پنجاب کا ایک روایتی گائوں

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( دوسری قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

پہلے یہ پڑھیے :
فرحت اور انجم کی داستان محبت ( پہلی قسط )

اب اس پس منظر کو موخر کرتے ہوئے پھر آتا ہوں اس پیش منظر کی طرف جس کا ذکر ابتدا میں کررہا تھا۔ میں نے اپنے عقب میں دیوار پر سے ”خالہ جی! دودھ لے لو“ کی دلکش آواز سنی تو پیچھے مڑکر دیکھا۔ کچھ دیر کے لئے دیکھتا ہی رہ گیا۔
یا اللہ! کیا پوری کائنات کا حسن ایک سراپا میں بھی سما سکتا ہے!!!

میں نے فرحت کا صرف چہرہ دیکھا، آنکھیں نہیں۔ یہ آنکھیں آنکھوں میں ڈال کر تو آج تک نہیں دیکھیں، لہذا آنکھوں کے حسن کا بیان نہیں کرسکتا۔ میں اس چمکتے چہرے اور متناسب خدوخال کے موزوں بیان کے اہل بھی اپنے آپ کو نہیں پا رہا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ ابوالکلام کے کلام پر کلام کرنے کے لئے بھی ایک ابوالکلام کی ضرورت ہے۔

فرحت کے حسن معصوم پر اظہار خیال کے لئے بھی آج وارث شاہ کی مدد لینا پڑے گی
کبھی ہیر دی کرے تعریف شاعر متھے چمکدا حسن مہتاب دا جی
خونی چونڈیاں رات جئیوں چن دوالے سرخ رنگ جئیوں رنگ شہاب دا جی
(شاعر ہیر کی کیسی تعریف کرتا ہے کہ ہیر کی پیشانی چاند کی طرح دمک رہی تھی یعنی ماتھا مثل چاند چمکتا تھا۔خونی زلفیں چاند جیسے پہرے کے گرد رات کا سماں دکھا رہی تھیں ہیر کے چہرے کا رنگ شہاب ثاقب کی طرح سرخ تھا۔)

میں فطرت کے منظر اور خاک کے ایک پتلے کے معصوم حسن میں کھوگیا مگر یکطرفہ دید کا یہ عمل چند ثانیے ہی برقرار رہا ہوگا کہ معاً خیال آیا ایک دوشیزہ کو جو بظاہر سن بلوغ کو بھی نہیں پہنچی ہے، ان نظروں سے دیکھنا گناہ تو نہیں۔ فوراً ہی دوسرا خیال اس کا ابطال کررہا تھا۔ بہرحال ”احقاق حق“ اور ”ابطال خیال“ کے خیالات کی کشمکش جاری تھی کہ نیچی نگاہوں والی فرحت انور کو دودھ، لسی اور مکھن بھرا ڈول دے کر لوٹ گئی۔

ہمارے دونوں گھروں کے درمیان ایک بلند دیوار تھی جس میں کوئی کھڑکی یا دروازہ نہیں بنایا گیا تھا۔ نواب فیملی نے بچوں اور اپنے نوکر کے ذریعے سے اشیائے خورونوش وغیرہ کی فراہمی آسان بنانے کے لئے دیوار میں اس قسم کے دو سوراخ کرلئے تھے جن میں پاؤں ڈال کر وہ دیوار کے بالائی حصے تک پہنچ جاتے اور دوسری طرف بھی اسی قسم کے سوراخوں پر مشتمل ”سیڑھیاں“ بنالی گئی تھیں۔

دونوں گھروں کے بچے ان سیڑھیوں کا کثرت سے استعمال کیا کرتے تھے بالخصوص ان ایام میں جب فرحت چھٹیوں میں اپنے ماں باپ کے پاس گاؤں میں ہوتی تھی۔ انور اور سعادت ایک دن میں کئی مرتبہ فرحت اور اختر کو اپنے گھر سے پینے کا پانی لانے کا آرڈر دیتے۔ فرحت کسی آرڈر کی تعمیل میں بھی ذرہ برابر تاخیر یا تامل نہیں کیا کرتی تھی۔ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا نواب زادیاں دونوں گھروں کے درمیان شٹل کاک بنی رہیں۔ ایک روز انور نے دیوار سے پرے آواز دی:

”آپی! ایک جگ پانی بھیجنا“
فرحت تھوڑی دیر کے بعد پانی لے کر آگئی۔ میں نے انور سے کہا:
”یہ جو تم بار بار سادہ پانی طلب کرتے رہتے ہو تو کیوں؟ اپنے گھر میں بھی تو دستیاب ہے یا پھر یہ ہمدرد والوں کا شربت روح افزا ہے؟“

مئی جون کے گرم مہینوں میں ہمارے گھر میں پانی جلد ختم ہوجاتا تھا اور اس بناء پر بچے پانی کی درآمد پر مجبور ہوجایا کرتے تھے مگر میں نے نواب فیملی کی بچیوں کے لحاظ میں محسوس کیا تھا۔ اس ”واقعہ“ کے چار دن بعد ایک روز خود مجھے پانی منگوانے کی ضرورت پڑ گئی۔ کالج سے آیا ہی تھا کہ شدید پیاس محسوس ہورہی تھی۔ انور ہی سے کہا:
”ادھر سے پانی لے آؤ“۔

وہ دیوار کی اپنی جانب کی سیڑھیوں سے چڑھ کر دوسری طرف سے اتر گیا اور کسی نواب زادی کو زحمت دینے کے بجائے خود ہی پانی لانے لگا۔ فرحت نے اسے کہا:
” تم خود کیوں آئے ہو؟ میں تمھاری آپی ہوں ناں! اب تمھاری سزا یہ ہے کہ واپس جاؤ، دوبارہ دیوار پر آؤ اور مجھے کہو۔“
چنانچہ یہی ہوا تو فرحت خود دیوار پر نمودار ہوئی اور انور کو مخاطب کرکے کہا:”کیا آج ہمارا پانی شربت روح افزا ہوگیا ہے کیا؟“

قدرتی طور پرفرحت کے اس فرحت افزا جملے پر میں چونکا اور دیر تک اس بالواسطہ مکالمے کا لطف بھی اٹھاتا رہا اور غور بھی کرتا رہا۔ پنجابی کا مقولہ ہے ”جوانی بھیڑ کے بچے (میمنے) پر آتی ہے، خواہ چار دن ہی کے لئے کیوں نہ آئے“ ان دنوں معروف معنوں میں میں بھی جوان تھا۔ صنف مخالف میں موجود قدرتی کشش میرے جذبات و احساسات کو ہی کسی نہ کسی حد تک تہہ و بالا کردیا کرتی۔

پہلے روز جب کیوپڈ کا تیر لگا تو اس کے بعد فرحت مجھے بہت اچھی لگنے لگی۔ جی چاہتا اس کے ساتھ بات کرنے کا کوئی موقع مل جائے مگر کرنے کی سکت نہیں تھی۔ کبھی کبھار اپنے آپ سے پوچھتا:
مجھے یہ کیا ہوتا جارہا ہے؟
خود ہی جواب دیتا: نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔

اس دوران ایک بار پھر یہ تمنا مچلتی کہ فرحت سے کوئی نہ کوئی مکالمہ ہوجائے مگر مکالمے کے لئے درکار جرات تو درکنار مجھے کبھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی ہمت بھی نہ ہوسکی۔ فرحت بھی پورے چار سال کے دوران میں درجنوں بار آمنا سامنا ہونے کے باوجود یہ ہمت نہ کرسکی۔

اس دوران میں یہی سوچتا رہا: کیا فرحت عمر کے اس حصے میں سرد گرم آہوں کے معانی سمجھنے کے قابل ہوگی یا نہیں؟ اور اگر کسی مکالمے کا موقع نکل آئے تو کیا یہ سمجھ بھی پائے گی یا نہیں۔ اس دوران میں ”شربت روح افزا“ کے مکالمے کا مقصد بھی میرے زیرغور آتا رہا۔ یہ اس نے میرے ساتھ بلواسطہ جو کلام کیا ہے اس کا کیا مطلب لیاجائے؟

سوچ بچار کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا کہ سعادت، انور، فرحت اور اختر اتنے گہرے دوست بن چکے تھے کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے بارے میں ناخوشگوار بات برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا اور پینے کے پانی کی درآمد و برآمد کے حوالے سے میں نے انور کو سمجھانے کی جو کوشش کی فرحت نے اس کا برا مانا اور ردعمل ظاہر کرنا ضروری سمجھا۔

بعد میں اس نے انور سے یہ کہہ کر(میرے خیال کی توثیق کی کردی) کہ میں نے تمھارے بھائی جان کی ڈانٹ کے جواب میں انھیں ڈانٹ پلادی ہے۔ اب تم پوری طرح مطمئین ہوجاؤ مگر یہ بھی خیال رکھو، بڑے بھائی ڈانٹ لیا کرتے ہیں ان کی باتیں دل سے نہیں لگاتے۔ ( جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں