مرد

عورت کو مرد ہی بے حیائی کے سمندر میں دھکیلتا ہے، بھلا کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طاہرہ بلال :

حیا کالفظ ذہن میں آتے ہی عمومی طور پر ایک با حجاب عورت کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ایسے ہی بے حیائی لفظ کے ساتھ بھی جو تصویر دماغ میں ابھرتی ہے وہ بھی ایک عورت کی ہی ہوتی ہے یعنی ہمارے معاشرے نے اس لفظ کوعورت کے ساتھ منسوب کر دیا ہے۔

اس حوالے سے میرا نظریہ قدرے مختلف ہے۔ حیا اور بے حیائی کا اطلاق مردوں پر بھی اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ عورت پر۔ بلکہ میرا یہ ماننا ہے کہ عورت کو بے حیائی کے اس سمندر میں دھکیلنے والا بھی خود مرد ہی ہے۔

عورت تو شروع سے ہی محکوم ہے۔ حاکم تو مرد ہے۔ اب چاہے مرد اپنی حاکمیت کو استعمال کر کے اس کو جبراً بے حیا بنا دے، چاہے اپنی حاکمیت کے حق کو استعمال نہ کر کے اس کے لئے بے حیائی کا راستہ ہموار کر دے۔ مثلاً :

مرد اپنی بے جا نرمی اور آزاد خیالی سے عورت کو بے حیا بناتا ہے۔ اس کی نرمی، پیار یا آزاد خیالی بیوی، بیٹی یا کسی بھی عورت کے لئے ایسے راستے ہموار کرتی ہے کہ
جہاں باپ بھائی کے ساتھ بیٹھ کر ڈراموں اور فلموں کے نازیبا سین دیکھنا آسان ہو جاتا ہے ۔ تو دوسری طرف نامحرم مردوں کے ساتھ بیٹھ کر کھلی گپ شب بھی آسان ہو گئی۔ کیا ہوا بھائی جیسا ہے۔ دوست ہے۔

ایک وقت تھا کہ گھر میں مرد کے گھر میں داخل ہوتے ہی دوپٹے سروں تک پہنچ جاتے تھے ۔ اور اب وہ دوپٹے گھر سے نکلتے وقت محض گلے تک ہوتے ہیں یا ہوتے ہی نہیں۔

مرد کی بے جا سختی عورت کو بے حیائی پر مجبور کرتی ہے۔ بعض گھرانوں میں باپ اور بھائی عورت پر اس حد تک سختی کرتے ہیں کہ وہ سختی عورت کو چور دروازے دکھا دیتی ہے۔ اگر عورت اس سختی سے ذہنی مریض نہیں بنتی تو ان چور دروازوں کو پھلانگ جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ایسے مردوں کی باہر کی زندگی کافی رنگین ہوتی ہے۔

مرد کا ظلم عورت کو بے حیا بناتا ہے۔ جب بے حد وفاداری اور انتھک خدمت کا صلہ ظلم و جبر یا مار پیٹ کی صورت میں ہو تو لبرلز کے یہ نعرے ” میرا جسم میری مرضی “ ایسی عورتوں کو بہت بھاتے ہیں۔ اور پھر بعض اپنی مرضی کرنے لگ جاتی ہیں۔

مرد کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی اکثر عورتوں کو بے حیا بنا دیتا ہے۔ جب مرد بحیثیت باپ، شوہر یا بھائی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں ۔ جب مرد کاہلی اور سستی کی وجہ سے اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے بوجھ عورت کے سر ہر آ جاتا ہے۔ اور اختیار بھی کہ اس بوجھ کو سیدھے راستے پر چل کر اتارے یا ٹیڑھے۔

مرد کے بے جا مصروفیت ، پیسا کمانے کی دھن ۔ اس حد تک غافل ہو جانا کہ پتا ہی نہ ہو گھر میں کون آ رہا ہے کون جا رہا ہے، کیا ہو رہا ہے۔ اور پیسے کی ریل پیل ظاہر ہے کہ گمراہی کو ہی اواز دے گی۔

مرد کی رنگین مزاجی عورتوں کو بے حیائی کی دعوت دیتی ہے۔ جہاں مردوں کی گہری نظریں ، ذومعنی جملے بہت سی خواتین کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں ، وہیں یہ مرد نامحرم دوستیوں کی راہ ہموار کرتے جاتے ہیں۔

مرد کی ہوس عورت کو بے حیا بناتی یے۔ بہت سی عورتوں کو مرد طوائف بنا دیتے ہیں۔ ایک بے حیا عورت کے در پر بہت سے شریف گھرانوں کے عزت دار مرد گھٹنے ٹیکتے نظر آ تے ہیں۔

مرد کی دین سے دوری عورت کو بے حیا بناتی ہےاور یہی اصل وجہ ہے۔ بلکہ اوپر بیان کردہ تمام نکات کی بھی یہی بنیاد ہے۔ تمام مرد یا تمام عورتیں ایسی نہیں ہیں مگر جہاں ہیں وہاں اصل وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ مرد دین سے دور ہیں۔

اس وقت سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے مرد کو اپنی ذمہ داری کا ادراک نہیں۔ اس حوالے سے میرے رب کا کیا فرمان ہے۔ قرآن وسنت عورت کی کیا حدود و قیودبتاتے ہیں۔ اور ایک مر د کو کیا ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں۔ ان احکامات کی روشنی میں ایک مرد کا اپنے گھر میں کیا کردار ہوتا ہے اور معاشرے میں کیا کردار ہے۔

نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ایک عورت چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی۔ یہاں غلطی عورت کی نہیں مرد کی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتا ہے۔ وہ اسلامی احکامات سے پہلو تہی کرتا ہے۔

میں اکثر جب کچھ مسلمان خواتین کو حجاب و حیا کے حوالے سے اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑاتے دیکھتی ہوں تو پہلا سوال میرے ذہن میں یہی آتا ہے کہ کیا ان کے گھر میں مرد ہیں ؟؟؟

اول تو قرآن کو ہاتھ ہی نہیں لگایا جاتا۔ اور اگر اٹھا بھی لیا جائے تو محض ناظرہ پڑھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قرآن کے احکامات کا پتا نہ ہونا المیہ ہے۔ ایک جگہ کسی کو سنا الفاظ یہ تھے” رمضان میں جس رات تراویح میں امام سورہ نور کی تلاوت کرتا ہے۔ پیچھے کھڑا مرد وہ تلاوت سنتا بھی ہے۔ اسی رات اس مرد کے گھر کی عورتیں سورہ نور کے احکامات کی دھجیاں اڑا رہی ہوتی ہیں اور اسے خبر ہی نہیں ہوتی۔ وہ محض تلاوت کو لطف اٹھا کر آ جاتا ہے۔ معنی سے بے خبر“ اور پھر دیوث کہلاتا ہے۔

آج بازاروں میں نوے فیصد دکان دار مرد ہیں ۔ گھر میں اپنی بہنوں بیٹیوں کے ہونے کے باوجود فروری کا مہینہ آتے ہی دکانوں کو ایسے سجا لیتے ہیں کہ جس کو نہ بھی پتا ہو اس کو بھی پتا چلے۔

یہ ایک مرد کی ، ایک گھر کے حاکم کی ، ایک سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ بشمول بیٹوں کی قرآن و سنت کی روشنی میں تربیت کرے۔ جس میں پیار و محبت بھی ہو اور اصول و قوانین بھی ہوں۔ اس کی بیوی بہن اور بیٹی کو اپنی حدود و قیود کا پتا ہو تو ساتھ ہی بیٹوں کو بھی پتا ہو کہ گھر سے باہر کیسے رہنا ہے۔ شرم و حیا صرف عورت کا ہی نہیں مرد کا بھی خاصا ہے۔ اور یہ بچے جب کل کو سربراہ بنیں تو انھیں بھی پتا ہو اپنے گھرانے کی تربیت کیسے کرنی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں