چینی کے برتن

کم سرمایہ سے شاندار منافع دینے والی گھریلو صنعت ، جس سے اکثر پاکستانی لا علم ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

چند روز قبل ایک بڑی اور مشہور نرسری جانا ہوا. دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ایک پورا سیکشن چینی کے بنے (سرامک) گملوں کا تھا. مزید حیرانی ان پر لگی قیمتوں کے سٹیکر دیکھ کر ہوئی چارسے پانچ انچ قطر اور پانچ سے چھ انچ اونچائی کے چینی کے گملے اور گلدان اوسطاً ایک ہزار روپے کے تھے جبکہ بڑے اور اور متنوع اور متفرق گملے پانچ ہزار سے پچیس ہزار کی قیمت کےتھے. حسب عادت ان کے نیچے لگی مہریں دیکھیں تو اندازہ ہوا کہ زیادہ تر انگلینڈ کے مصنوعہ ہیں جبکہ کچھ چین اور تھائی لینڈ کے بنے ہوئے ہیں.

اب حیرت افسوس میں تبدیل ہوگئی جس کو صاحب دکان نے یہ کہہ کر اور بھی بڑھا دیا کہ ہر ماہ کئی کنٹینر انگلینڈ، چین اور تھائی لینڈ سے صرف گملوں اور گل دانوں کے آتے ہیں. تب سے اب تک دکھ کی کیفیت ہے. عجیب لوگ ہیں ہم بھی. ایک طرف آدھا ملک بے روزگار ہے کسی کو راہ سجھائی نہیں دیتی کہ کیا سلسلہ روزگار کیا ہو. اور دوسری طرف گملے اور گلدان بھی باہر سے آتے ہیں. حالانکہ چینی کے گملے اور گلدان بنانا آملیٹ بنانے جیسا آسان کام ہے.

عام طور چینی کے برتنوں کی دو تہیں ہوتی ہیں ایک اندرونی تہہ جس کو باڈی کہتے ہیں. اور ایک بیرونی تہہ جس پر چمکدار رنگ اوربیل بوٹے وغیرہ بنے ہوتے ہیں اسے گلیز کہتے ہیں. باڈی کی نوعیت اور معیار کے لحاظ سے چینی کے برتنوں کو چار بڑی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

اول : اردن وئیر ( earthen ware)
ان کی باڈی تقریباً مٹی کے رنگ کی ہوتی ہے، اچھی قسم کی چکنی مٹی میں کچھ کیمیائی مرکبات سے بنائے جاتے ہیں ان پر رنگین گلیز چڑھایاجاتا ہے. کم قیمت فرشی ٹائلیں اور سستے برتن اردن وئیر کے بنے ہوتے ہیں.

دوم : سٹون وئیر( stone ware)
اس کی باڈی پیلاہٹ مائل سفیدی رنگ کی ہوتی ہے. یہ چائنہ کلے، سوڈا فیلڈسپار اور کوارٹرز سے بنے ہوتے ہیں. ان کی پکائی ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ پر کی جاتی ہے اور عام طور پر اس پر بھی رنگدار گلیز کیا جاتا ہے. درمیانی قیمت کے برتن اور گملے وغیرہ اسٹون وئیر کے بنائے جاتے ہیں.

سوم : پورسلین ( porcelain)
جو اعلیٰ معیار کے چینی کے برتن یا گملے وغیرہ ہوتے ہیں یہ پورسلین کے بنے ہوتے ہیں. پورسلین اعلیٰ قسم کی چائنہ کلے، پوٹاش فیلڈسپار اور کوارٹز سے بنائے جاتے ہیں. ان کی پکائی تقریباً 1200 ڈگری سینٹی گریڈ پر ہوتی ہے. ان کی باڈی کا رنگ انتہائی سفید ہوتا ہے اس لیے اس پر ٹرانسپیرنٹ یا شیشہ جیسا گلیز چڑھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کا اندرونی رنگ ہی نظر آتا ہے.

چہارم : بون چائنہ ( Bone china)
شروع میں اس کی باڈی میں جانوروں کی ہڈیوں کا کوئلہ ڈالا جاتا تھا. جو کیلشیم فاسفیٹ پر مشتمل ہوتا ہے. اس وجہ سے اس کا نام بون چائنہ رکھا گیا.بون چائنہ سے بنے برتن سب سے خوبصورت، ہلکے اور ٹرانسلوسنٹ ہوتے ہیں. ٹرانسلوسنٹ ان اشیاء کو کہتے ہیں جن سے روشنی آرپار گذر جاتی ہے.

پورسلین کے گلدان اور گملے گھروں میں خواتین بآسانی بناسکتی ہیں. گھریلو صنعت کے طور پر اس کام کو اختیار کرنے کیلئے صرف تھوڑا سا علم وہنر اور ایک چھوٹی سی بھٹی درکار ہے. باہر کے ملکوں میں پورسلین خام حالت میں با آسانی دستیاب ہوتی ہے. پاکستان میں بھی ہم نے مختلف اداروں سے درخواست کی ہے. اب یہ آپ کو خوشحال پاکستان کے پلیٹ فارم پر عنقریب دستیاب ہوگی.

اسی طرح ہم نے ایک مکعب فٹ کی چھوٹی بجلی سے چلنے والی بھٹی خاص طور پر اس کام کیلئے ڈیزائن کرکے بنوائی ہے، جس کی قیمت تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے ہوگی. ہوسکتا ہے زیادہ تعداد میں بننے پر اور بھی ارزاں ہوجائے. لاہور اور گجرات میں پاٹری انسٹیٹیوٹ موجود ہیں. ان سے گزارش کی ہے کہ دلچسپی رکھنے والے خواتین وحضرات کو ایک یا دو ہفتوں کے شارٹ کورسز کروائے جائیں. امید ہے پہلے شارٹ کورس کا انعقاد دسمبر میں کیا جائے گا. اس کی تاریخ کا اعلان خوشحال پاکستان گروپ میں کردیا جائے گا.

ایک چھوٹے گلدان یا ویز پر جس کا وزن ایک کلو کے قریب ہوگا، پورسلین، گلیز اور بجلی کس کل خرچ ڈیڑھ سو سے دوسو آئے گا جو پرچون میں ایک ہزار کا بک رہا ہے. ایک آدمی یا خاتون تجربہ حاصل کرنے کے چند گھنٹوں میں آٹھ سے بارہ گلدان بڑے آرام سے بنا سکتا ہے.

آپ تھوک میں یا آن لائن پانچ سو کا بھی بیچیں تو اندازہ کریں کہ کتنی آمدن ہوسکتی ہے. گلدان اور گملوں کے علاوہ لیمپ، ایش ٹرے اور کئی طرح کی زیبائش کی اشیاء جیسے پھول جانور پرندے وغیرہ بھی بنائے جاسکتے ہیں. مزید تخیل اور ڈیزائن انٹرنیٹ سے حاصل کیے جاسکتے ہیں.

ترکوں کی بلیو آرٹ پاٹری کا دنیا میں بڑا شہرہ ہے. ایران کا شہر اصفہان بلیو پاٹری کا گڑھ ہے وہاں ہزاروں لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں دنیا بھر میں گلدان اور برتن بنا کر بھیجتے ہیں. ادھر بھارت کے صوبہ راجستھان میں بھی باقاعدہ بلیو آرٹ پاٹری کے انسٹیٹیوٹ اور صنعت باقاعدہ منصوبہ بندی سے قَئم کی گئی ہے. وہ بھی دنیا بھر میں زیبائش کی اشیاء بھیجتے ہیں.

ملتان میں بھی سرکار نے اس کا انسٹیٹیوٹ بنا رکھا ہے. لیکن نہیں معلوم ہم نے اس کو صنعت کے طور پر کیوں نہیں لیا حالانکہ یورپ اور امریکہ میں اس کی بڑی مانگ ہے. آپ سے گزارش ہے کہ آپ تھوڑی ہمت کرکے اس کا کام سیکھیں. بیل بوٹے بنانا سیکھیں. باڈی اور گلیز تیار فراہم کرنا ’ خوشحال پاکستان ‘ کے ذمہ رہا. آپ دو تین لوگ مل کر بھی ایک چھوٹی فرنس خرید لیں تو مجھے یقین ہے کہ بہت سے بی اے، ایم اے نوکری پیشہ بابوؤں سے زیادہ کمائیں گے. فارغ بیٹھ کر اچھے وقت کا انتظار کرنے سے بہتر
آئیں ہنر سیکھتے ہیں،
آئیں کام کرتے ہیں.
آئیں خوشحال ہوتے ہیں.

( مذکورہ بالا گھریلو صنعت کے حوالے سے آپ کو آنے والے دنوں میں بادبان ڈاٹ کام پر مزید معلومات فراہم کی جائیں گی )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں