مسجد نبوی، مدینہ منورہ، سعودی عرب

اس یوم میں خوشی کہاں ہے؟؟؟؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نبیلہ شہزاد :

12 ربیع الاول 11 ہجری چاشت کا وقت ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 63 سال 4 دن ہو چکی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مسواک نرم کر کے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح مسواک کی۔ اپنے سامنے رکھے گئے پانی کے برتن میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ مبارک پونچھتے ہوئے فرما رہے تھے ۔۔۔۔
لا الہ الا اللہ…..،

مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک ہلکا سا اوپر اٹھایا۔ نگاہ مبارک چھت پر تھی، ہونٹوں پر کچھ جنبش جاری ہوئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کان لگایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:

اے اللّہ ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر ، اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے۔
اے اللہ ! رفیق اعلیٰ۔۔۔

آخری فقرہ تین بار دہرایا۔ اسی وقت ہاتھ جھک گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا فانی سے دارالابد کی طرف تشریف لے گئے۔

یہ روح فرسا خبر فوراً مدینہ میں پھیل گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کوہ غم ٹوٹ پڑا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ
جس دن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ( مشکوۃ)

سب صحابہ کرام رضی اللّہ تعالیٰ عنہم اور صحابیات زاروقطار رو رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کے تو غم کی شدت میں ہوش جاتے رہے۔ انہوں نے کھڑے ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ کچھ منافقین سمجھتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے لیکن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی بلکہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی طرح چالیس رات کے لیے چلے گئے ہیں۔ خدا کی قسم ! رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی ضرور پلٹ کر آئیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے جو سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی موت واقع ہو چکی ہے۔(ابن ہشام)۔

اسی اثنا میں حضرت ابو بکر صدیق رضی تعالیٰ عنہ تشریف لائے جن کی اپنی آنکھیں بھی جی بھر کر رونے کا اشارہ دے رہی تھیں۔ لوگوں کو جامع الفاظ میں تسلی دی اور قرآن کی اس آیت مبارکہ کی تلاوت کی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

” محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ تو کیا اگر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفات پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے؟ اورجو شخص اپنی ایڑ کے بل پلٹ جائے تو یاد رکھے وہ اللّہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔“

صحابہ کرام جن کے دل فرطِ محبت کی وجہ سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے، کوحضرت ابوبکر صدیق رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کا خطاب سن کر یقین آگیا۔ ہر کوئی زاروقطار رو رہا تھا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے جدائی کا تصوّر کسی سے بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد بھی صحابہ کرام آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کا اظہار پوری جان فشانی سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کر کے کرتے۔ انھوں نے احادیث و سنت کا تذکرہ اپنی عبادت کا حصہ بنا لیا۔

ہم میں سے کچھ لوگ ربیع الاول کے مہینے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار ڈھول کی تھاپ پر ناچ کر، عیسائیوں کی تقلید میں کیک کاٹ کر اور گھروں کو لائیٹوں سے سجا کر کرتے ہیں۔
کیا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت کے ان دو اظہار کے درمیان کھلا تضاد نہیں؟ ایک اظہار جو اصحاب رسول نے کیا اور دوسرا اظہار جو ہم میں سے بعض لوگ کرتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں