ابن فاضل ، اردو کالم نگار، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ

رکشہ والےکی فہم اور ناموس بے رحم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

کچھ سال ہوئے، غالباً جون کا مہینہ تھا. سخت گرمی اور عین دوپہر کا وقت . کسی کام سے بازار جانا تھا. مگر جی ٹی روڈ مالٹا ریل منصوبہ کی وجہ سے بہت شکست وریخت کا شکار تھی. گاڑی پر سفر تقریباً ناممکن تھا سو ایک رکشہ میں بیٹھنا پڑا.

رکشہ والے سے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، آخر، یونہی اس سے پوچھ لیا:
” بھائی ! نماز پڑھتے ہو؟ “
کہنے لگا :” صاحب ! کل سے پابندی شروع کی ہے. اب نہیں چھوڑوں گا. بہت حیران کن بات تھی کہ کل سے شروع کی ہیں.“
پھر سے پوچھا: ” کیوں بھئی؟ کل ایسا کیا ہوا؟؟“

کہنے لگا:
” صاحب ! کل ایک جگہ سڑک پر کام ہورہا تھا تو سڑک کافی دیر کیلئے بند کردی گئی. میں درجنوں دوسری گاڑیوں سمیت سخت گرمی میں کافی دیر ٹریفک میں پھنسا رہا. بہت مشکل ہوئی. اس دوران میں نے دیکھا کہ ایک سائیکل والا آیا ، اس نے اپنا سائیکل کندھے پر رکھا اور آرام سے ایک طرف سے نکل کر یہ جا وہ جا. اسی طرح پیدل چلنے والے بھی ادھر ادھر سے راستہ بناتے گزرتے رہے جبکہ گاڑیوں والے اور ہم پھنسے رہے. “

کہنے لگا:” یہ سارا ماجرا دیکھتے ہوئے جی میں آئی کہ روز حساب بھی یہی منظر ہوگا. جسے دنیا میں کم نوازا گیا ہوگا یا جس کے گناہوں کا بوجھ کم ہوگا وہ تو ایسے ہی سائیکل والے کی طرح نکل جائیں گے، اور جن کو بہت نوازا گیا ہوگا یا جنہوں نے لوگوں کے بہت حق کھائے ہوں گے،یا بہت گناہوں والے، ان گاڑی والوں کی طرح پھنسے ہوں گے. بس ! میں نے سوچ لیا ہے کہ ہلکا پھلکا پیش ہونا ہے رب کے سامنے، گناہوں کا گٹھڑ لیکر نہیں جانا۔“

اور میں آج تک اس رکشہ والی کی فہم پر پیہم متحیر ومبہوت ہوں کہ ہم پڑھے لکھوں، سائنسدانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں، وکیلوں ، سیاستدانوں اور اعلیٰ افسران کی سمجھ میں جو بات آج تک نہ آسکی وہ ایک رکشہ والے نے کتنی آسانی سے سیکھ لی.

ناموسِ بے رحم

محمد حسین لاہور کے مضافات میں ایک چھوٹا سا کارخانہ دار ہے. بہت محنت کے باوجود بہ مشکل تمام گزر بسر ہوتی ہے. کسی مشترکہ دوست نے تعارف کروایا تو کہنے لگا :
” صاحب !مجھے بھی کچھ بتائیں کہ آمدن کیسے بڑھائی جائے؟“
عرض کیا کہ مجھے آپ کے کام اور قابلیت کے متعلق کچھ بنیادی باتیں جاننا ہیں. کہنے لگا
” بس پھر آپ اتوار کے روز میرے ساتھ چائے پئیں.“
بہت منع کیا مگر اس کے خلوص اور ضد کے سامنے ہار ماننا پڑی.

چائے سے پہلے اس نے سموسے پیش کیے. وہ سموسے کیا تھے بس کوئی سوغات تھی. اس قدر خستہ اور زبردست کہ بڑے سےبڑے نامور سموسہ بیچنے والوں کا معیار ان کے سامنے بونا تھا. پوچھنے پر معلوم ہوا کہ محمد حسین نے خود بنائے ہیں. میں نے کہا :” بس ! تمہاری اضافی آمدنی کا بندوبست ہوگیا. ہم ایک زبردست جگہ پر ایک آراستہ وپیراستہ بڑی سی دوکان بنائیں گے جہاں سارا سامان سٹین لیس سٹیل کا ہوگا اور شیشہ کے کیبن میں لوگوں کے سامنے انتہائی خوبصورت اور قابل نمائش انداز سے سموسے بنائے اور بیچے جائیں گے.“

محمد حسین پہلے تو جھجھکا، پھر راضی ہوگیا. ہم نے فزیبیلٹی تیار کروائی، کوئی دس لاکھ کی سرمایہ کاری تھی اور منافع بتدریج بڑھتا ہوا اس کی ضرورت اور تصور سے کہیں زیادہ متوقع تھا. ایک سرمایہ کار کو رضامند کیا، اور دونوں کے درمیان ایک کا روباری معاہدہ کی تحریر رقم کروا کردونوں کو اپنے دفتر بلایا.

محمد حسین اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے آیا. گپ شپ اور چائے کے دور کے بعد جب معاہدہ پر دستخط کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ محمدحسین کا بھائی اس ساری کاروائی سے نابلد تھا. جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ بھائی سموسے بیچنے کی دوکان بنانے لگے ہیں اس نے باقاعدہ ہنگامہ کردیا.

معلوم ہوا کہ وہ بڑا کارخانہ دار ہے اورشیر کے مشہور علاقہ میں بڑے گھر میں رہتا ہے. اس کے خیال میں اس کیلئے بہت عار کی بات تھی کہ اس کا بھائی سموسے بیچے. وہ دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا. ہم نے اسے بہت سمجھایا مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی. بلکہ جاتے ہوئے کہہ گیا کہ
” محمد حسین ! اگر تم نے یہ کام کیا تو تمہارا ہمارا تعلق ختم. تم میرے لیے مر گئے اور میں تمہارے لیے. “

اس کے جانے کے بعد محمد حسین کتنی دیر روتا رہا مگر بھائی کو ناراض نہیں کرسکا. اس نے وہ معاہدہ نہیں کیا. کافی عرصہ بعد آج محمد حسین سے ملاقات ہوئی. بالکل ویسے ہی حالات ہیں. میں نے بھائی کا پوچھا کہنے لگا :
” اس نے کراچی میں بھی ایک بہت بڑا کارخانہ لگا لیا ہے. “


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں