ناسٹیلیجیا ، کتاب کا ٹائٹل

گئے دنوں کا سراغ دیتی ۔۔۔۔۔ ناسٹیلیجیا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نجمہ ثاقب :

ناسٹیلیجیا کو سلمان باسط نے لکھا۔ اور کیا ہی خوب لکھا ہے۔ اسے پڑھنے بیٹھے تو یوں سمجھیے کہ چند دنوں کے لیے ہرے بھرے درختوں،اور پھول پتوں سے لدے کناروں والی آب جو کے ساتھ ساتھ چلتے، سبک رفتار موجوں کی روانی کا نظارہ کرتے، باد نسیم سے لطف اندوز ہوتےچلے جا رہے تھے کہ اچانک بادل کھل گیا۔ اور راہ کی ڈالی ڈالی، پتہ پتہ، بوٹابوٹا،دھل گیا۔ منظر قدرے شفاف ہوا تو دیکھاکہ نہ ندی ہے نہ پھول ،نہ جگنو ہیں نہ تتلیاں۔ بھیگے موسموں کا ایک منظر ہے جو آنکھ کے چوکھٹے میں فٹ ہو کر رہ گیا ہے اب خوشبو اڑ اڑ کر اس سے نکلتی ہے اور ذہن ودل کو معطر کیے جاتی ہے۔

بظاہر یہ ایک کتاب ہے ۔ کہنے والے جسے آپ بیتی کا نام دیتے ہیں لیکن فی الحقیقت یہ حال کے بجرے میں بہنے والے ایک ایسے آدمی کی داستان ہے جسے مڑ مڑ کے پیچھے چھوڑے ساحلوں کی جانب دیکھنے کی عادت ہو۔

کہتے ہیں کہ آدمی جب ماضی پرست ہو جاتا ہے تواس کے بدن میں ہر روز پرانے موسم نیا جنم لیتے ہیں۔ نئے گھونسلوں میں پنپنے والی نئی محبتیں ، نئےگیت اور نئے نغمےکتنے ہی رسیلےاور میٹھے کیوں نہ ہوں۔اسے پرانی مزامیر پہ چھیڑی قدیم دھنیں بھاتی ہیں وہ ایسے لمحات کو امرت جان کے قطرہ قطرہ پیتا ہے جنہیں گئے وقتوں کی چاندنی لمحہ لمحہ شبنم سحر کی طرح ٹپکاتی رہتی ہے۔

وہ ایک ایسے خواب نگر میں ، جہاِں گزرے دنوں کا طلسم کدہ وقتاً فوقتاً اپنے اساطیری باب کھولتا ہے،گنے چنے خموش لمحوں کے ساتھ لکن میٹی کھیلتا ہے اس دوران وہ اپنی ہی آہٹ سے ڈرنے لگتا ہے اور اس خیال سے کہ کسی قسم کی در اندازی اس کانچ کے خواب گھر کو توڑ نہ ڈالے وہ اسے
خیال کے پکے دھاگوں سے باندھتا رہتا ہے۔
کوئی کمرہ ہے جس کے طاق میں اک شمع جلتی ہے
اندھیری رات ہے اور سانس لیتے ڈر رہا ہوں میں
آئیے اس خیال کی انگلی تھام کر سلمان باسط کی خواب نگری کی سیر کو نکلیں۔

یہاں ننھے بچے کی مٹھی میں دبی رنگ برنگی گولیوں جیسا کھٹا میٹھا بچپن ہے جو مصری شاہ لاہور کے ایک گھر کی دہلیز کی پہلی سیڑھی پہ بیٹھا قل قل ہنس رہا ہے۔

” وہ ایک چھوٹا سا تین کمروں پہ مشتمل ایک گھر تھا جس میں میرے اباجی، امی جی، بھائی جان اور میں رہائش پذیر تھے۔ گھر کے تمام کمرے ایک ہی سمت میں تھے۔ درمیان میں ایک مختصر سا صحن تھا جس کے دوسری جانب ایک غسل خانہ تھا۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں جانب باورچی خانہ تھا جہاں سے کھانے کی سوندھی سوندھی خوشبو آتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اباجی دفترسے گھر آتے تو دروازے کے باہر سے گھنٹی بجاتے۔ میں جہاں ہوتا اور جس بھی حالت میں ہوتا،لپک کر دروازے پر پہنچ جاتا اور میرے شفیق اباجی دونوں بازو پھیلا کر مجھے اٹھا لیتے۔ پہلے میرے دونوں گالوں پر بوسہ دیتے اور پھر سائیکل پر اپنے ساتھ بٹھا کر ایک چکر لگواتے۔۔۔۔۔۔ “

مزید لکھتے ہیں:
” سادہ مگر صاف ستھرا گھر میری امی جی نے آراستہ کر رکھا تھا۔ کہیں سے بھی گندگی یا بے ترتیبی کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ امی جی کسی بستر کی چادر میں شکن تک نہ آنے دیتیں۔ حانکہ میری اچھل کود ان کے لیے کافی مشکلات پیدا کرتی تھی۔ مجھے پیار سے کہتی رہتیں۔” نہ میرے لعل نہیں اس طرح نہ کرو چادر خراب نہ کرو“

ممکن ہے احمد مشتاق نے اسی گھر کے بارے میں کہا ہو۔
چھوٹا سا ایک گھر تھا درختوں کی اوٹ میں
بام بلندوزینۂ پیچاں نہ تھا کوئی

ذرا آگے بڑھیں تو چمپئی دھوپ میں تمتماتے سبزۂ عذار نومیدہ کی طرح کا لڑکپن شہر محبت کے گلی کوچوں میں بلاججھک کودتا پھاندتا دکھائی دیتا ہے۔ ان گلیوں میں چھوٹے بڑے ان گنت ایسے مکانات ہیں جہاں تہذیب پوری جان سے زندہ ہے۔ یہاں کھڑکیوں اور بھرے دالانوں والے ایسے گھر ہیں جہاں سورج کی روشنی کے بلا اجازت گھسنے پہ کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں۔ روشندانوں میں چڑیا پھونس کے گھونسلے بناتی ہے اور اونچی چھتوں والے کمروں میں شام ہوتے ہی بہو بیٹیاں مٹی کے تیل کی لالٹینیں جلاتی ہیں۔

یہاں سبزہ ہے، درخت ہیں، تحصیل پھالیہ کی زرخیز زمیں کے سینے پہ بہتی نہر ہے اور نہر کے کنارے ڈھوک مراد کا پسماندہ گاؤں ہے۔یہاں عورتیں کھیتوں میں شام ڈھلے تک کپاس چنتی ہیں،چرخے پہ دھاگہ کاتتی ہیں،اپنے شوہر اور بچوں کے لیے ریندھتی،پکاتی ہیں۔اور تھک ہار کر رات گئے اپنے بچوں کے پہلؤوں میں لیٹ کر خوامخواہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگتی ہیں۔ یہاں بچے گرمیوں کی راتوں میں دیر تک گلیوں میں پٹھو گرام،کبڈی اور گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں۔چونی،دونی کے بدلے میں گلابی اور سفید رنگ کی ٹانگریاں خرید کر لاتے اور ہم جولیوں کو دکھا دکھا کر کھاتے ہیں۔

یہاں مرد جاتی کے لوگ کام دھندے سے فارغ ہو کردارے میں چارخانے کھیسوں سے ڈھکی چارپائیوں پر بیٹھتےاور حقے کی منہال پہ دنیا جہان کے موضوعات پھڑکاتے ہیں۔ان داروں میں رشتے ناتے طے پاتے ہیں۔باراتیں ٹہرائی جاتی ہیں۔ موت فوت پہ فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ اور وقت سے پہلے قد نکالنے والے نوجوانوں کے پر کاٹے جاتے ہیں۔ اور ذرا ذرا بات پر کمیوں کا حقہ پانی بند کیا جاتا ہے۔

نہروں رہٹوں اور ڈیروں کا تذکرہ کرتے کرتے سلمان باسط اچانک کھاریاں کینٹ نکل جاتے ہیں۔ فوجی عملداری کے باعث یہ علاقہ سخت ڈسپلن زدہ تو ہے ہی،البتہ اپنے بےتحاشا سبزے اور ہریالی کے سبب اگر آدمی کی شکل میں نکلے تو سر سے پا تک گلابوں کا ایسا شجر لگتا ہےجسے مارشل لائی دور میں بے وضو ہاتھ لگاتے ہوئے حقیقتاً ڈر لگتاہے۔ یہاں پہ گزرنے والے واقعات اپنی جگہ دلکش و دلپذہر ہیں ۔ان تمام تذکروں پہ بھاری انگریزی کی استانی مس نگہت کا تذکرہ ہے۔لیجیے سلمان باسط کی زبانی سنیے:

” ایک دفعہ گرامر پڑھاتے ہوئے مس نگہت نے بورڈ پر جلی حروف میں انگریزی کے الفاظ ۔۔ہی۔۔۔شی۔۔۔اور اٹ لکھے۔اور پھر کلاس کی پچھلی دیوار کے ساتھ دوزانو ہو کر ایک ماہر نشانہ باز کی طرح ہاتھوں کو بندوق بناتے ہوئے
ہی۔۔۔شی۔۔۔اٹ کا نشانہ باندھا۔ اور منہ سے ڈز۔ڈز۔ڈز کے تین فائرز کی آواز نکالی۔پھر بورڈ پہ جا کر ہی۔۔۔شی۔۔۔اٹ کے سامنے تین دفعہ انگریزی میں ڈز لکھا۔اور کہا۔
کل ہی۔۔۔شی۔۔۔اٹ ود ڈزڈز ڈز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “

گورنمنٹ کالج اور اس کے ہاسٹل میں لونڈے لپاڑوں کی شرارتوں کے قصے اس پہ سوا ہیں۔

جوانی دیوانی ہوتی ہے مگر ان قصوں میں جوش کے ساتھ ہوش کے ناخن بھی خاصے لانبے اور مضبوط ہیں۔کہیں ہوسٹل کے کاریڈورز میں گونجتے چھت پھاڑ قہقہوں کا شور ہے کہیں خالی غسل خانوں میں قطار در قطار چٹخنیاں چڑھا کر ویٹینگ لائن میں آکھڑے ہونے کی پرتبسم داستانیں،کہیں اساتذہ کے ساتھ کی جانے والی چہلیں ہیں ، کہیں کلاس رومز میں پنپنے والے رومان کا تذکرہ ہے۔ جس کے اختتام پہ ’ اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا ۔ ‘
عہد ساز اساتذہ کے مختصر مگر دلچسپ خاکہ نما تذکرے،کالج میگزین کا اجراء،طلباء یونینز کےلیے الیکشنز کا ہنگام۔۔۔۔۔۔۔الغرض
پھول لاکھوں بہار سے نکلے
ہم جو اس سبزہ زار سے نکلے۔

( یہ کتاب مبلغ 500 روپے کے عوض مثال پبلشرز، رحیم سنٹر ، پریس مارکیٹ، امین پور بازار فیصل آباد سے مل سکتی ہے ، رابطہ 03006668284)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں