الطاف جمیل ندوی ، اردو کالم نگار

وہ جو خواب ہی رہا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

الطاف جمیل ندوی :

کوئی صاحب علم چاہے تو درد و کرب سے سسکتی ہوئی انسانیت کے لئے اپنی خدمات انجام دے سکتا ہے، بس ! اس کے لئے اہم یہ ہے کہ دل سے لکھے یا بیان کرے تو یقینآ اک تصور پیدا ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ آنکھوں دیکھے مصائب بیان کرے اور انداز محبانہ بھی ہو اور مشفقانہ بھی، دلربائی کا بھی اور سیاہ رات کا بھی ۔

جیتی آنکھوں سے دیکھے حسین خواب بھی ہوں اور تصور میں بسائے ارادے بھی ہوں تو لذت تحریر دل کو بھا جاتی ہے ۔ وہ خواہ دنیا کے کسی بھی خطہ ارضی کا ہو، گرچہ جہاں میں ہر سو آہ و بکا کی صدائیں فضاؤں کو آزردہ کئے ہوئے ہیں ۔ لیکن کچھ ایسے بدنصیب خطہ ہائے ارضی بھی ہیں جہاں مسلسل صدیوں کے بیت جانے کے بعد بھی سکوں جان نہیں ملتا ،

جہاں ڈر اور خوف کی تمام شکنیں چہرے پر بکھری رہتی ہیں، کچھ اس انداز سے کہ ان شکنوں کے بغیر چہرہ بے حس لگتا ہے۔ انہی خطوں میں اک خطہ ارضی جسے دنیا وادی کشمیر کے نام سے جانتی ہے، سلگ رہا ہے جس کے ہزاروں مسائل ہیں، لیکن عالم جہاں اس کرب کا مداوا تو کیا اس کو قابل التفات بھی نہیں سمجھتا ۔ یوں ہی بلکتے سسکتے یہاں ہم نے جب آنکھیں کھولیں تو ہمارا واسطہ اب تک اسی آنسو بہانے سے ہے جو ہم نے پیدائش میں بہائے تھے ، یہ ستم اب بھی جا نہیں رہا ہے۔ ہم ہیں اور ہمارے آنسو ہیں۔

وہ جو خواب ہی رہا
وادی کشمیر کے سلگتے بلکتے خطہ ارضی سے میرے عزیز عاقب شاہین (جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ موصوف کی عمر ابھی صرف 21 سال کی ہے، پلوامہ کی ایک بستی راجپورہ لتر میں پیدائش ہوئی) نے اک خواب کے رستے ناسور جو کہ ہر جگر میں ہے کو صفحہ قرطاس پر منتقل کردیا ہے۔

ان صفحات میں وہ درد و کرب کی داستان موجود ہے جو آدمی کی آنکھیں بھگو دینے کے لئے کافی ہے، کچھ صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی میں تھک ہار گیا کہ کیسے وہ درد کی داستان پڑھوں جو افسانوی ہونے کے بجائے حقیقی افسانوں پر مشتمل ہے، اس میں موجود کردار گر چہ تخلیق کئے گئے ہیں ، مگر ان کا حقیقت کی دنیا سے واسطہ موجود ہے۔

مختلف ادوار میں لکھے گئے ناولوں جن میں نسیم حجازی، عنایت اللہ التمش صادق سر دھنوی وغیرہ نے اپنے اپنے انداز کے ناولوں کو دنیائے علم و ادب کے حوالے کرکے اک فکر کی ترجمانی کی لیکن موصوف نے ان تمام چیزوں سے دور رہ کر اصل کرب کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جہاں افسانوی کردار کی بو نہیں آتی بلکہ حقیقی کرداروں کا تذکرہ ملتا ہے اور ہر لمحہ آنکھیں آنسو بہانے کو مچلتی ہیں۔

کتاب زیادہ ضخیم بھی نہیں ہے مگر قاری کو مجبور کرتی ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے اور بار بار مطالعہ کیا جائے ، بہرحال اس کتاب کا مطالعہ کرنے کو ہمت چاہئے، دل میں صبر اور آنکھوں کا قرار چاہئے۔

جب آپ اس کتاب کو ہاتھوں میں لیں گے تو یقینآ آپ کو یہ کہانی اپنے آس پاس ہوئے حادثات کا احساس دلائے گی اور آپ ماضی حال کا ملا جلا تصور لے کر اس کے مطالعہ میں کھو جائیں گئے۔ جوں ہی آپ اپنے خواب سے بیدار ہوجائیں گئے تو سوائے دعاؤں کے آپ کے پاس سوچنے کو باقی کچھ نہ رہے گا۔

کتاب میں اک طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے کہ حقیقت کو افسانوی کردار میں ڈھالا گیا ہے، پر اس کی حقیقت ہر اس قاری پر از خود واضح ہوجاتی ہے جو خود اسی خطہ ارضی کا مکین ہو۔ انتہائی بہترین کاوش و قابل قدر کام ہے جس کی زبان اردو ہی ہے پر اس کے صفحات پر الفاظ کی جو حسین مالا بکھیری گئی ہے وہ الفاظ مصنف کی اردو زبان پر گرفت مضبوط ہونے کی بھی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں

اور یہ جو کتاب ہے ” وہ خواب ہی رہا “ کا اصل تصور ہے کہ اک شخص کچھ خوابوں کو دل میں بسائے ،اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہونا چاہتا ہے، پر اسے آگئے بڑھانے والوں کے بجائے ، خواب بکھیرنے والوں کے ہاتھ آجاتا ہے اور خواب جو بسائے گئے تھے ،ہزاروں جتن کرنے کے باوجود بھی ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔

تحریر میں سوز گداز کی کیفیت قاری پر حاوی ہوجاتی ہے۔ امید کرتا ہوں کہ یہ تسلسل سے جاری رہے گا تا آنکہ بکھرے خوابوں کو کوئی تعبیر مل جائے۔ اس کے لئے قوت حمیت اور ذوق علمی و ادبی ہونا لازم ہے جوکہ جناب میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ رب کریم ان کی یہ کاوش اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

کتاب کا مختصر تعارف یہ نظم ہے جو انہیں کی ہے

آؤ دیکھو ۔۔۔۔۔!!!
کشمیر میرا کتنا بے بس، بے زباں ہے۔۔۔۔
خوف سے سہمی مِری ہی وادیاں ہیں۔۔۔۔
ساری دُنیا خوش ہے لیکن۔۔۔!!!
غمزدہ بس میرا ہی تو آشیاں ہے۔۔۔۔
خوں کی نہریں بس یہاں بہتی ہیں ،لیکن
ظالمو۔۔۔۔!!! دیکھو ، تمہارے تو وہاں بس۔۔۔۔
شادیاں ہیں۔۔۔۔۔

کچھ نہیں باقی یہاں۔۔۔۔۔سب
تو ہوا برباد شاہیں۔۔۔۔!!!

اب بِنا طیّور کے کھنڈر ہی تو یہ
آشیاں ہے ۔۔۔۔۔!!!
اے خدا۔۔۔۔۔!!! کر رحم ہم پر
باغ اُجڑا ہے ہمارا
رو رہے سب باغباں ہیں۔۔۔
کتنے بے بس ہم ہیں، نہ تو آسرا کوئی ہمارا۔۔۔۔
اب تو بس تُو ہی ہمارا
مہرباں ہے ۔۔۔۔۔!!!

آخر میں ہماری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارکباد وصول کرکے محترم قبول فرمائیں اس قابل قدر بیش قیمت کوشش کے لئے ۔ قارئین کی نذر ان کی ایک اور نظم :

اہلِ جہاں کہتے ہیں جسے جنت ، وہ کشمیر ہے ہمارا
پنجہِ ظالم میں تڑپ رہا ہے ، ہماری آنکھوں کا تارا
وہ برف پوش راہیں ، اونچے کہسار سارے
شوخ کِھلتی کلیاں ، باغوں کے منظر وہ پیارے
چِڑیوں کا چہچہانا ، وادی کے خُوبرو نظارے
اُداس ہو گئے ہیں ، رو رہے ہیں لوگ سارے
صدیوں سے سسک رہی ہیں وادی کی یہ ہوائیں
سُنسان ہو گئی ہیں وادی کی سب فضائیں
خُوں سے تربتر ہیں ماؤں بہنوں کی ردائیں
کشمیر میں گُونجتی ہیں دِلخراش سی صدائیں
عاقب شاہین شکوہ یُوں نہ کر تو سارے..
اپنوں کے ہاتھوں ہی لُٹ گئے ہیں گھر ہمارے
شاہین نہ بُجھنے دینا اپنی آنکھوں کے تارے
اِک دن دُور ہو جائیں گے دُکھ درد سب ہمارے
اہلِ جہاں کہتے ہیں جسے جنت ، وہ کشمیر ہے ہمارا
پنجہِ ظالم میں تڑپ رہا ہے ، ہماری آنکھوں کا تارا


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں