رقیہ اکبر چودھری، اردو کالم نگار، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ، بلاگر

پیٹ ناں پئی آں روٹیاں ، تیں سبھے گلاں کھوٹیاں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رقیہ اکبر چودھری :

سوال یہ نہیں ہے کہ گیارہ جماعتیں جو ایک دوسرے سے نظریاتی طور پر ایک سو اسی ڈگری کے زاویے پہ ہیں اکھٹی کیسے ہو گئیں۔۔۔۔

سوال یہ بھی نہیں کہ گیارہ جماعتوں کا اشتراک جتنا اکٹھ کر پایا ہے وہ حکومت کو ہلانے کیلئے کافی ہے یا نہیں؟

سوال یہ بھی نہیں کہ جلسوں میں ابھی تک صرف سیاسی کارکنان ہیں عام آدمی نہیں۔۔۔

تشویش تو صرف اس بات پہ ہے کہ آپ کو عوام کے مسائل کا ادراک کیوں نہیں؟
اس بات کا احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ آپ کی بیڈ گورننس اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبی اور پسی عوام زیادہ دیر یہ بوجھ برداشت نہیں کر پائے گی۔

یاد رکھیں اس عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے اور تب تو اور ہی کمزور ہو جاتی ہے جب ان کے پیٹ خالی اور ہونٹ پیاس سے خشک ہو رہے ہوں۔۔۔

ہماری سرائیکی زبان کی ایک کہاوت ہے
"پیٹ ناں پئی آں روٹیاں ، تیں سبھے گلاں کھوٹیاں” ایسے میں پھر کہاں یاد رہتا ہے کہ دسترخوان سجانے کا لارا دینے والا چوروں اور لٹیروں کا گروہ ہے یا ایمان داروں کا۔۔ ایمان داری ہی ایک اکیلی شرط ہوتی تو عوام کبھی جماعت اسلامی کو رد نہ کرتی۔ ان کے پاس تو آپ ہی کی طرف سے جاری کردہ ایمان داری کے ثبوت موجود ہیں جس پر اعلیٰ عدلیہ کا تصدیقی ٹھپہ بھی لگا ہوا ہے مگر دیکھ لیں عوام نے اٹھا کر پھینک دیا ایمانداری کا وہ تمغہ کہ
لو جی او پئی جے تہاڈی ایمانداری۔۔۔۔اگر کچھ ” ڈلیور“ نہیں کر سکتے تو چولہے میں جھونک دو اس سرٹیفکیٹ کو۔۔

آپ کے ارد گرد تو یوں بھی مصدقہ بےایمان مشیروں وزیروں کی ٹیم ہے ، ایک آپ کی ذات کی ایمان داری سے کیا ہو جائے گا بھلا۔۔۔؟ ایسا ہوتا تو وزارت عظمیٰ کی سیٹ پر شاید آج آپ نا ہوتے۔۔

آپ کیوں اتنے خوش فہم ہیں کہ عوام آپ کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنسی ہوئی ہے اس لئے کبھی چوں نہیں کرے گی؟

آپ کے دوست آخر کب تک عوام کو آپ کی ” شستہ اور رواں انگریزی“۔۔۔”بنا پرچی کی دھواں دھار تقریروں “ اور آپ کے ” یونانی حسن “ کے سحر میں جکڑے رکھے گی؟

کب تک آپ کی ایمانداری کا ” لولی پاپ “ چوس چوس کر منہ کو بند رکھا جا سکتا ہے؟ آخر تو یہ لولی پاپ کبھی ختم ہو گا ہی پھر کیا ہو گا۔۔۔؟ آپ کیوں اس وقت سے خوفزدہ نہیں؟
آپ کو یہ ڈر کیوں نہیں کہ یہی پسی ہوئی عوام اگر باہر نکل آئی تو۔۔۔۔

آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ڈوبتا ہمیشہ تنکے کے سہارے کی تلاش میں رہتا ہے اور آپ ہیں کہ اس ڈوبتے کیلئے سہارا بننے کی بجائے اس بات پر ڈفلیاں بجا رہے ہیں کہ ” دشمن کے تنکے “ میں اتنا دم نہیں کہ ڈوبتوں کو سہارا دے سکے۔۔

اس مشکل وقت میں عوام کیلئے آپ کے دماغ میں آیا بھی تو کیا۔۔۔۔۔
” ٹائیگر فورس کنونشن “

مہنگائی سے پسی عوام کیلئے کوئی ریلیف پیکج دینے کی بجائے "ٹائگر فورس” کنونشن کا تحفہ بھی خوب ہے۔۔ گھر آئے مہمان کو چائے پانی نہ پوچھنے کی لاجک یہی تھی ناں کہ حکومتی سرمایہ کا پیسہ پیسہ بچایا جائے تو ٹائیگر فورس جیسی بیکار فورس کے کنونشن پر اتنا سرمائے کا ضیاع کیوں؟

آپ کو دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے کا بس یہی موثر طریقہ ہی سوجھا تھا؟

پھر اس کنونشن میں آپ نے اپنے مرتبے کا لحاظ بھی نہیں کیا۔۔۔بھول گئے تھے کیا کہ آپ وزیر اعظم ہیں؟ یہ محلے کے بدمعاشوں کی طرح داڑھی پہ ہاتھ پھیر کر دھمکیاں دینا کیا آپ کو زیب دیتا ہے؟ پھر وہ جو باہر گیا جسے ” تو واپس آ کے دکھا “ کی تڑی لگا رہے تھے وہ جب اندر تھا تو کیا کر لیا آپ نے؟ان سرٹیفائیڈ چوروں سے دھیلا بھی نہیں نکلوا پائے آپ اور

وہ ” باہر “ گیا تو گیا کیسے؟
پھر آپ نے جس طرح سے اپنے مخالفین کو ” نانیاں “ یاد کرائی ہیں یہ ان کی توہین سے زیادہ آپ کے وقار پہ دھبہ ہے جناب۔۔۔

اب اگر سیاست میں ” بڑے بڑوں “ کا وتیرہ بھی یہی تضحیک و استہزاء والا ہو تو چھوٹوں کو کیسے روکیں گے ؟

آپ جیسے ” فارن کوالیفائڈ “ رہنما ،جس کی زبان و بیان کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے ان کے فالورز اگر ان کا انداز گفتگو بھی تھڑے پہ بیٹھے لچے لفنگوں جیسا ہو گا تو پھر قافلے کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں