تقسیم برصغیر، 1947

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( چوتھی قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( پہلی قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( دوسری قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( تیسری قسط )

میرے سامنے میرے ایک اور بزرگ بابا نور محمد جنھیں ہم سب ’ لالہ جی ‘ کہتے تھے، سفید و براق لباس میں ملبوس ، اس حال میں اپنی حویلی کے سامنے لیٹے ہوئے نظرآرہے ہیں کہ ان کا وہ سر تن سے جدا ہے جسے میں اکثر سجدے کی حالت میں دیکھتا تھا۔

ان کے ایک اور بزرگ جو رشتے میں میرے چچا تھے…. چودھری غلام علی، چار چار ، چھ چھ افراد ، مسلح افراد کے مقابلے میں ایک لاٹھی کے سہارے ڈٹ کر بھڑ جانے والے، اپنے علاقے میں’ گتکا‘( پنجاب کے دیہات کا ایک قدیم کھیل) کے معروف کھلاڑی ہی نہیں جانے پہچانے استاد تھے، اس عالم میں یاد آرہے ہیں کہ ہم سات افراد کم و بیش گولہ و بارود سے مسلح تیس، پینتیس انتہاپسندوں سے متصادم ہیں۔

ہمارے ہاتھوں میں دیسی ساخت کی تلواریں اور برچھیوں کے لاہو ، چھوٹے چھوٹے پٹاخے ہیں اور ہمارے مدمقابل پانچ گنا زیادہ افراد رائفلوں سے مسلح ہیں۔ ایسے عالم میں چچا غلام علی کی آواز ان الفاظ میں گونجتی ہے:
” منڈیو ! ہتھیں پے جاﺅ “( جوانو ! دست بدست جنگ شروع کر دو)۔

میرے دائیں طرف میرے ماموں چودھری محمد بوٹا ، جنھیں میں اپنے گاﺅں کی جنگ کا ہیرو قرار دے سکتا ہوں، دشمن کو للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور اپنی اس دیسی ساخت کی تلوار سے ایک حملہ آور کا سر تن سے جدا کردیا لیکن اس وار میں ان کی تلوار دوہری ہوگئی۔ ان کے پاس تیز دھار پھل والی برچھی بھی تھی،

ابھی یہ دوسرے وار کے لئے سنبھل ہی رہے تھے کہ سامنے سے ایک اور حملہ آور انتہائی پھرتی کے ساتھ میری طرف بڑھا ، بیشتر اس کے کہ وہ مجھے اپنی تلوار یا خنجر کا نشانہ بناتا ، میرے ماموں جان نے اس کے سینے میں بھی برچھی پیوست کردی۔ اتنے میں چودھری غلام علی کی آواز پھر آئی، اب وہ میرے ماموں کو اپنے مخصوص دیہاتی لب و لہجے میں پکار رہے تھے :
”بوٹیا ! تکڑے ہو جاﺅ “( بوٹا ! سنبھل جاﺅ، سنبھل جاﺅ)۔

چچا غلام علی کی یہ للکار بڑی ہی گرج دار اور جان دار تھی، جس سے ہمارے حوصلے بڑھ رہے تھے اور دشمن کے حوصلے پست ہورہے تھے چنانچہ میرے بڑے بھائی چودھری قدرت علی نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک غیر تربیت یافتہ سپاہی کی طرح تلوار اوپر اٹھائی اور پیش قدمی کرکے ایک ایسے حملہ آور کے سر پر دے ماری جس کی موٹی موٹی پگڑی کی تہوں میں سے گزرتی ہوئی تلوار اسے اس حد تک زخمی ضرورکر گئی کہ وہ حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہا۔

ایک حملہ آور کو میں نے بھی چت کیا، ایک اور کو میرے ماموں زاد بھائی اقبال نے زخمی کیا۔ اس وقت ان کے حوصلے اگرچہ پست ہوچکے تھے، تعداد میں ہم سے پانچ گنا زیادہ حملہ آور پسپائی پر مجبور ہوچکے تھے لیکن دائیں طرف سے اچانک انھیں ایسی کمک پہنچ گئی جن میں سے ایک حملہ آور نے میرے چچا چودھری غلام علی کے سینے میں دل کے عین قریب اس زور سے خنجر گھونپا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے جسم سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔

نئے حملہ آوروں کی زد میں ہمارا ایک اور ساتھی فضل دین ، کچھ اس صورت حال میں آگیا کہ اس کی ران پر تلوار کا وار ایسے زور سے ہوا کہ گوشت کا بہت بڑا لوتھڑا نیچے کی طرف ڈھلک گیا۔ فضل دین چلنے کے قابل نہ رہا۔

چودھری غلام علی کو شدید زخمی حالت میں ایک کنویں کے پاس درد سے کراہتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ اس علاقے کے حملہ آور پسپا ہوچکے تھے۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق چچا غلام علی اپنے قافلہ کا ساتھ نہ دے سکا۔ دل کے قریب گہرا زخم بالآخر جاں لیوا ثابت ہوا۔
آہ ! کتنا بہادر اور جفاکش و وفا کش تھا میرا محترم چچا!

حملہ آوروں سے ہمارا تصادم 18اگست 1947ء کو شام پانچ بجے شروع ہوا تھا جو غروب آفتاب کے بعد تک جاری رہا۔ یہ تصادم بابا محمد جمیل کی حویلی کے باہر شروع ہوا تھا جسے بعد میں نذر آتش کردیا گیا۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہم گھروں کی طرف بھاگے( واضح رہے کہ ہماری حویلیاں ہمارے گھروں سے کافی فاصلے پر واقع تھیں )،

گھروں کی طرف جاتے ہوئے جب ہم گلی میں سے گزرے تو وہاں بعض مستورات کو زخمی حالت میں تڑپتے ہوئے پایا۔ جب میں اپنے گھر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ میری والدہ محترمہ ایک خاتون کو بڑی مشکل سے اٹھائے اپنے گھر کی طرف لے جارہی ہیں۔ گھر پہنچتے ہی والدہ نے اس زخمی خاتون کے منہ میں پانی ڈال دیا لیکن پانی کے قطرے حلق سے اترتے ہی کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اس خاتون نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔

میں والدہ سے یہ کہہ کر مکان کی چھت کے اوپر چلا گیا کہ ہمارے گاﺅں کو حملہ آوروں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہوا ہے، ان کے پاس بے پناہ اسلحہ ہے اور وہ اندھا دھند فائرنگ کرکے ہمارے لوگوں کو ہلاک و زخمی کررہے ہیں۔

میں چھت کے اوپر پہنچا ہی تھا کہ ایک گولی شائیں کرتی میرے روئی دار بنڈی کو دائیں طرف سے چیرتے ہوئے آگے نکل گئی ، میں اس سے بال بال بچ گیا۔ میں نے اندازہ کیا کہ حملہ آوروں سے نہ ہماری چھتیں محفوظ ہیں اور نہ گلیاں۔ بعض بعض گھروں کے اندر بھی حفاظت کا کوئی سامان اور امکان نہیں رہا۔

کم و بیش دو گھنٹے تک قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ ابتدائی تیس چالیس منٹ تک تو کہیں کہیں سے میرے گاﺅں کے بہادر اور جیالے نوجوانوں اور بزرگوں نے ان کا مقابلہ کیا، لیکن بعد میں حملہ آوروں کو کھلی چھٹی مل چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی گورکھا فوج کے بعض سپاہی بھی گاﺅں میں داخل ہوتے نظرآئے جو بظاہر ہماری حفاظت کے لئے آئے تھے لیکن ایسے معلوم ہوتاتھا کہ انھیں ہماری حفاظت سے زیادہ اس بات سے دلچسپی تھی کہ ہم بے سروسامانی کے عالم میں اپنے گھروں کو خیرباد کہہ دیں حتیٰ کہ اپنے گاﺅں سے نکل کر کسی اور گاﺅں میں چلے جائیں۔

گھر سے نکلنے کی تیاری ہورہی تھی کہ میرے ماموں جان ہمارے گھر میں اس حالت میں داخل ہوئے کہ ان کے چہرے سے لے کر گھٹنوں تک خون ہی خون نظر آرہا تھا۔ وہ اپنے سینہ سے بندھے ہوئے تکیہ سے روئی نکال کر خون کے دھبے بلکہ لوتھڑے صاف کرتے لیکن اتنے میں مزید خون نکل آتا، ان کا چہرہ ان کی گردن اور ان کے بازو دونالی بندوق کے چھروں سے بری طرح زخمی ہوچکے تھے حتیٰ کہ بہت سے چھرے ان کے جس میں پیوست نظر آرہے تھے۔

انھوں نے آتے ہی والدہ سے کہا:
” بہن! چلیں گھر سے نکلیں، یہاں ٹھہرنے کا وقت نہیں رہا، اب یہ گھر ہمارے گھر نہیں ہیں۔“
یہ الفاظ کہنے والا کہہ رہاتھا، سننے والے سن رہے تھے لیکن جو کچھ ہمارے ساتھ بیت رہی تھی، وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔

میرے اپنے گھر میں والدہ محترمہ کی اطلاع کے مطابق سیروں کے حساب سے سونے اور چاندی کے زیورات بطور امانت محفوظ تھے اس لئے کہ ایک تو ہمارا یہ گھر سارے گاﺅں میں مرکزی مقام پر تھا۔ دوسرے والدہ محترمہ کی امانت و دیانت گاﺅں ہی میں نہیں علاقہ بھر میں مسلمہ تھی چنانچہ چند روز قبل ساتھ والے گاﺅں کی کچھ خواتین بھی اپنے زیورات والدہ محترمہ کے سپرد کرگئی تھیں۔

والدہ کو فکر تھی تو صرف ان امانتوں کی لیکن ماموں جان کہہ رہے تھے کہ بس! یہاں سے خالی ہاتھ نکلو ، اس لئے کہ اول تو ہماری جانیں بھی خطرے میں ہیں۔ اگر بچ بچا کر یہاں سے نکل بھی گئے تو یہ سونا چاندی ہمیں کون ساتھ لے جانے دے گا۔

بہرحال گھر کے در و دیوار پر آخری نظر دوڑائیں اور گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے۔ میرے ہاتھ میں صرف ایک برچھی تھی جو صحیح معنوں میں غازی کہلانے کا حق رکھتی تھی کہ اس کی مدد سے میں نے بعض اہم معرکے سرانجام دیے تھے۔ اس حملہ میں بھی جس کی زد میں براہ راست میرا اپنا گاﺅں تھا اور چار روز قبل اپنے گاﺅں س ملحقہ ایک دوسرے گاﺅں دواکھری کے دفاع میں بھی مجھے اللہ تعالیٰ نے حملہ آوروں کو جہنم واصل کرنے کی توفیق سے نوازا تھا۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں