ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید :

ایمن طارق نے ایک سچا واقعہ لکھا جس میں نام ، واقعات کی ترتیب بدلی گئی ہے۔ انھوں نے لکھا:

” اتنے برسوں بعد ملاقات کی خوشی ہر چیز پر بھاری تھی ۔ وہ ایسی خوش نظر آرہی تھی کہ ایسا خوش بہت برسوں میں شاذ و نادر ہی دیکھا تھا ۔ پڑوس میں رہنے کی وجہ سے صبح شام آتے جاتے ملاقات ہوجاتی ۔ بچے ایک ہی اسکول میں تھے اسی لئے اچھا تبادلہ خیال اور تبادلہ تجربات رہتا ۔ انہی دنوں پتا چلا کہ بہت برسوں بعد اُس کی کوئی اسکول کی دوست حسن اتفاق سے اسی شہر میں نکل آئیں اور ملنے آنا چاہ رہی ہیں ۔

پچھلے پورے ہفتے سے روز ہی وہ صبح شاپنگ پر نکل جاتی اور واپسی میں تھکی ہاری ہماری بیل بجاتی تو مجھے آئیڈیا ہوجاتا کہ آج کوئی نئی کہانی یا تیاری بتائے گی ۔ اللہ اللہ کرکے وہ دن آ پہنچا ۔ اندر باہر سے گھر سج چکا تھا ۔ خود بھی بڑے سال بعد اُس کو خود پر توجہ دیتے دیکھا ورنہ بچوں کے ساتھ عموماً الجھے الجھے ہی رہتی ۔

مہمان کی آمد سے کچھ دیر قبل میں نے اُسے وہ کیک ڈراپ کرنا تھا جو اُس نے وقت کی کمی کے باعث مجھے بنانے کو دے دیا ۔ دروازہ کھلا تو سامنے سجی سنوری مسکراتی اور کاسنی سے لباس میں چمکتے چہرے کے ساتھ ، میرا دل اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔

کوالیفیکیشن میں میکینکل انجئینر یہ لڑکی گزرتے ماہ و سال میں گھر کو سنبھالتے اور زندگی کے مدوجزر میں ڈولتے یہ فراموش کر چکی تھی کہ چند لوگوں کے سامنے بات بھی کرسکتی ہے ۔ اکثر میں اُسے توجہ دلاتی کہ چلو واک پر چلتے ہیں یا کہیں کسی لائبریری میں چلتے ہیں ، کچھ تم اپنی کتابیں ایشو کروا لینا لیکن یہی جواب دیتی کہ بہن یہ سب کرکے مجھے لگتا ہے میرے گھر کے کام متاثر ہوں گے ۔

آج بہت اچھا لگا اُسے یوں ذرا مختلف انداز میں دیکھ کر ۔
” اچھا اب میں چلی ۔ جب تمہاری مہمان چلی جائیں تو بات ہوگی ۔ “
” نہیں تو کیا تم نہیں ملو گی ؟ اب پچھلے سالوں میں تو تم ہی پڑوسن سے زیادہ دوست بن چکی ہو ۔“
اُس نے مجھے آنے کی ترغیب دی تو میں بس ٹال کر آگئی کیونکہ کچھ مصروفیت تھی ۔

شام میں مصروفیت کے دوران اُس کی کال آئی کہ ” آجائو ! بس میری مہمان رخصت ہونے لگی ہیں ۔ “
آواز میں کچھ عجیب سی بیزاری تھی ۔ حیرت ہوئی کہ کہاں تو اتنا انتظار تھا ۔

میں اُٹھ کر اسکارف باندھتے ہوئے باہر نکل آئی اور اُس کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے سوچا کہ بس چند لمحے گزار کر واپس آجاتی ہوں ۔
سامنے ہی مہمان خاتون تھیں ۔ اسمارٹ سی ، مسکراتی ہوئی ، چشمے سے پیچھے جھانکتی ہوئی بغور ملاحظہ کرتی آنکھیں ۔ سلام کے بعد میں بھی تکلف سے بیٹھ گئی ۔

” اچھا آپ ثمینہ کی پڑوسن ہیں ؟ بہت تذکرہ رہتا ہے آپ کا ۔ ثمینہ اور میں تو بچپن کے دوست ہیں ۔ بس یہ بہت بدل گئی ہے ۔ بالکل ہی بڑھاپا طاری کر بیٹھی ۔ وزن بھی اتنا چڑھا لیا کہ میں تو بڑی مشکل سے پہچانی ۔“
یہ کہہ کر اُنہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر بہت لگاوٹ سے ثمینہ کو مخاطب کرکے کہنے لگیں:
” کیوں بھئی ، تمہاری پڑوسن تو بہت اچھی دوست ہے اسی لئے اب اسے تمہارے پیچھے لگا کر جائوں گی ۔ “

میں نے بڑی مشکل سے گردن گھما کر پیچھے ٹیبل پر سے برتن سمیٹتے ثمینہ کو دیکھا ۔ چاہنے کے باوجود میں اُن کی بات کے جواب میں ہاں یا ناں کہنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی ۔ ثمینہ کے تاثرات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اُس کی کمر ہی نظر آرہی تھی ۔

کچھ لمحے بیٹھ کر میں واپس آگئی ۔ اُن چند لمحوں میں بمشکل صرف یہ کوشش کرسکی کہ اُن خاتون کی توجہ موسم ، کھانے اور بچوں کے بارے میں ڈسکشن کی طرف کروائی جائے ۔ بار بار گھوم کر اُن کی تان ” ثمینہ کتنا بدل گئی ہے “ پر اٹک جاتی ۔

وہ دن گزرا اور آج تک ان مہمان خاتون کے بارے میں نہ ثمینہ نے کوئی تذکرہ کیا اور نہ میں نے پوچھا ۔

کسی کی ایکسائٹمنٹ ، محبت ، گرم جوشی اور وارفتگی کو دل گرفتگی ، شرمندگی ، افسوس اور ندامت میں تبدیل کرنے میں چند لمحے ہی لگتے ہیں۔ یہ چند لمحے کبھی کبھی کسی کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے لے جاتے ہیں ۔
تعریف یا حوصلہ افزائی ایک جادو ہے جو دوسرے کو انرجی ڈوز کی طرح اُٹھا کھڑا کرتا ہے اسی طرح کسی کی شخصیت کے کسی پہلو کو اُس کی کمزوری کے طور پر ہائی لائیٹ کرنا بھی ایک ایسا جادو ہے کہ وہی منجمد کر دیتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایمن کی تحریر پڑھ کر میں سوچتی ہوں کہ کاش ! ہم ایک بات سیکھ لیں کہ کسی کے بارے میں چند بظاہر ہلکے جملے کہنا بند کردیں جو اسے اداسی، خود سے نفرت ، مایوسی، اور بیزاری کے غار میں دھکیل دیتے ہیں۔ اچھے خاصے سمجھ دار اور دیندار لوگ بھی ” اپنی دھن میں “ ایسی باتیں کرجاتے ہیں۔

” موٹی ہوگئی ہو۔“
” بچے کتنے دبلے دبلے ہیں تمہارے “
” بھئی اس کا وزن تو بہت بڑھ رہا ہے۔ کم کھلایا کرو۔ بعد میں ماؤں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ “
” چھوٹے والے کا رنگ دبتا ہوا ہے۔ یہ کس پر گیا ہے۔“
” بچوں کو ذرا تمیز سکھانی چاہیے۔“
وغیرہ۔

خاص طور پر اگر آپ کبھی کبھی ملتے ہوں تو ایسے تبصروں سے خدا کے لیے گریز کریں۔
عمر بڑھنے کے ساتھ جسمانی تبدیلیوں کا نمایاں تر ہونا، بدن ڈھلنا، جلد کی شگفتگی و چمک کا کم ہوجانا، جھریاں نمودار ہونا ۔۔۔ یہ سب فطری ہے۔

کچھ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں کہ قدرتی طور پر یہ تبدیلیاں ان کے یہاں تاخیر سے نمایاں ہوتی ہیں ، کچھ دوسری طرح کے خوش قسمت ہیں کہ ورزش، اچھی غذا اور بہتر حالات کی بدولت شادابی اور خوش روئی کے کچھ دن اور گھسیٹ لیتے ہیں۔

کچھ عرصہ بعد ملیں تو یہ تبدیلی نمایاں ہوکر نظر آتی ہے۔
ویسے تو ہم روز ملنے والوں کو بھی احساس دلانا نہیں بھولتے۔
اپنا خیال رکھنا اچھی بات ہے۔ ورزش، غذا کا خیال، بن سنور کر رہنے کی کوشش کرنا یہ سب ضروری ہیں۔۔ مگر عمر رفتہ کو شکست دینا ممکن نہیں اور ہر ایک بدلتی ہوئی رت کے اثرات کو روکنے پر آپ کی طرح قادر بھی نہیں ۔

ہو سکتا ہے آپ سے پہلے وہ دن میں سو مرتبہ خود کو جتا چکا ہو۔
کسی کو پیار اور اخلاص سے اس کی اہمیت کا احساس دلانے اور خود پر توجہ دینے کی پیار بھری نصیحت اور شے اور چھوٹتے ہی تبصرہ فرمانا اور چیز۔
اسی طرح ہر وقت دوسروں کی خوش روئی، اور خوبیوں کی تعریفوں سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
انسانوں کی دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہیں ۔۔
کاش ! آپ کو اندازہ ہو کہ ان تبصروں کی وجہ سے لوگوں کو کس ذہنی کرب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں