مریم خالد :
صبح دم آنکھ کھلتی ہے، زباں سے بےساختہ کلمہ ” الحمدللہ “ نکلتا ہے، یہ میرے آقا ﷺ کا طریقہ ہے۔ میرے ہاتھوں کی پشت آنکھوں کو نیند ہی نیند میں سہلاتی ہے، ایسا میرے آقا ﷺ نے کیا تھا۔ نماز کے بعد انگلیاں پوروں پہ دھیمے دھیمے سرکتی ہیں، یہ انہوں نے سکھایا تھا۔ برسوں میں کبھی تسبیح پکڑنا تو درکنار بائیں ہاتھ کی پوریں ناپنا بھی محبوب نہ ہو سکا کہ انہوں نے ہمیشہ دائیں ہاتھ پہ ہی شمار کیا تھا۔
میرا چلتے ہوئے گردن اٹھا کے نگاہیں جھکا کے چلنا، یہ ان کا طریقہ تھا۔ راستے کی مسافت کو تیز تیز اٹھتے قدموں میں بھر لینا، یہ ان کی عادت تھی۔ ساتھ چلنے والے ساتھی کی بہکتی نگاہوں پہ نرمی سے ہاتھ بڑھا کے چہرہ موڑ دینا، یہ ان سے سیکھا ہے۔ سدا کی تیز بولنے کی عادت تھی، جب سنا کہ میرے آقا ﷺ یوں ٹھہر ٹھہر کے بولتے تھے کہ سننے والے ہیرے گن لیتے تھے، میری گفتگو کے بہاؤ نے ٹھہراؤ سیکھ لیا۔
دروازہ کھلتے ہی دایاں قدم خود ہی آگے اندر بڑھ جاتا ہے۔ میرے آقا ﷺ میرے لاشعور تک میں زندہ ہیں۔ کھانا دیکھ کر دایاں ہاتھ خود ہی بائیں کو روک دیتا ہے۔ مجھے کھانا پسند نہ آئے تو ناگواری لب پہ آتی ہے مگر دل روک دیتا ہے۔ سمجھاتا ہے، میرے نبی ﷺ نے تو کھانا چھوڑ دیا تھا مگر برائی کبھی کی نہ تھی۔
کہتا ہے، میرے نبی ﷺ نے تو کبھی کھانے کی برائی نہ کی تھی مجھے انسانوں کی برائی کا اختیار کس نے دیا؟! کوئی ترش روی سے بات کرے تو آنکھوں کے پردے پہ کسی کا نام ابھرتا ہے، میرے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ کوئی بےکار ضد پہ اتر آئے تو لب خاموشی سے قدموں کو چل دینے کا اشارہ دیتے ہیں۔ کوئی بڑھ کے بےدریغ ظلم و فساد روا رکھ کر حد پار کرنے کی کوشش کرے تو ہونٹوں پہ ان کی سکھائی ہوئی زوردار آواز گونج جاتی ہے،
”سن لو اے قریشیو! میں تمہارے لیے موت کا پیغام بن کے آیا ہوں!“
چال بازوں اور دھوکہ بازوں کے ہجوم میں سچائی کو زیور بنا کے رکھنا اور شریف رہتے ہوئے فتنہ پردازوں کے جتھے سے ٹکر لینے کا فن آپ نے سکھایا ہے۔ کبھی جھگڑے کی فضا بنتی محسوس ہو تو کاغذ کے کسی ورق سے آتی محل کی بشارت کی خوشبو اپنا حق چھوڑ دینے پہ مجبور کرتی ہے۔ کبھی بگاڑ دکھائی دینے لگے تو معمولی چوری بھی معاف کر دینے پہ دل راضی نہیں ہوتا۔
آئینے کے آگے آؤں تو کسی کی سیاہ آنکھیں یاد آتی ہیں، میری آنکھوں میں مسکراتی ہیں۔ آپ کے ذوق کا عالم میرے سر کی مانگ میں جگمگاتا ہے۔ مجھے تب یاد آتا ہے، کسی نے سکھایا تھا کہ لبوں پہ سجی دوسروں کے لیے پرخلوص مسکراہٹ سے بڑھ کر کسی چہرے نے حسیں زیور نہیں پہنا۔ ہاتھوں میں کسی کو سہارا دینے کے لیے تھامے ہاتھ سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں گہنا۔
شب کے گرتے سائیوں میں نیند سے بوجھل ہوتے ہوئے نماز میں وتر چھوٹنے لگے تو کسی کی مہرباں آواز صدیوں کی مسافت سے آ کر کانوں میں گونجتی ہے، مجھے اٹھا کھڑا کرتی ہے،
” الله طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔ اے اہلِ قرآن! وتر پڑھا کرو۔“
کبھی ڈھیر منصوبوں کے بعد بھی نیم شب کی نماز نہ مل پائے تو کسی کی خوش کن آواز روح کو تازگی دے جاتی ہے کہ الله کے نبی کبھی شب میں کھڑے نہ ہو پاتے تو چاشت میں وہ نماز پڑھ لیا کرتے۔
میرے نبی ﷺ سے میرا رشتہ جان و روح کا ہے، دل و جگر کا رشتہ ہے۔ میرے ہاتھ کی پوروں سے، میرے ناخن کے کناروں اور بالوں کی مانگ تک ہر جگہ میرے آقا ﷺ کا اسوہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آقا ﷺ ہمارے دل میں ہیں مگر ہمارے بدن میں، کردار میں، عادات اور اطوار میں کہاں میرا نبی نہیں ہے؟
میرے آقا ﷺ کو نکال دیں تو روح و بدن میں ہمارا اپنا کیا ہے؟