کابل یونیورسٹی حملہ

کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

” گزشتہ روز کابل یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے موبائل فون اور دوسری ذاتی اشیاء اکٹھے کر رہا تھا۔ ہر شہید طالب علم کے سیل فون پر بے شمار گھنٹیاں آ رہی تھیں۔ بہتوں کو جواب دیا بھی مگر کچھ نمبرز جو اماں اور ابا جان کے نام سے محفوظ تھے، اٹھانے کی سکت نہ تھی۔ ایک طالبہ کے سیل فون پر ایک سو بیالیس بار کال کی گئی تھی۔ اور آخر میں ایک میسج آیا جس نے ہلا کے رکھ دیا۔
” کجا ہستی جان پدر؟ “
(ترجمہ) ” کہاں ہو بابا کی جان؟ “

امید مہریار نے یہ ذاتی واقعہ سانحہ جامعہ کابل کے حوالے سے درد و کرب میں مبتلا ہو کرخون دل سے تحریر کیا ہے۔

2 نومبر 2020ء بروز منگل صبح تقریباً گیارہ بجےکابل یونیورسٹی، افغانستان میں تین مسلح افراد نے سیکیورٹی گارڈز کے بھیس میں ایرانی کتب میلے کی افتتاحی تقریب پرحملہ کردیا تھا۔ ایک حملہ آور نے خود کو بم دھماکے سے اُڑا لیا تھا جبکہ باقی دونوں فائرنگ کرتے ہوئے اندر داخل ہوگئے تھے۔

حملہ آوروں نے طلبہ کو یرغمال بنا لیا۔ لہٰذا حملہ آوروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان چھ گھنٹے یہ مقابلہ جاری رہا۔ پھر پولیس کی فائرنگ میں باقی دونوں حملہ آور بھی مارے گئے۔ اس درد ناک سانحےمیں 25 افراد بشمول اساتذہ، طلبہ و طالبات اور عوام جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اور تقریباً اتنے ہی افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔

افغانستان کے مرکزی شہر کابل میں گزشتہ 10 روز میں کسی تعلیمی ادارے پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ ہفتہ، ایک ٹیوشن سینٹر کے پاس ہونے والے خود کش حملے میں 30 سے زیادہ افراد شہید ہوگئے تھے جن میں میں زیادہ تر طلبہ تھے۔ 2018ء میں کابل یونیورسٹی کے باہر بھی ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں درجنوں افراد شہید ہوئے تھے۔

اگرچہ یہ پڑوسی ملک کا واقعہ ہے لیکن کسی تعلیمی ادارے پر حملہ دل دہلا دینے والا اور نہایت خطرناک معاملہ ہے۔

ابھی تو دینی مدرسہ جامعہ زبیریہ پشاور، پاکستان میں ہونے والے بم دھماکہ کے نتیجے میں شہید ہونے والے دین کے طلبہ اور اساتذہ کی شہادتوں کے زخم تازہ ہیں۔ اور زخمیوں کے زخم ابھی تک ہرے ہیں۔ ابھی تو اس سانحے کے مجرموں کی تحقیقات بھی مکمل نہیں ہوئیں۔

ابھی ایک سانحہ کے سابقہ اثرات زائل نہیں ہوئے ہوتے کہ ملک عزیز یا امت مسلمہ کے کسی اور ملک میں اس طرح کسی مزید سانحے کی خبر آ جاتی ہے۔ اور دردمند دل مزید پریشان ہو جاتے ہیں۔

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے

سانحہ جامعہ کابل نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان میں 20اکتوبر 2009ء بروز منگل کو ہونے والے خود کش بم دھماکے کے سانحہ کی یاد بھی تازہ کردی ہے جس میں تین طالبات سمیت چھ افراد جاں بحق اور پچیس طالبات سمیت چالیس، پچاس افراد زخمی ہو گئے تھے۔

جامعہ زبیریہ اور پھر کابل یونیورسٹی کے سانحے نےدو سال قبل افغانستان کے صوبہ دشت آرچی کے شہر قندوز پر ڈرون حملے کے سانحے کی یاد بھی تازہ کردی ہے۔ اور امت مسلمہ کے پرانے زخم پھر ہرے ہو گئے ہیں۔

3 اپریل 2018ء کو افغانستان میں قندوز میں امریکی ڈرون نے ایک دینی مدرسے کو اس وقت نشانہ بنایا تھا جب وہاں سالانہ تقریب اسناد ودستار بندی جاری تھی اور اس تقریب میں علما، طلبہ اور عوام کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ڈرون حملے کے نتیجے میں تقریباً 20 افراد موقع پر شہید ہوگئے تھے جبکہ 100 سے زائد لوگ شدید زخمی ہوئے تھے جن میں بڑی تعداد مدرسے کے اساتذہ، حفاظ طلباء اور ان کے عزیز و اقارب کی تھی جو اس تقریب میں بڑے جوش وخروش سے شریک تھے۔

جس ملک کے تعلیمی ادارے بھی دہشت گردی سے محفوظ نہ رہیں تو وہاں پھر طلبہ کے مستقبل کی کیا صورتحال ہوسکتی ہے؟ تعلیمی اداروں کی فضاؤں کے بارے میں طلبہ کے ذہن میں کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ انہیں ان نفسیاتی مسائل سے نبٹنے اور نارمل ہونے میں کتنا عرصہ لگے گا؟

ایک نوجوان طالب علم نے، جو اس دن غیر حاضر تھا، بعد میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہاکہ
” ہم کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کریں کیونکہ نہ ہمیں قاتل کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہم قاتل کے ساتھ کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں؟ “

یونیورسٹی واپس جانے کے بارے میں اس طالب علم نے کہا کہ
” ابھی تو میری حالت ایسی ہے کہ دوبارہ یونیورسٹی میں جانے کا سوچا تک نہیں ہے لیکن اس میں وقت لگے گا کہ ہم طالب علم یونی ورسٹی جا کر دوبارہ تعلیم اسی شوق سے حاصل کرنا شروع کریں جو حملے سے پہلے تھا۔ یونی ورسٹی اور وہ عمارت جہاں پر ہمارے دوستوں کے خون کے دھبے موجود ہوں، ہم وہاں جا کر دوبارہ کس طرح اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ کتنا درد ناک اور مشکل ہوگا۔ “

جب اس طرح کے واقعات کی اطلاع ملتی ہے، تب فطری طور پر میرے دل ودماغ رنج و الم کے گہری کیفیات میں ڈوب سے جاتے ہیں۔ مجھے اپنے جذبات و احساسات بیان کرنا بہت دشوار دکھائی دیتا ہے۔

بس میرا دل چاہتا ہے کہ
کاش! چوری، ڈکیتی، دہشت گردی، زنا بالجبر، اور شراب نوشی وغیرہ کے وہ مجرم سب لوگوں کے سامنے موجود ہوں اور وہ ان ظالم ڈاکوؤں، عزت و عصمت کے لٹیروں اور ان شقی القلب مجرموں کو حسب جرم سزائیں دے کر انہیں نشانہ عبرت بنا کر ان کی زندگیوں کو ختم کر دیں!!!

ان پر ڈکیتی، دہشت گردی اور زنا وغیرہ جیسے کبیرہ گناہوں کی حدود نافذ کی جائیں!!!
معاشرے میں بے حیائی و فحاشی، چوری و ڈکیتی، دہشت گردی اور دیگر گناہوں کو پھیلانے والے ان ناسوروں کو حسبِ گناہ سزائیں دے کر ان کے وجود سے معاشرے کو پاک کر دیا جائے!!!
ایسے مجرموں کو دنیا سے نیست و نابود کردیا جائے!!!
ان کو عبرت کی زندہ مثال بنا دیا جائے!!!

سانحہ جامعہ کابل کے تینوں ظاہری مجرموں کو سکیورٹی فورسز نے موقع واردات پر سخت مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا ہے لیکن افغان حکومت کو چاہیے کہ اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازافراد کو تحقیقات کے بعد گرفتار کرکے ان پر دہشت گردی کی حدود جاری کریں اور ان کو سرعام سزا دے کر انہیں نشانہ عبرت بنا دیں۔ تاکہ تعلیمی اداروں میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا سدباب ہوسکے۔اورامت مسلمہ کے طلبہ کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں