جویریہ سعید ……….
جی بالکل درست فرمایا آپ نے !
سوشل ویب سائٹس پر ، فون اور واٹس ایپ پر خواتین و حضرات نامناسب دوستیاں کرتے ہیں ۔
ایسے تعلقات بن جاتے ہیں جن کا انجام کئی لحاظ سے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اور اکثر اس پر وعظ و نصیحت سننے کو ملتے ہیں۔
مگر ہم ذرا آگے کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
“آپ بہت کم عمر معلوم ہوتی/ہوتے ہیں۔
آپ خاصی/خاصے خوش شکل ہیں۔
آپ کا لہجہ بہت خوبصورت ہے۔
آپ کی ذہانت اور خیالات سے میں بہت متاثر ہوں۔
آپ کے ساتھ گزارا ہوا وقت بہت پرلطف لگتا ہے۔ دل نہیں چاہتا کہ خدا حافظ کہا جاۓ۔
آپ کہاں غائب رہیں؟/رہے؟ میں نے انتظار کیا۔
میری بڑی خواہش ہے کہ آپ کے ساتھ کہیں کھلی فضا میں وقت گزارا جاۓ۔سبزہ ہو، پاس ہی کہیں جھرنا بہتا ہو، پھولوں کی خوشبو ہو اورُ ایسے میں ایک ساتھی ہو جس کی معیت دل کو محبوب ہو۔
آپ اداس یا پریشان معلوم ہوتے/ہوتی ہیں۔ میں حاضر ہوں۔
واقعی! آپ کس قدر مشکل وقت سے گذر رہی/رہے ہیں۔
کاش میں آپ کا دکھ بانٹ سکتی/سکتا۔”
جنس مخالف کے بیچ ہونے والی اس قسم کی گفتگو آپ کو کتنی بھی معیوب اور نامناسب لگے،
تعریف، توجہ اور ہمدردی کس کو اچھی نہیں لگتی۔
سوشل میڈیا پر ایک عرصہ گزار کر اور پروفیشنل زندگی کاُ تجربہ ہے کہ اس طرح کی باتوں پر اچھے خاصے متین ، سنجیدہ، انٹلکچوئل، دیندار، پڑھے لکھے ہر طرح کے لوگ خوش ہی ہوتے ہیں۔
بات صرف خفیہ گفتگووں اور خفیہ تعلقات کی ہی نہیں۔ پروفیشنل ، اور ادبی و علمی فورمزُ وغیرہ پر مناسب انداز میں ایکُ دوسرے کی حوصلہ افزائی، قدردانی کی جاتی ہے اور اچھے مہذب تعلقات کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ستائش مناسب انداز میں ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ضروری بھی سمجھی جاتی ہے اور مناسب حدود میں ہو تو غلط بھی نہیں ہوتی۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ مناسب اور نامناسب دونوں طرح کے تعلقات میں اظہار کی اہمیت مسلمہ ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس قسم کااظہار بیگم اور صاحب کے بیچ نہیں ہوتا۔
آپ کو میاں بیوی پر ہزار لطائف ملیں گے،
حضرات شکایات کرتے ہوۓ ملیں گے یا پھر دوسری شادی یا خواتین کے بارے میں مذاق کرتے ہوۓ۔
مگر اپنے زندگی کے ساتھی سے رومان یا اظہار محبت کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔
ہرشخص ہی اور خصوصا عورت اپنی تعریف سننا چاہتی ہے۔
مگر ہم کہہ دیتے ہیں کہ میں سارا دن کی بھاگ دوڑ اورُ فکر معاش کس کے لیے کرتا ہوں ؟ یہ محبت نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ اظہار کے چونچلے مجھ سے نہیں ہوتے۔ مگر دوسری طرف ہم خود اپنی تعریف اور محبت کے دو بول سن کر سرشاری محسوس کرتے ہیں۔
جہاں مسلمان مرد اپنی آزمائشیں بتاتے
ہیں، ان کو سمجھنا چاہیے کہ ایک مسلمان عورت کی آزمائش بھی کڑی ہے۔
وہ بھی چاہے جانے ، ستائش اور رومان کی خواہش اور توقع ایک ہی بندے سے کرتی ہے۔
اگر یہ اسے نہ ملے تو یا وہ مرجھانے لگتیُ ہے یا غلط راستے تلاش کرتی ہے۔
گزارش یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر بات میں اختلافی نکتہ نکالا جاۓ ۔
Marital relationships کے اتنے مسائل سننے کو ملتے ہیں اور اکثر مسائل میں حل یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح میاں بیوی دونوں کو بٹھا کر کچھ عملی حل کی طرف بڑھا جاۓ۔ مگر اکثر اوقات حضرات بات سننے اور کرنے کوُ تیار نہیں ہوتے۔اس سےُ ان کو اپنی سبکی محسوس ہوتی ہے یا "لوگ کیا کہیں گے” کا عفریت ڈراتا ہے لیکن اگر اور تعلقات میں اظہارکرلیتے ہیں تو یہاں بھی ہمت کر کے دیکھیں۔
کوشش کر کے دیکھیے۔
اپنے زندگی کے ساتھی کی تعریف، اس کے ساتھ سے ملنے والی خوشی اور اس کے بغیر زندگی کے ادھورا ہونے کاُ اعتراف، اس کی تکلیف پر فکرمندی کا اظہار اور کچھ خوشبو جیسے الفاظ آپ کے رشتے کو کیسے تروتازہ کرتے ہیں۔
والدین کے خوشگوار اور محبت بھرے تعلق سے بچوں پر بھیُ خوشگوار اثر پڑتا ہے۔