ایک باحجاب خاتون لاک ڈائون میں

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( دوسری قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( قسط اول )

خنساء کو ایام گزشتہ کی ایک اور دلچسپ بات یاد آ رہی تھی۔
کورونا تعطیلات کے ایام میں ان کے گھر ایک سادہ مزاج واقف کارعورت کسی ضروری کام سے آئی ہوئی تھی۔ باتوں باتوں میں وہ خنساء کی امی جان سے کہنے لگی کہ ” باجی ! میں کورونا ویرس دی تصویراں ویکھیاں نے۔ او تے اڈا وڈا ہوندا ہے کہ مینوں سمجھ نہیں لگ دی کہ او منہ دے اندر داخل کیویں ہو جاندا اے؟ “

( میں نے کورونا وائرس کی تصویریں دیکھی ہیں۔ وہ تو اتنا بڑا ہوتا ہے کہ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ وہ منہ کے اندر کس طرح داخل ہو جاتا ہے؟)

امی جان کھل مسکرائی تھیں اور بچے منہ چھپا کر ہنسنے لگے تھے۔ خاتون کے جانے کے بعد بچوں نے دل کھول کر قہقہے لگائے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانا کھاتے ہوئے خنساء کو یاد آ رہا تھا۔

کورونا کی سابقہ چھٹیوں میں ایک دن امی جان نے بچوں کی فرمائش پر چکن بریانی، رائتہ، سلاد اور شامی کباب بنائے تھے تو پہلے ایک ٹرے میں اچھے طریقے سے سارا کھانا ڈال کر عابد سے کہا تھا کہ
” آپ دادی جان کے گھر کھانا دے آئیں۔ پہلے آپ انہیں سلام کرنا اور اچھے طریقے سےان کا حال پوچھنا۔ پھر کہنا کہ امی جان نے سلام کہلوایا ہے اور یہ کھانا بھجوایا ہے۔“
انہوں نے عابد کو ہدایات دے کر ٹرے اس کے ہاتھوں میں تھما دی تھی۔

یہ ان کی عادت تھی کہ جب بھی وہ عام روٹین سے ہٹ کر اہتمام سے کوئی کھانا بناتیں تو دادی جان کو ضرور بھجواتی تھیں۔
پھرانہوں نے انیسہ کو بلایا اور اس کے ہاتھ میں بڑے دھیان سے پلیٹیں تھمائیں۔

” جائیں بیٹی! احتیاط سے ہمسائے میں تائی جان کو بھی بریانی دے آئیں۔“ انہوں نے پیار سے بچی سے کہا تھا۔
” نہیں، نہیں۔ میں نے نہیں جانا۔ مجھے ’ راستے ‘ میں کورونا وائرس گولی مار دے گا۔“

چھوٹی بچی نے ڈرتے ہوئے جانے سے انکار کردیا تھا۔ سب ہنسنے لگے تھے۔ پھر خالد تائی جان کے گھر بریانی دے کر آیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خنساء اور اس کے بہن بھائیوں کو ابو جان نے فیس بک کی ایک پوسٹ پڑھ کر سنائی تھی جسے سن کر ہنس ہنس کر ان کے پیٹ میں بل پڑ گئے تھے۔ پوسٹ اس طرح تھی۔

آن لائن کلاس کے ایک ٹیچر نے بچوں کو کورونا وائرس کی بیماری پر ایک مضمون لکھنے کو کہا۔ ایک بچے نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی زندگی کا تجربہ استاد کے پیش نظر کیا۔

” کورونا چائنا میں منایا جانے والا ایک بہت بڑا تہوار ہے جسے بوڑھے، جوان اور بچے سب بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ساری دنیا اس تہوار کو پسند کرتی ہے اور بڑے اہتمام سے مناتی ہے۔ اس تہوار کے دوران سکول، مارکیٹ، چرچ سب بند کر دیے جاتے ہیں حتیٰ کہ امتحانات بھی منسوخ ہو جاتے ہیں۔ اس تہوار کی ایک خاص نشانی یہ ہے اس میں لوگ اپنا منہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں ہوتے، اس ليے اسے چھپا کر رکھتے ہیں۔ بچوں کو خاص طور پر والدین سمارٹ فون تحفے میں دیتے ہیں۔

اس دوران ڈیڈی لوگ کچن کا سارا کام سنبھالتے ہیں، کھانا بنانا، برتن صاف کرنا سب ان کے ذمہ ہوتا ہے۔ جب کہ عورتیں اور بچے دن رات اپنے اپنے فون اور لیپ ٹاپ میں کھوئے رہتے ہیں۔
دنیا کے سارے بچے کورونا کو بہت پسند کرتے ہیں۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس قسم کے چھوٹے موٹے چٹکلوں کے درمیان دن گزرتے رہے تھے لیکن خنساء کا دل جیسے بے چین سا رہتا تھا۔ گھر میں اس کی پڑھائی نسبتاً بہتر طریقے سے جاری تھی۔ زندگی کافی حد تک طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق گزر رہی تھی لیکن اسے اپنی اور باقی طالب علموں کی سکول کی باقاعدہ تعلیم کی فکر رہتی تھی۔ والدین انہیں وقتاً فوقتاً سمجھاتے بھی رہتے تھے۔ خنساء کو وقت کا ضیاع کرنے والے طلث پر افسوس بھی رہتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خنساء کو امریکا میں مقیم اپنی چھوٹی پیاری خالہ جان اور ان کے اہل خانہ کی کورونا کی نہایت سیریس قسم کی بیماری کے بارے میں یاد آیا تو وہ ایک دفعہ پھر افسردہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوفزدہ بھی ہوگئی۔
کورونا تعطیلات کے آغاز میں ہی خالہ جان اور ان کے اہل خانہ کی کورونا وائرس کی بیماری کی پریشان کن خبر آگئی تھی۔

” آپ کے ڈاکٹر خالوجان کورونا بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں جو امریکا میں رہائش پذیر تھے۔ انہیں یہ بیماری ہسپتال میں اپنے ایک ڈاکٹر کولیگ سے لگی تھی۔“
ابو جان نے واٹس ایپ گروپ میں ان کی بیماری کے بارے میں پڑھا اور صوتی پیغامات (voice messages) میں سنا تو گھر والوں کو آگاہ کیا۔

” اب آپ کے چاروں خالہ زاد بہن بھائی بھی باری باری کورونا بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔“ چند بعد ابوجان نے انہیں بتایا تھا۔
بچے مزید پریشان ہو گئے تھے۔

” اب بالآخر آپ کی خالہ جان بھی کورونا وائرس کی بیماری کی لپیٹ میں آگئی ہیں۔“ ابو جان اب ہر روز بچوں کو ان کی خالہ جان کی فیملی کی تازہ صورتحال سے آگاہ کرتے تھے۔ بچے خود بھی پوچھتے رہتے تھے۔

” پیارے بچو! سب ان کی صحت یابی کے لیے دل لگا کر خوب دعائیں کیا کریں۔“ والدہ بچوں کو نصیحت کرتی رہتی تھیں۔

تقریباً دو دو ہفتوں کی بیماری بھگت کر، خالہ جان، خالو جان اور ان کے چاروں بچے صحت یاب ہوگئے۔ بیماری کے دوران بچے خالہ جان سے واٹس ایپ پر مختصر تحریری یا صوتی پیغامات کے ذریعے حالات سے آگاہ رہتے تھے لیکن ان کی صحت یابی کے بعد خنساء وغیرہ نے خالہ جان اور ان کے بچوں کو انٹرنیٹ پر ایک طویل کانفرنس کال کرکے ان سے ساری صورتحال دریافت کی تھی۔ اور ذہن میں موجود مختلف سوالات کے جوابات حاصل کر کے کورونا بیماری کے علاج کے بارے میں اپنے تصورات واضح کیے تھے۔

خالہ جان نے بیماری کے دوران اپنے علاج اور خوراک وغیرہ کے بارے میں ان کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہیں بتایا تھا کہ

” علاج کے بارے میں ڈاکٹر فیملی ہونے کے باوجود، ہم بنیادی طور پر قدرتی اشیاء اور دیسی ٹوٹکے استعمال کرتے رہے ہیں اور پھر جہاں ادویات استعمال کرنے کی ضرورت تھی، وہاں ہم وہ بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ مثلاً قدرتی چیزوں میں شہد، کلونجی، روغن زیتون، ڈرائی فروٹس خصوصاً بادام اور کاجو (nuts) وغیرہ، یخنی، قہوہ خصوصاً کلونجی کا قہوہ یا کلونجی کی چائے، اورنج جوس، فروٹس میں خصوصاً مالٹے اور سیب وغیرہ۔
اس کے علاوہ نیم گرم پانی مستقل استعمال کرنا، سٹیم (بھاپ) لینا، غرارے کرنا وغیرہ۔ ان چیزوں اور کاموں نے ہمیں بہت فائدہ پہنچایا۔“ انہوں نے قدرتی اشیاء اور دیسی ٹوٹکوں کی اہمیت واضح کی تھی۔

” خالہ جان! کیا آپ لوگوں نے کوئی دوائی استعمال نہیں کی تھی؟ کیا آپ کو ڈاکٹر کے علاج کے بغیر آرام آگیا تھا؟“ خنساء نے سوال پوچھا۔

” نہیں۔ جسمانی دردوں کے لیے ہم پیراسیٹا مول اور پیناڈال ٹیبلیٹس استعمال کرتے رہے۔ پھر ہمیں وٹامن سی کی ٹیبلٹس وغیرہ کے علاوہ اینٹی بائیوٹک ادویات مثلاً ازتھرو مائسین (پانچ روزہ مکمل کورس کرنے کے لیے) بھی استعمال کرنے کی ضرورت پڑی اور اور ہم نے اس کا کورس مکمل کیا جس نے ہمیں اس بیماری میں کافی فائدہ پہنچایا۔“ خالہ جان نے تسلی سے جواب دیا۔

” اس کے علاوہ جب ہمیں کھانسی آتی تو قریبی ایریا میں سپرے کی بوتل سے سپرے بھی کرتے تھے تاکہ اگر کھانسنے کی وجہ سے جراثیم کا اخراج ہوا ہو تو ان کا خاتمہ ہو سکے۔“ انہوں نے ایک اور اہم بات کی طرف ان کی توجہ دلائی تھی۔

خالہ جان نے دیار غیر میں یہ مشکل وقت ” قرنطینہ“ (Quarantine) میں بڑے حوصلے اور صبر وتحمل سے گزارا تھا جب ان کے شوہر اور بچے بیماری میں مبتلا تھے اور پھر وہ خود بھی بیمار ہو گئی تھیں۔

” آپ لوگ ہسپتال میں داخل کیوں نہیں ہوئے تھے؟ گھر میں کیوں رہے تھے؟“ اب شمسہ نے پوچھا تھا۔
” ہسپتال میں داخل ہونے کے بجائے ہم نے اپنے گھر کے مختلف کمرے ” قرنطینہ سینٹرز“ میں تبدیل کر دیے تھے۔ اور ایک مریض صرف ایک کمرے تک محدود رہتا تھا۔ یہ ہسپتال جا کر وہاں داخل ہونے سے بہت بہتر تھا۔“ خالہ جان نے جواب دیا تھا۔

” پاکستان میں تو کورونا مریض کے گھر والوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا آپ کی بیماری سے اردگرد کے ہمسائے پریشان نہیں ہوئے تھے؟“ امی جان نے پوچھا۔

” نہیں۔ وہاں ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا زیادہ رواج نہیں ہے۔ اگر کہیں جائیں تو پہلے فون پر بتا کر یا اجازت لے کر جاتے ہیں۔ اور کورونا وائرس کے مریضوں سے تو سب احتیاط برتتے ہیں۔ لہٰذا اس عرصے میں کوئی بھی ہمارا حال پوچھنے ہمارے گھر نہیں آیا تھا۔ تاہم دوست احباب موبائل یا انٹرنیٹ پر رابطہ کرکےحال احوال دریافت کرلیتے تھے۔ ’ قرنطینہ ‘ میں ہم گھر کے افراد ایک دوسرے سے علیحدہ تھے۔“ انہوں نے امریکی تہذیب کی صورت حال بیان کی تھی۔

” ہمیں تو آپ کی باتیں سن کر بڑا ڈر لگ رہا ہے۔“ عابد بولا تھا۔

” پہلے سب لوگوں کی طرح ہمیں بھی کورونا وائرس سے بڑا ڈر لگتا تھا لیکن اب ہمارا سارا ڈر ختم ہو گیا ہے۔“ انہوں نے بتایا تھا۔

” ہم پہلے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے رہے تھے لیکن اب ہم نے حوصلے سے اس کا سامنا کیاہے۔ ہم نے اچھی طرح جان لیا ہے کہ ’ حفاظت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے۔ البتہ اپنی طرف سے احتیاطی تدابیر اور علاج معالجہ میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔“ انہوں نے ایک اور اہم بات کا اضافہ کیا تھا۔
اس واقعے سے بچوں کے ایمان اور توکل میں اضافہ ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعلیمی اداروں میں کورونا تعطیلات بڑھا کر پہلے 31 مئی اور پھر 3 اگست تک کردی گئی تھیں۔ یعنی اب تعلیمی ادارے رمضان المبارک اور عید الفطر کے بعد کھلنے تھے۔ طلباء کو تعلیمی اداروں سے گرمیوں کی چھٹیوں کا کام مل گیا تھا۔

دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں ڈھل رہے تھے لیکن خنساء کو لگتا تھا کہ شاید وقت ٹھہر گیا تھا۔ وہ اب کافی اداس اداس سی رہنے لگی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ لوگ اب پہلے کی طرح سکول جایا کریں۔ وہ اپنی اساتذہ اور سہیلیوں سے بھی اداس تھی۔

سب لوگ ابھی تک گھروں میں تقریباً الگ تھلگ (آئیسو لیٹ) تھے۔ اس کے باقی بہن بھائیوں کی بھی تقریباً یہی صورتحال تھی۔ سب بہانے بہانے سے اپنے تعلیمی اداروں، اساتذہ اور دوستوں کو یاد کرتے رہتے تھے۔ اور وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو بھی یہ باتیں یاد دلاتے تھے۔اور یاد کرکے کبھی خوش اور کبھی اداس ہوتے تھے۔ اب یہ اداسی بہن بھائیوں کی لڑائی جھگڑوں کی شکل میں نکلنا شروع ہو گئی تھی۔

جیسے جیسے رمضان المبارک کے ایام قریب آرہے تھے، خنساء اور اس کے بہن بھائی تھوڑے تھوڑے پریشان ہورہے تھے۔

” اس سال رمضان اس قسم کے حالات میں آرہا ہے کہ دلوں کو خوشی کے بجائے پریشانی لاحق ہے۔“ خالد بولا تھا۔
” حالات کے مطابق جیسے ممکن ہوا، ہم رمضان المبارک ان شاءاللہ بہترین طریقے سے گزاریں گے۔ روزے رکھیں گے، نمازیں پڑھیں گے، صدقہ و خیرات کریں گے، چند مسکین روزہ داروں کی مدد کریں گے، گھر میں حافظ خالد بیٹے کے پیچھے نماز تراویح ادا کریں گے۔ اور دیگر نیکیاں کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیوں بچوں! ٹھیک ہے نا! پروگرام پسند آیا ہے؟“ ابو جان نے انہیں سمجھایا اور پھر پوچھا تھا۔

” جی۔ پسند آیا ہے۔“ بچے یک زبان ہو کر بولے تھے۔
بچے یہ پلان سن کر خوش ہو گئے تھے اور ان کی مفت کی فکریں ختم ہو گئی تھیں۔ پھر ابو جان نے رمضان المبارک گزارنے کے لیے دوتین دن پہلے انہیں تحریری منصوبہ بندی کروادی تھی تاکہ ان کے دل مطمئن ہو جائیں۔ واقعی اس کام سے بچے پرسکون ہو گئے تھے۔ اور رمضان میں کافی حد تک اس منصوبہ بندی کے مطابق عمل کرتے رہے تھے۔

اس کا انہیں بہت فائدہ ہوا تھا اور ان کا رمضان کافی اچھا گزرگیا تھا بلکہ تعطیلات کی وجہ سے والدین کی نگرانی اور نرمی و گرمی میں رمضان کی روٹین اور عبادت بھی بہتر رہی۔ عید الفطر دبے قدموں آئی تھی اور گھر کے اندر ” بھی“ اچھی گزر گئی تھی۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں