عمران خان ، بلاول بھٹو زرداری ، مریم نواز شریف

گلگت بلتستان، تحریک انصاف کے لئے تشویش ناک صورت حال

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد :

گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابی نتائج کی تشریح کرنے کے لئے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ، دونوں اپنے انتخابی نتائج پر بات کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے انتخابی نتائج کو بنیاد بنا رہے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کو10 سیٹیں ملی، پیپلزپارٹی کو 3، مسلم لیگ ن کو 2 جبکہ مجلس وحدت المسلمین کو ایک سیٹ ملی۔ اس بار آزاد امیدوار سات کی تعداد میں جیتے۔ دو حلقوں میں احتجاج ہورہا ہے، ممکن ہے کہ نتائج میں کچھ تبدیلی ہوجائے تاہم ایک بات طے ہے کہ تحریک انصاف سادہ اکثریت حاصل کرنے میں‌ ناکام رہی ہے۔ اسے حکومت سازی کے لئے آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملانا پڑے گا۔ مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کو طعنہ دیا ہے کہ وہ سرکاری مشینری، وفاداریاں تبدیل کرانے، دھاندلی کےباوجود بھی سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکی۔

مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نوازشریف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی یہ شکست آنے والے دنوں کی کہانی سنارہی ہے۔ وفاق میں موجود حکمران جماعت کوپہلی بار گلگت بلتستان میں ایسی شکست ہوئی ہے ۔ ان کے مطابق ” پی ٹی آئی کو بھیک میں ملنے والی چند سیٹیں دھاندلی،ن سےتوڑے گئے امیدواروں کی مرہون منت ہیں۔ “

ان کا کہنا تھا کہ ” گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کا نہ پہلے کوئی وجود تھا نہ اب ہے، ریت کی یہ دیوار گرنے والی ہے۔ کٹھ پتلی کا کھیل ختم ہونے کو ہے،مریم نواز شریف نے کہا: ” اس آئینے میں اپنا چہرہ ضرور دیکھو جو گلگت بلتستان کے عوام نے تمہیں دکھایا ہے ۔ پنجاب، وفاق کی طرح سادہ اکثریت نہ ملنےکے باوجود تمہیں بیساکھیاں فراہم کرکے حکومت بنوا دی جائے گی ۔“

دوسری طرف وفاقی وزیرااطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کہہ رہے تھے کہ ” جی بی کے عوام نے ن لیگ کے بیانیے کو یکسر رد کردیا ہے۔ اور جی بی کے عوام نے وزیراعظم عمران خان کے نظریے کی صداقت پرمہرثبت کردی۔ “

سن 2015 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 24 میں سے 16 سیٹیں جیتی تھیں، اسلامی تحریک پاکستان اور مجلس وحدت المسلمین کو دو، دو جبکہ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، بلاورستان نیشنل فرنٹ اور جمعیت علمائے اسلام کو ایک ، ایک سیٹ ملی تھی۔

گلگت بلتستان میں پہلی بار یہاں عام انتخابات 2009 میں ہوئے تھے جس میں مجموعی طور پر 20 سیٹیں تھیں، جن میں سے ‌پاکستان پیپلزپارٹی نے 14 نشستیں حاصل کیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کو دو ، دو نشستیں ملیں۔ بلاورستان نیشنل فرنٹ، ایم کیو ایم کو ایک ، ایک سیٹ ملی تھی۔

حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف سادہ اکثریت کیوں حاصل نہ کرسکی؟
یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب تحریک انصاف کے کسی رہنما نہیں دیا ۔ اگر سوال پر اصرار کیا جائے تو ممکن ہے کہ وہ کہیں کہ سابقہ حکمران جماعتیں سرکاری مشینری استعمال کرتی تھیں، ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ باوجود اس کے کہ اپوزیشن جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ سرکاری مشینری کا استعمال بھی ہوا ، وفاداریاں بھی تبدیل کرائی گئیں، دھاندلی بھی ہوئی ۔

ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن غلط کہہ رہی ہو لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ لوگوں نے تحریک انصاف کو اس قدر اعتماد سے کیوں نہیں نوازا کہ وہ سادہ اکثریت حاصل کرکے تن تنہا حکومت قائم کرتی۔ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہوسکتاہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے نزدیک عمران خان اب کوئی کرشماتی شخصیت نہیں رہے۔ وہ ان کی مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکمرانی دیکھ رہے ہیں جس نے عام آدمی کی زندگی میں مشکلات ہی پیدا کی ہیں۔ انھیں عمران خان کی مرکزی حکومت سے جو توقعات تھیں وہ گزشتہ ڈھائی برسوں میں پوری نہیں ہوئیں۔ انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو توقع نہیں ہے کہ آنے والے ڈھائی برسوں میں بھی یہ توقعات پوری ہوں گی۔

یہ ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہئے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے لئے۔ اگر وہ اسے 2023 کے عام انتخابات کی ” پیش گوئی “ سمجھ لیں اور اس سے سبق حاصل کریں تو شاید اپنے اگلے ڈھائی برسوں کو بہتر بنا سکیں۔ ایسا نہ کیا تو آنے والے برسوں میں بھی عمران خان اور تحریک انصاف حکومت کی مقبولیت کی شرح‌ مزید نیچے جائے گی۔ اس تناظر میں اگلے انتخابات کے نتائج تحریک انصاف کے لئے زیادہ مایوس کن ہوں گے۔ مایوسی تو اب بھی ہوئی ہوگی کیونکہ سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکی۔

یاد رہے کہ حال ہی میں رائے عامہ ایک جائزہ سے پتہ چلا ہے کہ اگر آج پاکستان بھر میں عام انتخابات ہوں تو تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کی نسبت کم ووٹ ملیں گے۔ فوراً مڈ ٹرم انتخابات ہونے کی صورت میں سروے میں 26 فیصد افراد نے پاکستان مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کا کہا، 25 فیصد نے پاکستان تحریک انصاف، 9 فیصد نے پاکستان پیپلز پارٹی، 3 فیصد نے جمعیت علمائے اسلام، 2 فیصد نے تحریک لبیک پاکستان ، 1 فیصد نےعوامی نیشنل پارٹی ، 1 فیصد نے آل پاکستان مسلم لیگ ، 1 فیصد نے پاکستان مسلم لیگ ق جبکہ 1 فیصد نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو ووٹ دینے کا کہا۔

12 فیصد نے کہا کہ وہ کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ 8 فیصد نے کہا انہوں نے ابھی اس بارے میں فیصلہ نہیں کیا جبکہ 3 فیصد نے کہا کے وہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ کریں گے۔ 9 فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف آنے والے کل ایک جھلک ( گلگت بلتستان )سے سبق سیکھے گی؟ کیونکہ اگر تحریک انصاف نے گلگت بلتستان میں سرکاری مشینری کا استعمال کیا اور نتائج یہ نکلے تو یہ اس کے لئے نہایت تشویش ناک بات ہے، اگر سرکاری مشینری استعمال نہیں کی اور انتخابات صاف و شفاف تھے تو پھر بھی یہ تشویش ناک نتائج ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں