مسجد نبوی، روضہ مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

حب رسول کو جانچنے کا معیار

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قرۃ العین :

صد شکر باری تعالی کا جس نے خدا آشنا ماحول اور معاشرے میں زندگی کی سانسیں عطا کیں، جہاں پیدا ہوتے ہی کلمہ طیبہ کی صدا گوش گزار ہوئی ۔

وہ صدا درحقیقت فطرت کی پکار ، تذکیری سبق اور درس زندگی ہے۔ اس جہان فانی میں داخل ہوتے ہی ذہن پر نقش کیے جانے والے وہ الفاظ محض حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ نظریہ زندگی ہے جو اس کائنات کی سب سے اٹل حقیقت ہے، جس کے تحت گزرنے والی زندگی ہی کامرانی کے مرتبے ہر فائز ہو گی۔

عالم ارواح میں اپنے خالق سے کئے گئے عہد کی تذکیر جس کی تعبیر زندگی بھر دینی ہے، سماعتوں سے ٹکرانے والی وہ پہلی اذان اس بات کی غماز ہے کہ یہ دو ہستیاں اللہ اور رسول متاع زندگی ہیں۔اس زندگی کی سرد گرم ہوائوں کی گرد میں کہیں یہ محو نہ ہو جائیں ۔

اگر کہیں ایسا ہو گیا تو صراط مستقیم کھو جائے گا پھر کہیں جائے پناہ نہ ملے گی۔لاشعور پہ لگی یہ مہر ایک مسلمان کے دل کی آواز بن جاتی ہے جسے وہ ساری زندگی عزیز از جان رکھتا ہے۔ یہی تقاضائے ایمان بھی ہے کہ اللہ اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دنیا کی ہر محبت پر غالب رہے۔ یہ دل اپنے صانع کی محبت لے کر پیدا ہوتا ہے اسی لئے میرے نبی نے کہا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔

یہ فطرت توحید ہے پھر ماحول کی آلودگی اسے مشرک بنا دیتی ہے۔ ایک مسلم اپنی پیدائش کے ساتھ ہی اس فطری تذکیر سے بھی بہرہ ور ہوتا ہے اور زندگی بھر کسی نہ کسی طرح اس کی آبیاری ہوتی رہتی ہے مگر خدا آشنائی تب تک اپنے اتمام کو نہیں پہنچتی جب تک معرفت رسول حاصل نہ ہو اور یہ معرفت بھی محبت کے ساتھ مزین ہونا ضروری ہے۔ خدا کی محبت کے ساتھ رسول کی محبت لازمی امر ہے اور ہمارے لاشعور میں پیوستہ ہے۔اہل عشق جانتے ہیں کہ محبوب سے منسلک اور منسوب ہر شے سے انس اسی محبت کا پرتو ہوتا ہے۔

چنانچہ جو رب کا حبیب ہے وہ اس رب کے ماننے والوں کا بھی محبوب ہے۔ پھر اسی محبت کو ایمان کا جزو بھی بنایا گیا ہے ،اللہ پر ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے ساتھ جوڑا گیا ہے،اللہ کی محبت اور اطاعت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واطاعت کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے ۔ محبت بھی وہ مطلوب ہے جو اخیر درجے کی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے اہل اور اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔

اقبال نے کیا خوبصورتی سے اسے بیان کیا ہے
محمد کی محبت ہے دین حق کی شرط اول
اسی میں ہو خامی تو ایماں نامکمل ہے

پھر اس محبت کا تقاضا بھی سمجھا دیا کہ:
جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔

نبی سے محبت کا مظاہرہ ان کی سنتوں پر عمل سے ہی ممکن ہے، یہی کسوٹی اس محبت کو پرکھنے کے لئے ہمیں دی گئی ہے مگر آج ہمارا معاشرہ اس کی متضاد تصویر نظر آتا ہے۔ برقی قمقموں کی تعداد اور محافل میں کٹتے کیک اور ان کیکس کی ترکیبی اجزاء کی بہتات،لائوڈ سپیکرز میں لگی شرکیہ(زیادہ تر) نعتیں ہمارے لئے محبت رسول کو ماپنے کا پیمانہ بن چکی ہیں۔

شیطان جو انسان کی ہر اس راہ پر رہزن بن کر بیٹھا ہے جو رب کی رضا کی طرف لے جانے والی ہے ،جسے قرآن اپنی حکیمانہ زبان میں عدو مبین کہتا ہے ، بھلا اسے کب گوارا تھا کہ یہ مسلمان جس کے خمیر میں اس کے رسول کی محبت شامل ہے وہ اس محبت کے ذریعے جنت کی قیمت ادا کرے۔

اس ازلی دشمن نے اسی محبت پر ڈاکہ ڈالا جو ہماری دنیوی اور اخروی نجات کی ضامن تھی اور اس کا دھارا ہی بدل دیا۔ من مانے طریقے اظہار محبت کے سجھا دیے اور اصل مقصد سے غافل کر دیا۔ وہ راز فلاح میں قدغن لگانے میں کامیاب ہو چکا ہے،جابجاسنت کی بجائے بدعت کا دور دورہ نظر آتا ہے،علم کے بجائے قیاس کی پیروی عام ہو چلی ہے۔

میرے رب نے تو ھوائے نفس کے پیچھے چلنے سےبارہا منع کیا ہے۔اپنی یاد کا حکم بھی اس طرز پر دیا جو اس نے خود سکھا دیا ہے۔پھر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ ارشاد فرما دیا:
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز پیدا کی جو اس کی نہیں تھی تو وہ چیز مردود ہے۔

اس سے بڑا خسارہ کیا ہو گا کہ جس عمل کو ثواب سمجھ کر کرتے رہے وہی ہمارے خلاف حجت بن جائے۔
پھر ہر شخص اگر خود اجر و ثواب کے طریقے وضع کرنے لگے تو یہ دین تو خواہشات کا ملغوبہ بن کر رہ جائے گا ۔ صحابہ کرام جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حقیقی روپ دنیا کو دکھایا وہ تو مجلس میں حضور کی بنفس نفیس تشریف آوری پر کھڑے نہ ہوتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ تھا،لیکن آج کے دعویداران محبت تو فرضی گمانوں کے چلتے محافل میلاد میں کیا کچھ کرتے ہیں اور ان ایجادات میں آئے روز اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ایک لمحے کو رک کر ذرا اپنا احتساب تو کر لیں کہ ہم نے جو آج اپنی مرضی کے طریقے نکال لئے ہیں کیا وہ میرے نبی کو پسند ہوں گے۔؟؟؟

ایسی مجلس جس میں سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو وہ مبارک ہے لیکن عیسائیوں کے طور طریقے اپناتے ہوئے اسے سالگرہ کا رنگ دینا پھر اس سے بڑھ کر اسے جشن کا تہوار بنا دینا ،نہ تو ہمارے نبی نے یہ تعلیم دی اور نہ ہی صحابہ نے کبھی ایسا کیا۔

نبی سے محبت کا اظہار اسی طرز پر قابل قبول ہے جو سب سے بڑے عاشقان رسول یعنی صحابہ نے اختیار کیا ،انہوں نے اتباع رسول کو اپنی زندگی کا محور بنایا اور نبی کے مشن کو اپنا مشن بنایا یعنی اللہ کی زمیں پر اللہ کا نظام۔ جشن آمد رسول کےنام پر من چاہے طریقے نہیں نکالے۔ جتنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اتنا ہی کیا اس سے ایک قدم بھی تجاوز نہ کیا کیونکہ قرآن کہتا ہے

اللہ اور اس کے رسول سے آگے پیش قدمی مت کرو۔

ہماری فلاح صرف سنت رسول و سنت صحابہ ہی میں مضمر ہے۔
خدا را شیطان کو اپنی چالوں میں کامیاب نہ ہونے دیں اور محبت کے نام پر خرافات کو پھیلا کر رب کی ناراضگی مول نہ لیں۔آئیں نبی سے محبت کا صحیح اظہار کریں، سیرت طیبہ کی معرفت حاصل کریں ،اپنے پیارے نبی کے طرز زندگی کو جانیں اور وہ جو راہ حق دکھا کر گئے ہیں اس پر چلتے ہوئےسنتوں کو عام کریں ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں