والٹن کیمپ ، لاہور 1947

ہندوستان سے پاکستان ، ہجرت کی خونچکاں داستان ( پہلی قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

ممتاز صحافی بلکہ صحیح تر الفاظ میں استاذ صحافی عزیزم اطہر خرم کے ساتھ میرے قلبی لگاؤ کی متعدد اقدار مشترک ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے دونوں کے خاندان قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے۔

گزشتہ دنوں جب بانی پاکستان کے مزار کو بے ہودہ سیاست کا اکھاڑہ بنانے والوں نے ہر محب وطن پاکستانی کو پریشان کر دیا تو میں اور اطہر خرم ایک بار پھر اپنے آباء کی پاکستان ہجرت کی خونچکاں داستان شئیر کرنے لگے۔ جناب خرم نے مجھے بتایا:

” میرے دادا چودھری سلطان علی اپنی اہلیہ کے ہمراہ لاہور آگئے تو انھیں ماڈل ٹاؤن کی ایک بہت بڑی کوٹھی میں رہائش ملی۔ مہاجرین کو جو گونا گوں مصائب و مسائل پیش آئے، ان میں ایک بڑی مصیبت تنہائی کی غیر معمولی دل آزاری کی تھی۔

ماڈل ٹاؤن ان دنوں پوری طرح آباد نہیں تھا۔ پورے بلاک میں چار پانچ کوٹھیاں تھیں۔ وسیع و عریض کوٹھی میں دادا اور دادی کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ مشرقی پنجاب (جالندھر) سے گھر بار اور کاروبار کے علاوہ ایک بھری پری زندگی چھوڑ کر یہاں ہولناک تنہائی میں گزر اوقات محال نظر آرہی تھی۔ دادی نے دادا سے کہا:

’کوئی ایسی اقامت گاہ تلاش کریں جہاں چار اعزہ جاننے والے ہوں، یہ گھر تو کاٹ کھانے کو آرہا ہے۔ سوچا والٹن ہی چلے جاتے ہیں ……‘ والٹن میں مہاجر کیمپ قائم کیا گیا تھا جہاں کثیر تعداد میں مہاجرین مقیم تھے۔

والٹن کے قریب گوپال نگر میں دادا جان نے ایک پلاٹ خرید لیا۔ یہ رقم جمع پونجی تھی جو جالندھر ہی سے ساتھ لے آئے تھے۔ اس پلاٹ میں ایک ڈھارا سا بنا کر رہائش اختیار کر لی۔ مزدوروں کی رہائش کا بھی اہتمام کرلیا۔

ان دنوں مہاجر کیمپ والٹن ریلوے سٹیشن سے ملحق تھا۔ دور دور تک ویرانی ہی ویرانی تھی۔ ٹرین آتی، واپس چلی جاتی۔ آبادی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ خالی میدان تھا۔ کہیں کہیں کوئی درخت دکھائی دیتا جس کی چھاؤں میں مہاجر بیٹھ جاتے اور وقت گزار لیتے۔ اگست کا مہینہ تھا۔ گرمی شدید تھی۔ نان و نفقہ مخیر حضرات اور بعض بے ترتیب سماجی تنظیمیں کررہی تھیں۔ اکا دکا فوجی بھی نظر آجاتا تھا جو مہاجرین میں چنے تقسیم کرتا تاکہ وہ بھوک کا سامان کریں۔ پینے کے لئے نہر یا نالے سے گدلا پانی استعمال کیا جاتا۔

مہاجر کیمپ میں پیچش، ہیضہ، چیچک ایسی وبائی امراض پھوٹ پڑی تھیں۔ وفات پانے والے مہاجرین کی تدفین تک کا کوئی انتطام نہیں تھا۔ دادا جان کے لئے یہ صورت حال بے حد اذیت و کرب کا موجب بنی تو انھوں نے اپنے ساتھی مزدوروں سے مل کر تدفین کا کام شد و مد سے شروع کردیا۔

بعض مہاجرین خاموشی سے دم توڑ دیتے۔ دادا اور مزدور ساتھی ان علیل مہاجرین کے پاس جاتے تو یہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا کہ ان میں سے بعض جان جان آفرین کے سپرد کرچکے ہوتے تھے۔ زندہ افراد کو محفوظ جگہ پر پہنچانے کے لئے ان کے پاس جاتے تو ان کے ساتھ جڑے ہوئے مہاجر اللہ کو پیارے ہوچکے ہوتے۔

اس طرح تدفین کے لئے تصور سے زیادہ مہاجر مل رہے تھے۔ یہ لوگ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ اباجی چودھری محمد شریف بھی دادا اور چچا چودھری محمد شفیع کے ساتھ ان زندہ اور مردہ لاشوں کی تدفین کے کام میں کئی روز تک جتے رہے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مہاجر کیمپ کئی روز تک قائم رہا۔ اس میں، راقم بھی اپنی ماں اور ماموں کے علاوہ اپنی پیاری بہن بتول اختر کے ساتھ چند روز مقیم رہا۔

اس کیمپ میں آنے سے پہلے میں اپنے قارئین کو ضلع ہوشیار پور میں اپنے گاؤں سے یہاں پہنچنے کے دلگداز سفر کی روداد بیان کرنا چاہوں گا۔

ہمارے آبائی گاؤں بیرچھ پر کثیر تعداد میں سکھوں نے حملہ کردیا تھا۔ مجھے کم سنی کے باعث بہت کم واقعات یاد رہ گئے ہیں۔ اتنا یاد ہے کہ عصر کا وقت تھا کہ چاروں طرف شور اٹھا اور گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ بی بی جان (والدہ مرحومہ) نے ہم تینوں بہن بھائیوں کو ساتھ لیا اور محفوظ جگہ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں۔

پہلے نانی اماں کے گھر گئیں، پھر وہاں سے واپس مڑیں۔ اس دوران میں فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ ہم گلیاں محفوظ نہ پا کر مکانات کی چھتوں پر سے بھاگتے ہوئے محفوظ مقام کی طرف جا رہے تھے۔ ایک چھت پر ہمارے سب سے بڑے ماموں قدرت علی چودھری مرحوم سکھوں کے حملہ آور جتھے کے خلاف ایک منڈیر کی اوٹ میں مورچہ زن تھے۔ ہمیں دیکھ کر انھوں نے تنبیہ کے انداز میں کہا:

”یہاں سے جتنی جلدی ممکن ہے، چلے جاؤ، اپنی جانیں بچاؤ، یہ جگہ خطرناک ہے۔“
اگلے ہی لمحے بی بی جان نے ہم تینوں بہن بھائیوں کو گود میں لیا اور چھت پر سے نیچے چھلانگ لگا دی کیونکہ نیچے اترنے کے لئے کوئی سیڑھی نہیں تھی۔

ایک اور بات یاد آ رہی ہے کہ ہم ایک بہت بڑے مکان کے اندر بند تھے۔ وہاں کثیر تعداد میں زخمی مرد عورتیں اور بچے بھی موجود تھے۔ ایک بچے کی رونے کی آواز پر ایک خاتون نے اس بچے کی ماں کو مخاطب کرکے کہا:

”بہن! اس کا گلا گھونٹ دو۔ باہر دالان میں سکھ پھر رہے ہیں، انھوں نے اگر محسوس کرلیا کہ ہم نے یہاں پناہ لے رکھی ہے تو وہ اس گھر کو بھی آگ لگا دیں گے۔“

اس کے جواب میں بی بی جان نے کہا ”بہن! ہرگز نہیں۔ اس معصوم کی جان بھی انمول ہے اور کون جانے اللہ تعالیٰ اس فرشتے کے صدقے اس کی ماں اور دوسری ماؤں کو بھی زندہ بچا لے۔“
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں