خواتین نماز عید پڑھ رہی ہیں

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( تیسری قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( پہلی قسط )

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( دوسری قسط )

کورونا کی تعطیلات اب بوریت سے گزر رہی تھیں۔ گزرتے شب و روز کے ساتھ کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافے کی خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ عید الفطر کے موقع پر احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کورونا کے پھیلاؤ کا مسئلہ کافی بڑھ گیا تھا۔

” کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے کیسز کی تعداد کے لحاظ سے اقوام عالم کے 213 ممالک میں سے پاکستان اب پانچویں نمبر پر آنے والا ملک بن چکا ہے۔ اور اموات کے لحاظ سے یہ اب پندرہویں نمبر کی رینکنگ پر ہے۔ یعنی یہ بیماری کے پھیلاؤ میں کافی ” ترقی “ کرچکا ہے اور اب پاکستان میں کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلتا چلا جا رہا ہے۔“ ابو جان عید الفطر کے چند روز بعد صورت حال بیان کر رہے تھے۔

خنساء قیلولہ (دوپہر کو سونا) کرکے اٹھی تو نمازِ عصر کی ادائیگی کرکے ہوم ورک کرنے بیٹھ گئی۔ مغرب سے کچھ دیر پہلے اچانک گھر سے باہر سڑک پر شور اٹھا۔ گھر کے باہر سے ایمبولینس گاڑی گزر رہی تھی اور اس کے سائرن کی آواز آ رہی تھی۔ لوگ شور مچا رہے تھے اور اونچی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔

” کیا ہوا ہے؟ “ پوری توجہ سے ہوم ورک کرتی خنساء نے ہڑبڑا کر سر اٹھایا تو بے ساختہ عابد بھائی سے پوچھ ڈالا جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
” آج ہماری اسٹریٹ میں بھی کرونا وائرس کے مریض کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اور اسے گاڑی لینے آ گئی ہے۔“ عابد بھائی بولے تھے۔

باہر سے آنے والی بھانت بھانت کی بولیوں میں سے ایک دو بلند آوازوں سے انہیں معاملے کا مزید کچھ اندازہ ہوا۔
ابھی ایمبولنس ’ ممکنہ مریض‘ کے گھر کے سامنے موجود تھی اور مریض کو گاڑی میں بٹھایا جارہا تھا جب ایک چست و چالاک نوجوان نے اس کی ویڈیو بنا ڈالی تھی اور انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردی تھی اور لوگوں نے دیکھنی شروع کردی تھی اور پھر مقامی احباب کو فون کرکے حقیقت معلوم کرنے کے لیے رابطے کرنے شروع کر دیےتھے۔

” کسی جلد باز اور ہوشیار بندے نے اس ’ موقع واردات ‘ کی ویڈیو بنالی تھی اور اسے فیس بک پر فوراً اپ لوڈ بھی کر دیا تھا۔“ ابو جان نے بتایا۔

” میرے ایک دوست نے یہ ویڈیو مجھے دوسرے شہر سے فارورڈ کی ہے اور ساتھ مجھے فون بھی کر دیا ہے۔“ انہوں نے بتایا تھا تو بچے بڑے سب متجسس ہو کر ویڈیو دیکھنے لگے تھے۔

” آپ کی گلی میں بھی ایک کورونا مریض موجود ہے۔ کیا آپ نے وہ ویڈیو دیکھی ہے؟“ ان کے دوست نے ان سے فون پر پوچھا۔
” نہیں۔ ابھی مجھے اس کا علم نہیں۔“ انہوں نے جواب دیا۔

پھر فون بند کرنے کے بعد انہوں نے گلی میں دیکھا تو انہیں صورت حال کا علم ہوا ۔
” ہمارے علاقے میں کورونا مریض کا جو کیس سامنے آیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت اصلی کیس نہیں ہے بلکہ مریض نے خود بنانے کی کوشش کی ہے۔“ ابو جان نے صورت حال واضح کی۔

خنساء کو اچھی طرح یاد تھا کہ
اگر اس وقت کرونا کا کوئی حقیقی مریض ” دریافت “ ہوجاتا اور اس کا کورونا ٹیسٹ پوزیٹیو ثابت ہوجاتا تو نہ صرف اس کا گھر بلکہ اس کے اردگرد کا علاقہ بھی سیل کردیا جاتا تھا۔ سارے علاقے میں دہشت پھیل جاتی تھی۔ لوگ خوف سے اس گھر کے قریب بلکہ گلی سے بھی گزرنا چھوڑ دیتے تھے۔

اس نہاد کورونا مریض کو دراصل نزلہ، زکام اور ٹائیفائیڈ بخار تھا۔
” مجھے کورونا وائرس کی بیماری لگ گئی ہے۔“ اس نے خود ہی علاقے کے مختلف ذمہ دار لوگوں سے رابطے کر کے انہیں بتایا ۔

” ڈاکٹر صاحب! میرا تسلی سے چیک اپ کریں۔“ وہ ڈاکٹر کے پاس اپنا چیک اپ کروانے گیا تھا تو ڈاکٹر کو بڑی تاکید سے کہا تھا۔

” آپ کو معمولی نزلہ و زکام ہے۔ ٹائفائیڈ بخار کا کیس ہے۔ کورونا کیس والی کوئی بات نہیں ہے، اس لیے آپ پریشان نہ ہوں۔ صحیح طریقے سے اپنی اینٹی بائیوٹک دوائیوں کا کورس مکمل کریں، خوراک کا خیال کریں اور مکمل آرام کریں۔ آٹھ دس گھنٹوں کی نیند لیں۔آپ نوجوان ہیں اور آپ کی قوت مدافعت بہتر ہے۔ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ ان شاءاللہ۔“
ڈاکٹر نے اسے بیماری کی حقیقت بتائی تھی اور ہدایات بھی دیں۔

” ڈاکٹر صاحب! کیا واقعی مجھے کورونا وائرس کی بیماری کا تھوڑا سا بھی مسئلہ نہیں ہے۔“ مریض نے یہ سن کر بڑی مایوسی سے پوچھا۔
” نہیں۔ بالکل نہیں۔“ ڈاکٹر صاحب نے اسے حیران ہو کر دیکھا تھا اور اسے پورا یقین دلایا ۔

” اس مریض کے خیال میں تو اس کا کورونا مریض ہونا ایک ’ دھماکہ خیز‘ قسم کی بہت بڑی خبر ہے جو جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل جانی چاہیے لیکن یہاں تو کوئی اسے کورونا مریض ماننے کے لیے ہی تیار نہیں تھا۔“ ابو جان ہنستے ہوئے بتا رہے تھے۔

” لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اس نے ریسکیو والوں کو خود فون کرکے کہا کہ وہ کورونا کا مریض ہے اور وہ اسے آ کر لے جائیں۔“ عابد بھائی نے بتایا۔
” درحقیقت یہ وہی بات تھی کہ اس بندے نے یہ سوچا تھا کہ
” بدنام اگر ہوں گے، تو کیا نام نہ ہوگا؟“

ویسے تو تعلیم یا اچھے کاموں کے ذریعے شہرت حاصل کرنا مشکل کام ہے لیکن اس وبائی مرض کے بہانے اگر وہ مشہور ہو جائے اور اسے بیٹھے بٹھائے شہرت مل جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ “ ابو جان نے صرف لوگوں کی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے متعلقہ لوگوں سے مل کر حقیقت معلوم کرکے اپنے اہل خانہ کو بتایا ۔

” اب اس کی مرضی کے مطابق اسے کورونا مریض بنا کر لے جایا جا چکا ہے۔“ امی جان بھی ہنستے ہوئے بولیں۔

مجھے پولیس کسٹڈی میں ڈی۔ ایچ۔ کیو (D.H.Q) میں لے جایا گیا تھا جہاں کورونا مریضوں کے لیے قرنطینہ سنٹر قائم تھا۔ مجھے وہاں داخل کردیا گیا تھا اور احتیاطی تدابیر پر درآمد شروع کروا دیا گیا تھا۔“ شوقیہ مریض نے بعد میں بتایا تھا۔

ابھی اس کا ٹیسٹ ہونا تھا اور اس کے نتیجے کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کیا جانا تھا۔ پہلے اس کے پاؤں میں توگویا سپرنگ لگے ہوتے تھے اور وہ ادھر ادھر پھرتا رہتا تھا۔

” میں تو اچھا بھلا چلتے پھرتے رہنے والا انسان تھا۔ میں نے اپنی طرف سے اس سنجیدہ بیماری کو بس شغل میلہ سمجھا تھا۔ میں بھلا کب اتنا ٹک کر ایک جگہ بیٹھ سکتا ہوں؟“ اس نے بعد میں جلے دل کے پھپھولے پھوڑے تھے۔

” مجھے کیا معلوم تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لیے کتنی سختیاں اور احتیاطی تدابیر ہوتی ہیں؟“ اس نے مزید بتایا ۔ اس کو بھول گیا تھا کہ وہ کتنی مشکل سے، کتنے حیلے بہانے کرکے یہاں پہنچا تھا۔

” میں ہسپتال سے جان چھڑانا چاہتا تھا کیونکہ وہاں پر الگ تھلگ رہ کر میں تھک چکا تھا اور اس بیماری والے ماحول سے تنگ آچکا تھا۔ مگر ہسپتال سے چھٹکارے کی صورت آسان نہ تھی۔ پورے 14 دن کے ” قرنطینہ “ کے بعد مجھے دوبارہ ٹیسٹ وغیرہ کر کے ہسپتال سے فارغ کیا گیا تھا۔“ وہ لوگوں کو اپنے اوپر بیتی داستان سناتا تھا تو لوگ ہنستے تھے۔

وہ اپنے علاقے میں واپس آیا تھا تو لوگوں نے اس کا پرجوش استقبال کیا اور اس کا حال احوال دریافت کیا ۔ وہ خوش ہوتا اور جوش و خروش سے انہیں ” قرنطینہ سنٹر “ کے احوال سناتا اور اپنی بےبسی بیان کرتا تھا۔

” استغفر اللہ! زندگی کے اتنے زیادہ بور اور مشکل دن میں نے کبھی ایک جگہ بند ہوکر نہیں گزارے تھے۔“ وہ دوست احباب اور میل ملاپ والے سب لوگوں کو بتاتا۔

” بھائی! اب کورونا مریض بننے کا شوق پورا ہوگیا ہے یا ابھی دوبارہ بھی ارادہ ہے؟“ لوگ اس کا مذاق اڑاتے اور وہ خود بھی ان کے ساتھ ہنستا ۔

” نہیں، نہیں۔ بس ایک دفعہ ہی کافی ہے۔ اللہ اس بیماری سے مجھے اور سب کو بچائے رکھے۔“ وہ سمجھ دار بن کر کہتا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا تعطیلات کے دوران عید الفطر گزری تھی اور پھر عشرہ ذی الحجہ اور عید الاضحیٰ کے ایام بھی قریب آ گئے تھے۔
” ابو جان! ہمارا بکرا کب آئے گا؟“ سات سالہ ساجد نے ابو جان سے پوچھا ۔
” ہماری گلی میں منصور انکل نے کئی دن پہلے سے بکرا خریدا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر ہمارا دل کرتا ہے کہ ہمارا بکرا بھی آجائے۔ آپ بھی جلدی سے بکرا خرید لائیں۔“ خالد نے ابو جان سے فرمائش کی جسے بہن بھائیوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ عیدالاضحیٰ سے تقریباًبیس بائیس دن پہلے بچے ابو سے ضد کررہے تھے۔

” ابھی تو قربانی میں کافی دن باقی ہیں۔“ ابو ابھی اتنی جلدی بکرا لانا نہیں چاہتے تھے۔
” آج کل تو ہمیں کورونا بیماری کی وجہ سے چھٹیاں ہیں اور ہم سارا وقت گھر میں ہوتے ہیں۔ تو ہم خود اس کی دیکھ بھال کریں گے اور آپ کو اس کی فکر نہیں کرنی پڑے گی۔“ انہوں نے ابو کو بکرا جلد خریدنے پر بالآخر رضامند کرلیا تھا۔

” ابو جان! بکرا براؤن رنگ کا بڑا سارا اور موٹا تازہ ہو۔“ چھوٹے ساجد نے ابو کے سامنے فرمائشی پروگرام جاری کیا اور سب نے اس کی تائید کی ۔

چنانچہ اگلے روز ابو جان بڑے بیٹے عابد کو ساتھ لے کر منڈی مویشاں سے کافی دیر تک پھر پھرا کر بچوں کی مرضی کا براؤن رنگ کا بکرا لے آئے تھے جو قد میں تو اونچا تھا لیکن اتنا موٹا تازہ نہ تھا۔ بچوں نے بکرا دیکھا تھا تو انہیں بکرا پسند تو آیا تھا لیکن اس کی درمیانی سی صحت کی وجہ سے وہ اتنے خوش نہ ہوئے۔

” ہم نے تین چار گھنٹے کی محنت اور مشقت کے بعد یہ بکرا خریدا ہے!“ عابد نے انھیں بتایا تو پھر انہیں اس کی قدر ہوئی تھی۔
” کوئی بات نہیں۔ ہم خود اسے کھلا پلا کر موٹا تازہ کر لیں گے۔ ابھی عید کے آنے میں کافی دن باقی ہیں۔“ خالد نے انہیں حوصلہ دیا تھا۔

اتنے میں امی جان بکرے کو دیکھنے باہر صحن میں آگئی تھیں۔ انہوں نے بکرے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور اس کے جسم پر تھپکی دی ۔ پھر سب بچوں نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے پیار سے بکرے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے جسم پر تھپکیاں دیں۔ پھر اسے چلا پھرا کر دیکھا اور صحن کے ایک طرف اسے باندھ دیا ۔ اس کے لیے چارہ اور پانی کا بندوبست کیا ۔

بچے اب دن رات اس کی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔ ابو جان کو اس سلسلے میں کوئی خاص فکر نہیں کرنی پڑتی تھی۔ عابد وغیرہ خود ہی بکرے کو چارہ، پتے، کھل، چنے، گندم وغیرہ لا کر ڈالتے تھے اور شام کو اسے گھمانے پھرانے کے لیے لے جاتے تھے۔ صبح اسے نہار منہ پانی میں آٹا ملا کر آٹےکا مشروب پلاتے تھے۔

بکرا بھی ان سے خوب مانوس ہو گیا تھا۔ وہ ان کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور خوب ” میں میں“ کرتا۔ ان کی ” ٹہل سیوا“ سے اس کی صحت مسلسل بہتر ہو رہی تھی۔ بکرے کی جگہ اور اس کی گندگی وغیرہ بھی وہ کبھی کبھار صاف کر دیتے تھے تاکہ امی جان کو شکایت کا زیادہ موقع نہ ملے۔

” ابو جان! آپ ہمارے اتنے پیارے بکرے کو کیوں ذبح کر دیں گے؟ یہ تو جیسے ہمارے گھر کا ایک فرد بن گیا ہے۔ ہمارے ساتھ خوش رہتا ہے اور ہمارے بغیر اداس ہو جاتا ہے۔ ہم بھی اس کے ساتھ خوش رہتے ہیں اور اس کے بغیر اس کی فکر میں رہتے ہیں۔“ چھوٹے ساجد نے عید سے دو دن پہلے اداسی سے سوال کیا۔

ابو جان نے سب بچوں کو بٹھا کر عشرہ ذی الحجہ کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بتایا ۔ تکبیرات پڑھنے کی اہمیت اور ثواب بیان کیا ۔ اس کے علاوہ ان کو قربانی کا مقصد اور فلسفہ بھی سمجھایا ۔

” ہم قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ چونکہ انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنی سب سے قیمتی چیز، اپنے پیارے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا تھا۔“ ابو جان نے قربانی کے بارے میں بتایا۔

” کیا حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو ذبح کر دیا تھا؟“ پانچ سالہ انیسہ نے انتہائی حیرانی سے پوچھا ۔
” ابو تو بچوں سے اتنا پیار کرتے ہیں۔ بھلا کوئی ابو اپنے بچے کو ذبح کر سکتے ہیں؟“ ساجد نے بھی تعجب کا اظہار کیا ۔

” جی ہاں۔ انہوں نے اسے زمین پر لٹا کر اس کی گردن پہ چھری پھیر دی تھی جیسے ہم جانوروں کو زمین پر لٹا کر ذبح کرتے ہیں تو انہوں نے اپنے بیٹے کو ذبح کر دیا تھا۔ کیونکہ یہ اللہ کا حکم تھا۔ اللہ رب العزت نے ان کی یہ قربانی قبول فرمائی اور پلک جھپکتے میں فرشتوں کے سردار حضرت جبریل امین کے ہاتھ مینڈھا (دنبہ) بھیج دیا تھا۔“ ابو جان نے بتایا۔

” کتنی عجیب بات ہے!“ ساجد اور انیسہ کے منہ سے مارے حیرت کے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
” چھری حضرت اسماعیل کی گردن پر چلنے کے بجائے مینڈھے کی گردن پر چل گئی تھی۔“ ساجد بمشکل بولا ۔
” اللہ تعالیٰ نے دنبہ بھیج دیا تھا۔ اور وہ بھی آسمان سے!“ انیسہ ابھی تک حیرت زدہ تھی۔
” جی ہاں! حضرت اسماعیل کی جگہ آسمان سے دنبہ آیا تھا جسےحضرت ابراہیم نے ذبح کیا تھا۔“ ابو جان ان کی حیرت پر مسکرا دیے ۔

” قربانی اس بات کی تجدید ہے کہ ہم اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ ’ اللہ تعالی!ٰ آپ کا حکم ہے کہ ہم جانور قربان کریں تو ہم جانور قربان کر دیتے ہیں۔ اگر آپ نے ہم سے بیٹوں جیسی قیمتی چیز مانگی تو ہم وہ بھی قربان کر دیں گے۔“ ابو جان نے ان کی ذہن سازی کرتے ہوئے قربانی کے مقصد کو واضح کیا ۔

” اگر اللہ ہمیں حکم دے کہ بکرے کی جگہ عابد، خالد یا ساجد کو قربان کردیں تو پھر کیا ہمارے لیے یہ آسان ہوگا؟“ ابو جان نے سوال پوچھا ۔
” نہیں نہیں۔ یہ تو بڑا مشکل ہے۔“ بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر بیک زبان بولے ۔
” ٹھیک ہے۔ پھر کیا ہم بکرے کو ذبح کردیں؟ کیوں ساجد؟“ ابو جان نے ساجد کو مخاطب کیا تھا۔
” جی جی بالکل۔ بکرے کو ہی ذبح کر دیں۔“ بچوں نے شدومد سے سر ہلایا۔

” کیا ہم آپی خنسہ، آپی شمسہ یا انیسہ کو ذبح کر سکتے ہیں؟“ ساجد نے نجانے کیا سوچ کر پوچھا تھا۔ شاید اس کے ذہن میں یہ بات آ گئی تھی کہ اگر لڑکے کو ذبح نہیں کیا جاسکتا تو شاید لڑکی کو ذبح کیا جا سکتا ہے۔
اس بات پر بچے ہنسنے لگے تھے۔ لیکن خنساء اور شمسہ نے گھور کر ساجد کو دیکھا تھا۔ چھوٹی انیسہ تو رونے والی ہوگئی تھی۔

” نہیں بیٹا! اگر ہم آپ کو ذبح نہیں کر سکتے تو ہم بیٹیوں کو بھی ذبح نہیں کر سکتے؟ اللہ تعالی نے بیٹے اور بیٹیوں میں فرق نہیں رکھا۔“ ابو جان نے بھی ہنستے ہوئے اسے سمجھایا۔

” پھر ہم جانوروں کی بھی قربانی کیوں کرتے ہیں؟“ خالد نے پوچھا۔
” اللہ تعالیٰ کو ان (قربانیوں) کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ہی خون پہنچتا ہے۔ بلکہ اللہ کو دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔“ (سورۃ الحج:37) ابو جان نے قرآنی آیت کا ترجمہ بیان کیا۔

” قربانی کا گوشت لوگ کھالیتے ہیں اور خون بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ دلوں کےتقویٰ سے مراد نیتوں کا خالص ہونا ہے جس کی وجہ سے انسان کو اپنے عمل کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔“ ابو جان نے قربانی کی روح بیان کی۔
پھر جب عید الاضحیٰ کا دن آیا تھا۔ سب نے نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے تھے۔ اور عید گاہ میں عید الاضحیٰ کی نماز باجماعت ادا کی تھی اور پھر اول وقت میں بکرے کو ذبح کر دیا ۔

” ابو جان! بکرے کی گردن پر چھری میں پھیروں گا۔“ عابد نے پہلے سے اپنی خواہش گوش گزار رکھی تھی۔
لہٰذا جب اس نے تکبیر پڑھ کر بکرے کی گردن پر تیز دھار چھری چلائی تھی تو خالد نے موبائل سے اس کی ویڈیو بنانی شروع کردی ۔ اور پھر فوراً اس کو وائرل بھی کرنے لگا تھا۔ اباجان نے اس کا مدعا جان کر اسے ویڈیو وائرل کرنے سے منع کردیا۔

” کہیں یہ ریاکاری کے زمرے میں نہ آجائے۔ بس اللہ تعالیٰ ہماری قربانی قبول فرما لیں۔“ ابو جان دھیرے سے بولے ۔

بچوں نے حسب توفیق قربانی کے کاموں میں امی اور ابو کی مدد کی۔ امی جان نے بہترین اور خوشبودار کھانا تیار کیا اور سب نے مل بیٹھ کر خوشی سے کھایا پیا اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا تھا۔ گوشت کی تقسیم میں بھی بچے پیش پیش تھے۔ جن گھروں میں گوشت پہنچانے تھے، امی جان نے ان سب کے ناموں کی فہرست پہلے سے تیار کر رکھی تھی۔ گھر میں کچھ گوشت رکھ کر باقی سب منظم طریقے سے تقسیم کردیا گیا ۔

” بکرے کی سری اب تو بڑی بھاری ہوگئی ہے۔ ہلائی نہیں جا رہی۔ پہلے تو بکرے کے سر کو ہاتھ لگاتے تھے تو یہ بڑا ہلکا ہوتا تھا اور آرام سے ادھر ادھر مڑ جاتا تھا۔“ چھوٹا ساجد بکرے کی سری کو ادھر ادھر ہلا کر دیکھ رہا تھا۔

” اسے گرمی لگ رہی ہوگی۔ پنکھا چلا کر رکھیں تاکہ اسے اچھی طرح ہوا لگتی رہے۔“ کبھی ساجد یہ بیان جاری کرتا تھا۔

” بکرے نے ایک دن مجھے گرایا تھا۔ اب میں اس کے سر سے بدلہ لیتا ہوں۔“ پھر وہ بیان بدل لیتا۔
” نہیں نہیں۔ میرا بکرا تو بہت پیارا ہے۔ یہ تو اللہ کی راہ میں قربان ہو گیا ہے۔“ ساجد کبھی ایک بات کرتا تھا، کبھی دوسری۔
” مجھے سری بہت پسند ہے. مجھے کل ہی پکا کر دیں۔ میں نے کھانی ہے۔“ اس نے امی جان سے فرمائش کی تھی۔

عصر سے کچھ دیر پہلے بچے تھک چکے تھے۔ کام تقریباً مکمل ہوچکا تھا۔ پہلے خالد اور پھر عابد دونوں اندر کمرے میں جا کر لیٹ گئے تھے۔ ان کے والد نے انہیں بمشکل نماز عصر کے لیے اٹھایا تھا اور نماز ادا کروائی تھی۔ پھر انہیں سمجھایا کہ قربانی کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اور نماز پنجگانہ پڑھنے کا حکم بھی اسی مالک کا ہے۔ قربانی سال بعد کرنی ہوتی ہے اور فرض نماز ایک دن میں پانچ مرتبہ ادا کرنی ہوتی ہے۔ قربانی کی روح اور مقصد یہ ہے کہ ’ اللہ تعالیٰ کو صرف جانور کی قربانی مطلوب نہیں بلکہ نفس اور اس کی خواہشات کی قربانی بھی مطلوب ہوتی ہے۔‘ ابو جان نے ان کو سمجھاتے ہوئے ان کی ذہن سازی کی تھی۔

” اسی طرح نماز ادا کرنے کے لیے نفس کے ساتھ مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے۔ کبھی کمی بیشی ہوجائے تو اس کی فوراً اصلاح کرنی چاہیے۔“ انہوں نے نماز کی استقامت کی طرف توجہ دلائی تھی۔

خواہشوں کے ساتھ اپنے نفس کو بھی فنا کر
زندگی میں اس سے بہتر کوئی قربانی نہیں

” قربانی ایسی اہم عبادت ہے جس کا ہماری زندگی میں بہت اہم عملی کردار ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نماز کے ساتھ قربانی کا تذکرہ کیا ہے جس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح نماز کی دائمی اہمیت ہے جس کی اللہ کی نگاہ میں قدرو قیمت بہت زیادہ ہے۔“ ابو جان نے مزید بتایا ۔
” قربانی صرف جانور کی نہیں ہوتی بلکہ اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی قربانی بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔“ عابد نتیجہ اخذ کر کے بولا تھا تو بچوں نے اثبات میں سر ہلائے تھے۔

” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا گھر، اپنا علاقہ اور اپنا وطن اللہ کی خاطر قربان کر دیا تھا اور دارالکفر سے ہجرت کر کے دوسرے علاقے میں چلے گئے تھے۔ دیگر ہر طرح کی جانی و مالی قربانیاں بھی پیش کی تھیں اور ان سب کے بدلے میں اللہ تعالی نے انہیں یہ انعام عطا کیا کہ انہیں تا ابد ’ امام الناس‘ اور ’ خلیل اللہ ‘ بنا دیا اور قرآن مجید میں بھی ان کے یہ القاب بیان کردیے۔ وہ یہود، نصاریٰ، مسلمانوں سب کے لیے اسوہ حسنہ (role model) ہیں“۔ رات کو ابو جان نے بیان کیا تھا۔

انہوں نے مناسب سمجھا کہ چند مثالوں کے ذریعے قربانی کا تصور مزید واضح کیا جائے۔
” قرآن مجید میں آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی حقیقی داستان بیان کی گئی ہے۔ جب قابیل نے حسد کی وجہ سے ہابیل کو قتل کرنے کے لیے وار کیا تو ہابیل نے بدلہ لینے کی خواہش کو قربان کرتے ہوئے اپنا ہاتھ روک لیا تھا۔ چنانچہ قابیل غالب آ گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کر دیا۔

چونکہ ہابیل کا قتل مظلومانہ تھا اور قصور وار قابیل تھا، اس لیے قابیل نہ صرف اپنے گناہوں کا ذمہ دار بنا بلکہ اپنے بھائی ہابیل کے گناہ بھی اس نے اپنے سر لے لیے۔
ہابیل نے قابیل کے ہاتھوں مرنا گوارا کرلیا لیکن اس نے اس سے بدلہ لے کر اس کے گناہ بھی اپنے سر لینا گوارہ نہ کیا۔ اور بدلہ لینے کی خواہش کو قربان کرکے اپنی جان دے دی۔“ ابو جان نے قصہ مختصر کرکے ہابیل کی قربانی بیان کی۔

” حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک موقع پر اصیل عمدہ گھوڑوں کی قربانی دی تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہواؤں پر کنٹرول عطا کر دیا تھا۔“ انہوں نے جلیل القدرپیغمبر حضرت سلیمان کی ایک قربانی بیان کی۔

” حضرت صہیب سنان رومی رضی اللہ عنہ نے ہجرت مدینہ کے موقع پر اپنا سارا مال و دولت مشرکین کے حوالے کر دیا تھا اور ہجرت کے لیے مال و متاع کی قربانی دے دی تھی تو اللہ تعالی نے ان کی قربانی کا بدلہ جنت کی صورت میں عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی رضا کی خاطر اپنے جان و مال بیچ دیتے ہیں۔‘ (سورۃ البقرہ2: 207)
ابو جان نے محبت سے ایک صحابی کی یادگار قربانی کا تذکرہ کیا۔

” حقیقت یہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں بڑی قربانیوں کے علاوہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں بھی بہت اہم ہوتی ہیں۔“ ابو جان بخوبی سمجھتے تھے کہ کچے ذہنوں کی تربیت سازی جہد مسلسل کا نام ہے۔
دراصل ” زندگی قربانی کا نام ہے اور قربانی زندگی ہے۔“ انہوں نے زندگی اور قربانی کا باہمی تعلق واضح کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا بیماری کی دہشت ابھی ماحول پر طاری تھی۔ عیدالاضحیٰ سے چند روز بعد خنساء کے والد نے انہیں ایک چھوٹی سی گھریلو محفل میں بٹھا کر کورونا بیماری کے بڑھتی ہوئی صورتحال سے آگاہ کیا تھا اور انہیں سمجھایا:
” اگر دنیا کے دیگر ممالک کی طرف دیکھیں تو کورونا کے ایک ہزار (1000) یا اس سے زائد مریضوں والے ممالک میں سے اس وقت تک پاکستان نسبتاً محفوظ ملک ہے۔
پاکستان میں کورونا کی بیماری کا آغاز ہوئے تقریباً پانچ ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے اور اتنے عرصے میں نسبتاً کم مریض پاکستان میں ہیں۔ یہاں دیگر ممالک کی نسبت کم اموات ہوئی ہیں۔ سیریس حالت والے مریض کم ہیں۔ سب سے کم مقامی مریض ہیں۔ فی دن مریضوں کے بڑھنے کا تناسب یہاں کم ہے۔ اور صحت یاب ہونے والے لوگ کثیر تعداد میں ہیں۔“ ابو جان نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا۔

” اگر اس کے تناسب کا اندازہ لگایا جائے تو یہ بات حیران کن ہے کہ 100 میں سے 98 یا 97 لوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں اور صرف دو یا تین لوگ موت کے منہ میں جاتے ہیں۔الحمد للہ۔“ امی جان نے بتایا تھا۔
” اور اسلام کے احکامات کے مطابق وہ بھی اس متعدی بیماری میں مبتلا ہونے کی بنا پر شہادت کی موت پاتے ہیں۔ پھر بھی اگر صرف مایوسی، ناامیدی اور پریشانی پھیلائی جائے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہے!“ ابو جان کہہ رہے تھے۔

” ہم لوگوں کو مسلمان ہونے کے ناتے ہمیشہ معاملہ کے مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اور مایوسی سے بچنا چاہیے۔ ہمارے دلوں میں امید کی مشعلیں روشن رہنی چاہئیں اور ہمیں دوسروں کو بھی امید وآس دلانی چاہیے۔“ ان کے والد نے انہیں تسلی دیتے ہوئے مزید بتایا تھا۔

” دو خطرناک ہمسایہ ممالک ایران اور چین کا پڑوسی ہونے کے باوجود پاکستان سب سے کم متاثر ملک ہے۔ چند ممالک مثلاً پولینڈ، انڈیا، مصر، فلپائن، یونان وغیرہ میں مریض پاکستان سے کم ہیں مگر وہاں کورونا کے مریضوں کی اموات ہم سے بہت زیادہ ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہم گناہ گاروں پر محض مہربانیاں ہیں، اس کا فضل و کرم ہے۔“ ابو جان نے بات مکمل کرتے ہوئے شعر پڑھا ۔

فقط امید ہے بخشش کی تیری رحمت سے
وگرنہ عفو کے قابل مرے گناہ نہیں

( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں