کتابوں کی عجیب وغریب دکانیں جہاں کوئی دکاندار نہیں‌ہوتا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابومحمد مصعب
اگر ہمارے ملک کے کسی بڑے شہر میں ایسا ہو کہ کتب کی ایک دکان ہو جو انواع و اقسام کی کتب سے بھری ہوئی ہو لیکن وہاں کوئی دکاندار نہ ہو بلکہ خریدار خود ہی ایمانداری سے، خریدی گئی کتب کی قیمت گُلک میں ڈال جاتے ہوں تو کیا خیال ایسی دکان کتنا عرصہ چل پائے گی؟
یہ بات مفروضہ نہیں، حقیقت ہے لیکن پاکستان میں نہیں دبئی میں جہاں بچپن سے کتب سے دوستی رکھنے والی ایک ہسپانوی عورت نے کمال کر دکھایا ہے۔ انہوں نے دبئی میں سات جگہوں پر بک اسٹورز کھولے ہیں، جن میں پچیس ہزار سے زائد ٹائٹلز رکھے گئے ہیں۔ ان کے پاس ایک ٹرک بھی ہے جو موبائل بک شاپ کا کام کرتا ہے۔ اس ٹرک کے دن مقرر ہیں کہ وہ کون سے دن کہاں جائے گا۔
ان بک اسٹورز میں، آغاز میں ہلکا پھلکا اسٹاف رکھا گیا تھا۔ مگر کچھ وقت کے بعد خاتون کو احساس ہوا کہ خرچہ نہیں نکل رہا تو ملازمین کی چھٹی کردی، لیکن کتب خانے بند نہیں کیے۔
ان کا کاروبار یوں چلتا ہے کہ دکانوں میں کتب کے شائقین آتے ہیں، اپنی پسند کی کتاب لیتے ہیں پھر وہاں رکھے ڈبے میں خریدی گئی کتاب کی قیمت ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ اگر وہ بغیر پیسے ادا کیے کتاب لے کر چلے جائیں، تو انہیں کوئی روکنے والا نہیں لیکن آج تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔

اسپین سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کا نام Montserrat Martin ہے۔ ان سے جب گلف نیوز کے نمائندے نے پوچھا کہ آپ نے ایسا خطرہ کیسے مول لے لیا؟ کہنے لگیں:” مجھے معلوم تھا کہ دبئی میں قانون کی پاسداری اور امن و امان اعلیٰ درجے کا ہے اور یہاں کے لوگ ایماندار ہیں اور اب وقت نے اس بات کو سچ ثابت بھی کردیا ہے۔ میں دن میں صرف ایک بار اسٹورز پر جاتی ہوں تاکہ کتب جو فروخت ہوچکی ہوں ان کی جگہ دوسری رکھ دوں اور گُلک میں سے رقم نکال لوں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میرے ہوتے ہوئے وہاں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں کل ایک کتاب لے کر گیا تھا، پیسے نہیں ادا کیے تھے، اب دینے آیا ہوں۔

ہر کتاب پر یا تو سبز رنگ کا اسٹیکر ہوتا ہے یا پھر زرد رنگ کا۔ زرد رنگ کے اسٹیکر کا مطلب ہوتا ہے کہ کتاب دس درہم کی ہے اور سبز رنگ کے اسٹیکر کا مطلب ہوتا ہے، کتاب بیس درہم کی ہے۔ یوں کسٹمرز کو قیمت کے معاملہ میں زیادہ حساب کتاب نہیں کرنا پڑتا۔
ان کتب خانوں کا نام، "بک ہیرو” (Book Hero) ہے جو دبئی میں سات مختلف مقامات پر کامیابی سے چل رہے ہیں۔

خاتون کا کہنا ہے کہ اب وہ ایک بس کے اندر ’’گشتی کتب خانہ‘‘ قائم کرنے کا سوچ رہی ہیں جو مختلف علاقوں میں جائے تاکہ جو لوگ مصروفیات اور ٹریفک کی وجہ سے، ’’بک ہیرو‘‘ پر نہیں آ سکتے، وہ اس موبائل بک شاپ سے استفادہ کریں۔
سب سے قیمتی بات جو انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے کتب بینی ختم ہو جائے گی؟ تو ان کا جواب تھا:
کتاب کی جگہ کوئی چیز لے ہی نہیں سکتی۔ کتاب کا ورق، جو ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان آتا ہے، اس کے چھونے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں