چینی خدوخال والی مسلمان نوجوان لڑکی

نیک پری

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف :

نرم ریشمی زلفیں لہراتی کس قدر حسین لگتی ہیں، یہ کوئی ماہا رحمن سے پوچھتا جس کو اپنے بالوں کو سیدھا رکھنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے ہوتے اور ہر کچھ عرصے بعد پروٹین ٹریٹمنٹ کی خاطر داری بھی کی جاتی .
اور جب بھی جنت شاکر اپنے بھورے گیسو اور بھوری آنکھوں کے ساتھ اسکرین پر نظر آتی تو وہ جلن کے مارے منظر ہی بدل دیتی۔

” کیا تھی اور کیا ہوگئی“
” ریت جیسی تھی، اب دیکھو ذرا “
” نیک خاندان ہے ان کا، بلکہ نیک تھا!“ وہ اکثر ہی یہ طنزیہ جملے آواز یا بے آواز دہراتی.

” اچھا ہوا ہم نے فائز کے لیے اس کو نہ پسند کیا، نسلوں میں یہ ہی خصلتیں منتقل ہوجاتیں“
” خون سے خود بہ خود اثرات آتے ہیں !“

گھر سے کوئی اور بھی ماہا کی ہاں میں ہاں ملاتا ، فائز کے جنت شاکر سے محفوظ رہنے پر شکر کرتا.
اور رہا اس کا بھائی فائز رحمن، اسے اسکرین پر دکھتی جنت شاکر سے محروم رہنے پر افسوس تو ہوتا مگر بیوی کے باپ کی گاڑی جب آئے دن اس کے گھر پر بیٹی داماد کے لیے کچھ نہ کچھ دان کرنے کھڑی ہوتی تو اسے جنت شاکر کے تصورات پر مٹی ڈالنی آسان ہو جاتی.

اس کی بیوی نہ ریت سی تھی اور نہ جل پری، کھاتے پیتے گھر کی اکلوتی بیٹی تھی جس کے لیے بہت سے لوگ خواہش مند تھ لیکن ان کو فائز کی وجاہت بھا گئی اور یوں بیس خاندانوں کی بائیس بیٹیاں دیکھنے کے بعد فائز کے لیے زوج کا انتخاب طے پا ہی گیا.

جنت شاکر ان بیس ہی میں کہیں تھی جو فائز کے لیے بیوی کی تلاش میں جانچی گئی تھیں، وہ فائز کے گھر والوں کو یاد بھی نہ آتی اگر اسکرین پر بجلیاں نہ گراتی .

فائز کی بیوی سے کسی کو کوئی خاص شکایت نہ تھی وہ سسرال کے لیے کم گو لڑکی تھی جس کا میکہ شادی کے بعد اس کی ناز برداری میں مستقل مصروف رہتا.

ایک دن قبل ہی فائز کے سسر نے پہاڑی مقام پر تفریح کے سارے انتظامات کرنے کے بعد بیٹی داماد کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی، جسے منظور کرتے فائز نے شکر کیا کہ اس کے بہت سے مزے بنا ہاتھ ہلائے پورے ہو جاتے ہیں.

بس کبھی کبھی تنہائی میں وہ قلق ضرور کرتا کہ یہ سب جنت شاکر کے ساتھ بھی مل ہی جاتا، آخر وہ اتنی مشہور اسکرین شخصیت بن چکی ہے، لیکن یہ میرے گھر والے بھی بس عجیب ہیں، اس نور العین کو لے آئے، اس نے کوفت زدہ ہو کر بستر پر رکھے دوسرے تکیہ کو دیکھا، جو خالی تھا، نورالعین پارلر گئی ہوئی تھی.

”اب پانچ فٹ دو انچ پارلر تو نہیں بڑھا سکتا اور نہ ہی چائنیز آنکھوں کا کچھ کرنا ممکن ہے وہاں“ اس نے کلس کر بیوی کے قد اور آنکھوں کے لیے سوچتے اس کے بل پر ہونے والے تمام عیش آرام سے آنکھیں ہی پھیر لیں.

ہاتھ میں پکڑے سیل فون پر چند لمحے قبل جنت کے انٹرویو کلپ نے اس کا موڈ خراب کر دیا تھا.

سنہرے لباس میں ملبوس جنت شاکر سے میزبان نے اس کی شوبز آمد کی وجہ جاننی چاہی تو وہ مسکرا گئی.
” رشتوں کے لیے آنے والے نیک پری سی لڑکی چاہتے تھے، نیکی سے شاید ان کو اختلاف نہ تھا لیکن پری سی وضع نہ تھی.. میں نے سوچا مجھے پری بن جانا چاہیے سو میں بن گئی “ اس نے اپنے بالوں کی لٹ کو خواہ مخواہ چھوتے ہوئے جواب دیا۔
طرار میزبان لمحے بھر خاموش رہا اور وہ دھیما سا قہقہہ لگاتی فائز کے دل میں مذید گہرائی میں اترتی گئی.

کلپ دیکھنے کے بعد سے آنکھی‍ں موندے اسی کے خیالوں میں گم تھا کہ نورالعین کی مخصوص مہک نے اس کی موجودگی کی اطلاع دی تو خیالات کا ارتکاز ٹوٹ گیا، بدمزہ ہوتے اس نے آنکھیں کھولی‍ں، بیوی پر نگاہ ڈالی۔

” مجال ہے جو کوئی فرق پڑا ہو، جیسی گئی تھی ویسی ہی آئی ہے “ دل کے تبصرے نے اسے اور نا خوش کردیا.

میاں کو متوجہ دیکھ کر نورالعین نے اس کی طرف رخ کیا
”آج بہت رش تھا، میں تو واپس آگئی، انتظار نہیں کیا، کل جاؤں گی“.

” رش کیوں تھا آج؟ “ فائز کو بد دلی دباتے سوال کرنا پڑا.
” کسی ائیر لائن کی ہوسٹسسز کے اپائنمنٹ طے تھے، سارا اسٹاف ان کو پریاں بنانے میں لگا تھا“
اس نے لفظ پریا‍ں استعمال کرتے قہقہہ لگایا، تو فائز کی پیشانی بیوی کی ہنسی سے نہ جانے کیوں عرق آلود سی ہوگئی.

اسے لگا بہت سے پریاں جنہیں ہم نیک نہیں کہتے ان کے بنانے میں ” نیک “ انسانوں ہی کا ہاتھ ہوتا ہے.
اس لمحے پہلی بار نورالعین اسے نیک بھی لگی اور پری بھی.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں