گزشتہ دنوں ایک کہانی میرے مطالعہ میں آئی، کہانی کا مرکزی کردار منی دیوی ہیں جو بھارت کی ریاست بہار سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے دونوں بیٹے پڑھائی اور کام کے لئے بھارتی دارالحکومت دہلی آ گئے۔
منی دیوی ہمیشہ بیٹوں کی صحت کے بارے میں فکرمند رہتی تھیں۔ وہ سال میں کچھ دن اپنے بیٹوں کے پاس آیا کرتی تھیں۔ ایک بار جب وہ دہلی آئی تو ان کی ملاقات اپنے بیٹے کے دوست کی بیوی پلوی پریتی سے ہوئی، وہ بھی بہار ہی کی تھیں،دونوں میں اچھی گپ شپ ہونے لگی۔ دونوں نے سوچا کہ کیوں نہ وہ مل کر کچھ ایسا کام کریں جس سے گھر سے دور رہ رہے لوگوں کو گھر کا صاف اور صحت بخش کھانا مل سکے۔ اس کے بعد دونوں نے ریسرچ شروع کر دی اور جلد ہی اپنی ریسرچ کو فائنل کرکے مئی 2013 میں کارپوریٹ ڈھابا کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک آفس ٹفن سروس تھی ۔
کارپوریٹ ڈھابا کا مقصد کارپوریٹ دنیا میں کام کرنے والے لوگوں کو ، صاف ستھرا، بہترین گھر کا کھانا مہیا کرنا تھا۔ پہلے ہی دن انھیں 38 کھانوں کا آرڈر ملا جو بہت زیادہ تھا۔ چند دن دونوں نے مل کر ہی کھانا بنایا لیکن بعدازاں مسلسل بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے سبب کچھ لوگوں کو کام پر رکھا گیا۔
اب منی دیوی کہتی ہیں:” ہم کھانے کی کوالٹی سے بالکل سمجھوتہ نہیں کرتے عام طور پر جب ڈیمانڈ زیادہ آنے لگتی ہے تو بہت فوڈ پرووائڈر کوالٹی پر سمجھوتہ کر دیتے ہیں تاکہ بڑھی ہوئی ڈیمانڈ کو پورا کیا جا سکے اور زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے لیکن ہم لوگ چاہتے ہیں کہ اگرچہ منافع کم ہو لیکن ہم اپنی کوالٹی کی سطح نہیں گرائیں گے۔ منی دیوی کہتی ہیں کہ میں اپنے گاہکوں کو اپنے بچوں کی طرح ہی سمجھتی ہوں اور پھر اسی حساب سے ہم لوگ کام کرتے ہیں۔
دہلی میں بہت ٹفن سروس پرووائڈر ہیں لیکن وہ سب کے سب بہت چھوٹے سطح پر کام کر رہے ہیں۔ عموماً وہ گھروں میں اکیلے رہنے والے لوگوں تک ہی کھانا پہنچاتے ہیں لیکن کارپوریٹ ڈھابا نے اپنے کلائنٹ رینج کو بڑھایا اور کارپوریٹ دفتروں میں کھانا پہنچانا شروع کیا۔
کارپوریٹ ڈھابا ایک دن میں تقریبا 400-500 کھانے کارپوریٹ لوگوں تک پہنچاتا ہے اور بعض دنوں میں یہ تعداد 600 سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ کمپنی آفس کے علاوہ کارپوریٹ شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کے گھر میں بھی کھانا پہنچاتی ہے۔ یہ لوگ اب صرف سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے ہی اپنی مارکیٹنگ کر رہی ہیں ساتھ ہی ان کی کسٹمر مائوتھ پبلسٹی کرکے مسلسل کمپنی کی سیل بڑھا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں کمپنی دہلی کے دیگر علاقوں میں اپنے کام کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ اگر وہ کوالٹی برقرار رکھیں گے تو لوگ خود ان کے پاس آئیں گے اور انہیں مارکیٹنگ وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جہاں پر بے پناہ امکانات ہیں اور کمپنی کی توجہ آنے والے وقت میں کوالٹی کے ساتھ اپنا کلائنٹ بیس بڑھانےپر ہے۔
منی دیوی اور پلوی پریتی کی کہانی ہمیں کئی ایک سبق دیتی ہے۔ آپ نے کیا سبق سیکھا؟ آپ بھی اپنے علاقے میں دیکھیں کہ کس کاروبار کی ضرورت ہے، اور پھر منصوبہ عمل تیار کرکے میدان میں کودجائیں، مسلسل محنت اور جدوجہد کے ذریعے کامیابیاں سمیٹیں۔