگ نے اس تقریر اور اس کے ماحول کی طویل جھلکیاں شائع کیں جن کے ایک نکتے نہ صرف یہ کہ پورے منظر نامے کو تبدیل کر دیا بلکہ تاریخ بنا ڈالی:

’صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق (پاکستانی وقت کے مطابق) رات آٹھ بج کر چار منٹ پر روسٹرم کے پاس آئے تو اچانک جنرل اسمبلی کا ہال تلاوت کلام پاک سے گونجنے لگا، صدر مملکت تعظیمی ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ یہ تلاوت قاری شاکر قاسمی نے کی تھی مگر وہ جنرل اسمبلی کے ہال میں نظر نہیں آئے۔ صدر ضیاالحق جو قومی لباس سیاہ شیروانی، شلوار کرتا پہنے ہوئے تھے، نے تلاوت کے بعد عینک اتار کر اپنی فائل پر رکھی، اپنی تقریر کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے کیا اور عینک پہن لی۔ صدر ضیا الحق شروع سے آخر تک پورے ایمانی جذبے کے ساتھ گرج دار آواز میں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے رہے۔‘

ان جھلکیوں میں شامل اُن تمام تر تفصیلات نے اگرچہ وہ ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس سے آنے والے برسوں میں جنرل ضیا کو اپنا مذہبی چہرہ پختہ کرنے میں مدد ملی لیکن تلاوت والا نکتہ سب پر اس طرح بازی لے گیا کہ 40 برس گزرنے کے بعد اس واقعے کا صرف یہی ایک ہی پہلو پاکستانی عوام کے حافظے میں محفوظ ہے۔

جنگ کی جھلکی کے مطابق ’جنرل ضیا کی تلاوت سے قبل جنرل اسمبلی کا ہال تلاوت سے گونج اٹھا تھا۔‘

یہ بیان اس حد تک تو درست ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین جس وقت ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے تھے، انھوں نے یہی منظر اپنے ٹیلی ویژن پر دیکھا لیکن یہ واقعہ گزرنے کے کچھ عرصے کے بعد اس واقعے کے بارے میں مختلف کہانیاں سامنے آنے لگیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جنرل اسمبلی میں قاری صاحب نے تلاوت نہیں کی تھی بلکہ تلاوت کی ریکارڈنگ نشر کی گئی تھی۔ راجہ ظفر الحق بھی ریکارڈنگ والی کہانی سے اتفاق کرتے ہیں۔

ان واقعات میں یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ جنرل ضیا کے خطاب کے موقع پر تلاوت کی تجویز کہاں سے آئی؟ راجہ ظفرالحق بتاتے ہیں کہ جب یہ فیصلہ ہو گیا کہ جنرل ضیا عالم اسلام کی نمائندگی کریں گے، اس موقع پر جنرل ضیا نے کہا کہ میں تو اپنی بات کہنے سے پہلے ہمیشہ تلاوت پسند کرتا ہوں، لہٰذا اس تقریر سے پہلے بھی تلاوت ہونی چاہیے۔

یوں تلاوت کروانے کا فیصلہ ہو گیا لیکن اس میں ایک عملی رکاوٹ حائل تھی کہ جنرل اسمبلی کے پروٹوکول کے مطابق سربراہان ریاست کے خطاب کے دوران کوئی دوسرا شخص روسٹرم پر آ سکتا ہے اور نہ ایجنڈے سے ہٹ کر کوئی دوسری بات کہی جا سکتی ہے۔ اس مشکل کا حل کیسے نکالا گیا؟

اس کی تفصیل پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر اختر وقار عظیم نے بتائی۔ انھوں نے اپنی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ میں بھی اس کی تفصیلات درج کی ہیں۔

انھوں نے لکھا ہے کہ پی ٹی وی نے اس موقع پر دنیا کے دیگر ٹیلی ویژن چینلز کی طرح جنرل اسمبلی ہال سے ملحق ایک سویٹ بک کروا رکھا تھا جس میں وہ تمام نشریاتی ساز و سامان اورعملہ موجود تھا جو تقریر کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کے لیے ضروری تھا۔

اس کے علاوہ سویٹ میں دو دیگر افراد بھی موجود تھے، ان میں ایک ملک کے معروف نیوز کاسٹر اظہر لودھی تھے اور دوسرے قاری صاحب تھے۔ جنرل ضیا کی تقریر سے کچھ دیر قبل اظہر لودھی سے اعلان کروایا گیا کہ اب سے کچھ دیر کے بعد صدر پاکستان خطاب کرنے والے ہیں، اس سے قبل تلاوت قرآن حکیم سنیے۔ جیسے ہی انھوں نے اعلان ختم کیا، تلاوت شروع ہو گئی۔

تلاوت کے دوران اسمبلی ہال اور اس کے شرکا دکھائے گئے جس سے محسوس ہوا کہ وہ بھی تلاوت سُن رہے ہیں۔

اختر وقار عظیم لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ تھی کہ اسمبلی ہال میں اس وقت جنرل ضیا سے پہلے مقرر کا خطاب جاری تھا لیکن پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین تلاوت کو ایک ایسے تاریخی واقعے کے طور پر دیکھ، سُن اور سمجھ رہے تھے کہ جیسے یہ واقعہ ایوان کے اندر رونما ہو رہا ہے اور تاریخ بن رہی ہے۔

نیویارک میں جنرل اسمبلی کے سویٹ سے جنرل ضیاالحق کے خطاب کا اعلان کرنے والے اظہر لودھی کی یادوں میں یہ واقعہ کل کی طرح تازہ ہے۔ وہ کہتے ہیں:

’میری طرح قاری شاکر قاسمی بھی جنرل اسمبلی میں موجود تھے لیکن تلاوت پہلے ریکارڈ کر لی گئی تھی۔ جیسے ہی جنرل ضیاالحق روسٹرم پر پہنچے، ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر انھوں نے اپنی جیب سے نکالا اور آن کر کے اُسے روسٹرم پر رکھ دیا۔ اس کے بعد احتراماً ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ جیسے ہی تلاوت ختم ہوئی، انھوں نے تقریر شروع کر دی۔‘

اصل میں میں اُس روز کیا ہوا تھا، ممکن ہے، اصل کہانی ان کہانیوں کے درمیان ہی کہیں گم ہو۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں