پھل فروش

بھلائی یوں بھی ممکن ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

” بھائی! سیب اور کیلوں کی کیا قیمت ہے؟“ ناصرہ نے پھل فروش سے پوچھا جو اپنی ریڑھی پرسجائے پھلوں کو مزید سیٹ کر رہا تھا۔ ریڑھی پر سارا پھل بڑا اچھا اور صاف ستھرا دکھائی دے رہا تھا۔

” باجی! سیب کی قیمت 260 روپے فی کلو ہے لیکن آپ کو میں 250 روپے کا کلو سیب دے دوں گا۔ اور یہ کیلا 120 روپے فی درجن اور یہ والا 100 روپے ہے۔ جو آپ پسند کریں، بتادیں۔“ پھل فروش نے شائستگی سے پہلے سیب اور پھر کیلے کی دو مختلف اقسام کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔

ناصرہ مقامی سرکاری کالج میں لیکچرار تھی۔ وہ اپنے چودہ ، پندرہ سالہ بیٹے کے ساتھ رمضان المبارک کے تیسرے روزے میں نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد بازار میں ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے گئی تو اس نے افطاری کے لیے پھل خریدنے کا بھی ارادہ کرلیا۔

” بھائی! ایک کلو سیب اور دو درجن کیلے 100 روپے درجن والے دے دیں۔“ ناصرہ نے کہا۔
” یہ لیں باجی!“ دکان دار نے سیب تول کر اور کیلے گنتی کرکے شاپروں میں ڈال دیے تو ناصرہ نے بیٹے کو اشارہ کیا۔ اس نے دکاندار سے شاپر پکڑ لیے اور قیمت کی ادائیگی کی۔ پھر دونوں آگے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد ناصرہ نے ریڑھی پر پھل لگائے ایک اور پھل فروش کو دیکھا تو اسے اس کی شکل جانی پہچانی لگی۔

” یہ تو منشاء ہے۔ چاچو ساجد کا سابقہ ملازم ۔ جس نے ان کے پاس زندگی کے دس بارہ سال ملازمت کی تھی۔“ اس کے بیٹے نے کہا تو اسے بھی فوراً یاد آگیا۔
” وہ تو سمجھ دار اور تمیز والا بندہ ہے۔“ ناصرہ نے کہا۔
” چلیں ! اس سے بھی پھلوں کے ریٹ معلوم کرتے ہیں۔“ وہ ریڑھی کے پاس رک گئی۔

” السلام علیکم باجی جی!“ منشاء پھل فروش نے اسے پہچان کر سلام کیا
” وعلیکم السلام۔ کیا حال ہے بھائی؟ اب یہ نیا کام شروع کر دیا ہے؟“ ناصرہ نے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔
” جی باجی!“ منشاء نے مختصر جواب دیا۔
” بھائی! سیب اور کیلوں کی کیا قیمت ہے؟“ ناصرہ نے اس سے پوچھا۔
” باجی! سیب کی قیمت 200 روپے فی کلو ہے اور کیلے کی قیمت 80 روپے فی درجن ہے۔“ منشاء نے بتایا۔ اور پھر ناصرہ کے پوچھنے پردیگر مختلف پھلوں کے نرخ بھی بتائے۔

ایک ہی بازار میں تھوڑے فاصلے پر دو پھل فروشوں کے نرخ میں اتنا فرق کیوں ہے؟ ناصرہ حیران ہوئی۔
” بھائی! آپ پھل اتنا سستا کیسے بیچ رہے ہیں؟ ابھی میں فلاں دکان سے یہ پھل اتنی قیمت کا خرید کر لائی ہوں۔“ ناصرہ نے اس سے وجہ پوچھ لی۔

” باجی! یہ میرا ذاتی کام نہیں ہے۔ اب میں حاجی عبداللہ صاحب کا ملازم ہوں۔ (جو علاقے کے جانے پہچانے اور نیک نام صاحب حیثیت انسان تھے) انہوں نے مجھے حکم دیا ہوا ہے کہ میں روزانہ منڈی سے پھل خرید کر لایا کروں اور حکومت کی مقرر کردہ قیمت کے مطابق ہی بازار میں پھل بیچوں۔ اور گاہکوں سے اس میں زیادہ منافع وصول نہ کروں۔ عام دکاندار حکومتی نرخ سے زیادہ قیمت پر جب پھل اور سبزیاں بیچتے ہیں تو لوگوں کو مشکل پیش آتی ہے۔ حاجی صاحب کہتے ہیں کہ حکومت کی مقرر کردہ قیمت سے زیادہ قیمت پر دکانداروں کو سودا نہیں بیچنا چاہیے۔“

” یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔“ ناصرہ نے دلی خوشی محسوس کرتے ہوئے کہا۔ اسے ایسے محسوس ہوا جیسے ارد گرد پھیلی تپتی دھوپ میں کمی واقع ہو گئی ہو اور موسم قدرے خوشگوار ہو گیا ہو۔

”حاجی صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر دکاندار محنت اور دیانتداری سے کام کرے، گاہکوں سے تھوڑا نفع وصول کرے، اور رزق حلال کمائے تو لوگ اس کا اعتبار کرتے ہوئے اس سے سودا زیادہ خریدتے ہیں۔ اور اس کی دکان رفتہ رفتہ بہت زیادہ چلنے لگتی ہے۔“ منشاء نے حاجی صاحب کا نقطہ نظر بیان کیا۔ لگتا تھا کہ انہوں نے خوب اچھی طرح منشاء کی ذہن سازی کی ہوئی تھی۔

” حاجی صاحب بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔“ ناصرہ نے ان کے نظریے کی تائید کی۔
ناصرہ دکان داروں سے محتاط قسم کی گفتگو کرنے کی عادی تھی لیکن قریبی رشتہ دار کا سابقہ شریف الطبع ملازم ہونے کی وجہ سے اسے منشاء کے بارے میں واقفیت حاصل تھی۔ لہٰذا وہ اس سے گفتگو کرتی رہی۔

” عموماً رمضان میں پھل مہنگا بکتا ہے جس کی وجہ سے یہ غریبوں کے ساتھ ساتھ سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو جاتا ہے۔ عام لوگوں کے فائدے کے لیے حاجی صاحب نے یہ کام کیا ہے۔ میری محنت کا معاوضہ مجھے اپنے مالک سے روزانہ ملتا ہے۔ یعنی میری یہ دیہاڑی (اجرت) کی محنت مجھے روز شام کو اپنے مالک سے وصول ہوجاتی ہے۔“ منشاء نے تفصیل سے بتایا۔

” انہوں نے عوام الناس کے فائدے کے لیے یہ چھوٹا سا لیکن مثالی قدم اٹھایا ہے۔“ اسے یہ باتیں سن کر خوشگوار حیرت ہوئی اور اس کے دل سے حاجی صاحب کے لیے دعائیں نکلیں۔

” دولت مند لوگ تو بہت ہوتے ہیں جو اس طرح کے اقدامات کر بھی سکتے ہیں لیکن یہ توفیق اللہ کے فضل و کرم سے ہی کسی فیاض انسان کو حاصل ہوتی ہے۔“ ناصرہ نے اپنے بیٹے سے کہا۔

” ایک کلو امرود، ایک کلو کھجوریں، ایک کلو آڑو اور آدھا کلو انگور دے دیں۔“ اس نے پھل فروش سے کہا۔
اگرچہ ناصرہ پہلے پھل خرید چکی تھی لیکن اس نے یہاں سے بھی مزید پھل خرید لیے۔
” میں نے سوچا کہ افطاری کے لیے دو تین دن فروٹ چاٹ بنالیں گے۔“ اس نے بیٹے سے کہا۔
” جی۔ اور کھجوریں افطاری کے لیے کام آتی رہیں گی۔“ بیٹے نے جواباً کہا۔

” حاجی صاحب نے مجھے یہ بھی تاکید کر رکھی ہے کہ اگر کوئی غریب (جان پہچان والا یا اجنبی) بندہ پھل خریدنے آئے تو میں اس کو مزید کم قیمت پرپھل دے دیا دوں۔ قیمتوں کی یہ ساری کمی وہی برداشت کرتے ہیں۔“ دکان دار نے اسے مزید بتایا۔

ناصرہ نے نوٹ کیا کہ ریڑھی پر پھلوں والے کئی شاپر موجود ہیں۔
” بھائی! یہ پھلوں والے شاپروں کا کیا معاملہ ہے؟“ ناصرہ نے شاپروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔

” باجی! لوگوں نے پھل خرید کر ریڑھی پر رکھوائے ہیں کہ ابھی کسی کام سے جارہے ہیں، کچھ دیر بعد واپس آئیں گے تو گھر جاتے وقت ریڑھی سے شاپر اٹھا کر لیتے جائیں گے۔ کہیں اتنی دیر میں سارا پھل بک نہ جائے۔“ اس نے جواب میں بتایا۔

” آپ کا سارا پھل تو شام سے پہلے ہی بک جاتا ہوگا؟“ ناصرہ نے پوچھا
” جی باجی! آپ دیکھیں کہ ریڑھی کا تقریباً تین چوتھائی سے زیادہ پھل بک چکا ہے اوراب تھوڑا سا پھل باقی رہ گیا ہے۔ یہ بھی تھوڑی دیر میں بک جائے گا ان شاءاللہ۔“ منشاء نے کہا۔
” ماشاءاللہ ۔“ ناصرہ نے کہا۔

” باجی! میری ریڑھی روز پھلوں سے بھری ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز سارا پھل بک جاتا ہے۔ لوگوں کو حکومت کے طے کردہ نرخ کے مطابق پھل مہیا کرنے کی حاجی صاحب کی بڑی نیکی ہے۔ اور پھر اس ریڑھی پر جو بھی گاہک آتا ہے، خواہ امیر ہو یا غریب، تو کچھ خرید کر ہی جاتا ہے، تو یہ بھی اللہ کا کرم ہے۔“ دکان دار نے اسے مزید بتایا۔ ناصرہ کو خوشی ہوئی کہ غریب دکاندار بار بار اللہ کا شکر ادا کررہا تھا۔

” حاجی صاحب نے مجھے یہ بھی سہولت دے رکھی ہے کہ میں روزانہ اپنی مرضی کا ایک کلو پھل اپنے بچوں کے لیے لے لیا کروں۔“ منشاء نے خوشی سے بتایا۔
” ماشاءاللہ! یہ تو آپ کے لیے بڑی سہولت ہے۔“ ناصرہ نے کہا۔

” حاجی صاحب کتنے سمجھ دار انسان ہیں کہ انہوں نے اپنے ملازم کو امانت و دیانت کے راستے پر گامزن رکھنے کے لیے اسے حفظ ماتقدم کے طور پر خود ہی روزانہ ایک کلو پھل لینے کی بھی اجازت دی ہوئی ہے۔“ ناصرہ نے اپنے بیٹے سے کہا۔
”جی بالکل۔“ بیٹے نے بھی تائید کی۔

” سیب 240 روپے فی کلو، کیلا 80 روپے فی درجن وغیرہ۔“ اس بات چیت کے دوران ہی ناصرہ نے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا کہ دیگر ریڑھی والوں نے آوازیں لگانی شروع کر دیں تھیں۔

” آپ لوگوں کے پھلوں کا ریٹ جلد ہی حکومتی ریٹ کے مطابق ہوجائے گا۔“ حاجی صاحب کے ملازم نے ان کو وہیں سے اونچی آواز میں مخاطب کرکے کہا۔

” سیب 230 روپے فی کلو، کیلا 70 روپے فی درجن وغیرہ۔“ دوسرے دوکانداروں نے پھلوں کی قیمت دس دس روپے مزید کم کردی۔

ناصرہ کو یہ دیکھ کر حیرت انگیز خوشی ہوئی۔ اس کا بیٹا بھی خوش ہورہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” بھائی! کیا بات ہے؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ پریشان نظر آرہے ہیں؟ مالک کی طرف سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟“ ناصرہ نے منشاء سے پوچھا۔

چند روز بعد ناصرہ کو دوبارہ بازار جانے کا اتفاق ہوا تو وہ منشاء پھل فروش سے پھل خریدنے لگی۔ منشاء اسے کافی پریشان لگا۔ اس کی پہلے والی طبیعت کی تازگی مفقود لگ رہی تھی۔

” جی باجی! اللہ کا شکر ہے۔ سب خیریت ہے۔ حاجی صاحب بھی بہت اچھے ہیں۔ شفقت سے پیش آتے ہیں۔“ منشاء نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
” پھر کیا مسئلہ ہے؟ کیا عام لوگ مسائل کھڑے کرتے ہیں؟“ ناصرہ نے پوچھا۔
” نہیں باجی! عام لوگ تو میرے کام سے بہت خوش ہیں۔ اور ان کا یہ مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ میں سبزی بھی حکومتی قیمتوں کے مطابق لگایا کروں۔“ منشاء نے کہا۔

” پھر کیا اردگرد کے دکاندار پریشان کرتے ہیں؟“ ناصرہ نے وہ سوال پوچھا جس کا اسے پورا خدشہ تھا۔

” جی باجی! ارد گرد کے دکانداروں نے بہت پریشان کر رکھا ہے۔ وہ سب خود اپنی مرضی اور اپنے ریٹ کے مطابق پھل بیچنا چاہتے اور زیادہ منافع وصول کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ سارے مل کر میرے مخالف ہو جاتے ہیں۔ مجھے تنگ کرتے ہیں۔ میرے خلاف آوازیں لگاتے ہیں۔ مجھے اونچی آواز میں گالم گلوچ کرتے ہیں۔ لوگوں سے میرے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض دکاندار تو حاجی صاحب کو بھی میرے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے ان کے رویے کی وجہ سے بہت پریشانی ہوتی ہے۔“ منشاء نے جیسے روہانسی آواز میں کہا۔

ناصرہ کو منشاء کی باتوں سے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے ارد گرد پھیلی تپتی دھوپ میں اضافہ ہو گیا ہو!!!

” نہ جانے لوگ کیوں نیکیوں کے معاملے میں تعاون کرنے کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں؟؟؟
نہ جانے کیوں لوگ حکومتی نرخ کی پالیسی کی مخالفت کرتے اور اپنی مرضی کرتےہیں؟؟؟
نہ جانے کیوں دکاندار اور تاجر پیشہ لوگ حسبِ موقع زیادہ اور ناجائز منافع وصول کرتے ہیں؟؟؟
نہ جانے کیوں لوگ کسی غریب کی عزت برداشت نہیں کرتے؟؟؟ “
بالآخر وہ اپنے بیٹے سے کہہ اٹھی۔
پھر انہوں نے دل میں افسوس کے جذبات لیے پھل خرید کر واپسی کے لیے بوجھل قدم بڑھادیے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں