گنبد خضرا ، روضہ اقدس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

و رفعنا لک ذکرک

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فکرونظر/ عصمت اسامہ :

حالیہ واقعہ فرانس نے ساری امت مسلمہ کے قلب کو زخمی کردیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کی جان ہیں بلکہ جان سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ہمارے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ،اپنے والدین ،بہن بھائیوں ، اولاد سے زیادہ عزیز ہے،

جو نبیوں کے سردار ہیں ، خاتم النبیین ہیں اور وہ شخصیت ہیں کہ بیک وقت حبیب خدا بھی ہیں اور حبیب انسانیت بھی، وہ رحمۃ اللعالمین جو سارے بنی نوع انسان کے لئے نجات دہندہ بن کر آئے۔ ان پہ لاکھوں درود ، ان پہ لاکھوں سلام۔

میرا جی چاہتا ہے کہ حکومت فرانس سمیت سب گستاخوں کو پکار کے کہوں کہ تم ہمارے پیغمبر کو جانتے ہی نہیں ہو ، تم لاعلم ہو کہ وہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی فلاح و کامیابی کےلئے تشریف لائے ہیں۔ آج انسانیت جن اندھیروں میں بھٹک رہی ہے، اس کے تمام مسائل کا حل دین اسلام میں موجود ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ جو آج بھی کتاب وسنت میں محفوظ و مامون ہے، ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ کے مشن نبوت کو آگے بڑھانا اب امت کی ذمہ داری ہے لیکن کیا ہم اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی اک جھلک دنیا کو دکھا سکتے ہیں؟

لوٹ جا عہد نبی کی سمت رفتار جہاں

پھر مری پسماندگی کو ارتقا درکار ہے !

چشم تصور سے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جائیں تو دیکھیں کہ وہ کون عزت مآب شخصیت ہے جو اونٹ پر سوار ہے تو اوپر ابر کا ٹکڑا ساتھ ساتھ اڑ رہا ہے !
(بحوالہ ترمذی شریف)

اللہ رب العالمین کے محبوب سے پوری کائنات کیسے محبت کرتی ہے کہ مکہ مکرمہ کی آبادی سے دور اونچے پہاڑوں کے اندر ایک غار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کر رہے ہیں۔ حضرت جبریل علیہ السلام پہلی وحی لے کر نازل ہوتے ہیں ، لیکن پہلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے سے لگاتے ہیں اور پھر ” اقرا “ پہنچاتے ہیں !!

رب العرش العظیم کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ عالم ہے جب آپ قبلہ اول بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں اور تمنا یہ کرتے ہیں کہ وہ کعبہ شریف کی طرف رخ کرکے پڑھ سکتے تو اللہ تعالیٰ وحی نازل فرماتے ہیں:

ترجمہ :” ہم آپ کے چہرہ (مبارک) کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ہم ضرور آپ کو اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں ، پس آپ اپنے چہرہ (مبارک ) کو مسجد حرام کی طرف پھیر لیں ۔۔۔۔“(البقرہ 144)

دعوت و تبلیغ کے کٹھن میدان میں اللہ کے نبی اپنے جاں نثاروں کے ساتھ تکالیف و مصائب کو برداشت کرتے ہوئے لوگوں کے ایمان نہ لانے پہ غم زدہ ہوتے ہیں تو اللہ پاک دل جوئی کے لئے یہ آیت نازل فرماتے ہیں:
” شاید آپ اپنی جان کھو دیں گے اس پر کہ یہ ایمان نہیں لاتے “ (الشعراء: 3)

ایک اور مقام پر ارشاد الہیٰ ہوتا ہے :
” اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا ، جب تک آپ ان میں موجود ہیں۔“ القرآن (جب کہ پچھلی امتوں پر ان کی نافرمانی کے سبب فوراً عذاب آجایا کرتا تھا!)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں گریہ زاری کرکے اپنی امت کے لئے بخشش اور مغفرت مانگا کرتے تو رب کریم نے آپ کی تڑپ سے امت کو آگاہ فر مایا:

لقد جآءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رئوف رحیم (التوبہ:128)
ترجمہ :
” تمہارے پاس ایک ایسے رسول آئے ہیں جو تم ہی میں سے ہیں ، جن کو تمہاری تکلیف بہت گراں گزرتی ہے ، جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں ،جو مومنوں کے لئے انتہائی شفیق اور مہربان ہیں۔“

کیا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے موتیوں جیسے آنسوؤں کی قدر پہچانتے ہیں جو انھوں نے ہمارے لیے بہائے تھے ؟
ذرا تصور کیجیے واقعہ معراج کا ، جو انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے۔ رب کائنات نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں پر بلا کر جنت دوزخ اور اپنی نشانیوں کا نظارہ کروایا ،بقول شاعر

بام اقصی ‘سے چلا رشک قمر آج کی رات
فرش راہ ہوگئی تاروں کی نظر آج کی رات

مثلکم ہی سہی انسان مگر آج کی رات
عرش پر کرنے گیا ہے وہ بسر آج کی رات !

یہ شان_رسالت ہے کہ عرش کے پاس بھی حضور، امت کی فکر کر رہے ہیں، جب 50 نمازیں فرض کی جاتی ہیں تو آپ بارگاہ الہی میں وہ کم کروانے کی بار بار درخواست کرتے ہیں، حتیٰ کہ کم کرتے کرتے 5 نمازیں فرض کی جاتی ہیں اور دربار خداوندی سے کمال شفقت سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ آپ کی امت کو 5 نمازیں ادا کرنے پر ثواب 50 نمازوں کا ہی دیا جائے گا، سبحان اللہ!

نبئ مہربان سے رب العالمین کی محبت کا یہ عالم ہے کہ ایک بار صحابہ کرام کو خدشہ لاحق ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روز قیامت نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ اس وقت حضور کو بہت بلند و بالا مقام دیا جائے گا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرما کے ان کی تسکین کا سامان کیا:

” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، انبیاء، صدیقین،شہداء، صالحین میں،اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں !“(تفسیر ابن کثیر-النسآء:69)

شہر طائف میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے، پتھر برسا کے آپ کے جسم مبارک کو زخمی کردیا جاتا ہے اور سوائے ایک غلام کے کوئی ایمان نہیں لاتا تو رحمت خداوندی آپ کی تسلی کے لئے جنوں کی ایک جماعت بھیج دیتی ہے جو آپ پر ایمان لے آتے ہیں !(بحوالہ سورہ جن )

حق تعالیٰ نے اپنی محبت کے حصول کے لئے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی شرط رکھی ہے -فرمایا:
” (اے حبیب !)آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ،اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا !“(سورہ آل عمران:31)

جہاں تک شان رسالت میں گستاخی کی بات ہے تو یہ باطل پروپیگنڈہ اس وقت بھی موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخی کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اللہ پاک کی غیرت بھی اس معاملہ میں خاموش نہیں ہے۔ فرمان الہی ہوا:
” بے شک، ہم آپ کا مذاق اڑانے والوں کے لئے کافی ہیں۔“(سورہ الحجر:95)

سورہ کوثر میں فرمایا:
” بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا “

لمحہ فکریہ ہے کہ اللہ کو اپنے محبوب کی حفاظت کے لئے ہماری ضرورت نہیں ہے لیکن ہمیں بحیثیت امتی کے ،اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی ضرورت یقیناً ہے ! یہ ہماری آزمائش ہورہی ہے کہ ہم اپنے نبی مہربان کے لئے کیا عمل کرتے ہیں!

حکومت فرانس نے چارلی ہیبڈو میگزین کی پشت پناہی کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کی ویڈیوز بلند عمارات پر چلا کر 60 اسلامی ممالک کی غیرت ایمانی کو للکارا ہے۔ مسلمان عوام ریلیاں اور جلسے کرکے اپنے نبی سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں لیکن فرانس کو جواب حکومتی سطح پر ملنا چاہیے۔

یہ مسلم حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اعلان کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور عزت انھیں اس دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیاری ہے ، اس کے لئے انھیں اپنی جانوں کی قربانی بھی دینی پڑے تو وہ اس کے لئے تیار ہیں۔ نہ صرف فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے بلکہ اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے ، تجارتی تعلقات منقطع کئے جائیں ، ساری امت متحد ہوکے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنائے اور فرانس کے خلاف اعلان جہاد کیا جائے !

امام مالک کے مطابق :
” اگر یہ امت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت نہیں کرسکتی تو پھر اس امت کو زندہ رہنے کا کوئ حق نہیں ہے !“

تو پھرنعوذ باللہ کیا ہم متحمل ہوسکیں گے زلزلوں ،سیلابوں اور طوفانوں کے ؟اللہ ہمیں درست وقت پر درست اقدام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

زمین و زماں تمہارے لئے!
مکین و مکاں تمہارے لئے!

دہن میں زباں تمہارے لئے !
بدن میں ہے جاں تمہارے لئے !

صلی اللہ علیہ وسلم


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں