ہوم اسکولنگ ، ماں بچے کو پڑھا رہی ہے

کیا بچوں کے لئے ہوم اسکولنگ بہتر ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین :

مس میرا دل کرتا ہے کہ میں اتوار کو بھی اسکول آئوں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ چھٹی کیوں آجاتی ہے ۔۔۔۔۔
مجھے اسکول آنا اچھا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
جب ہم پڑھاتے تھے تو اکثر ایسی باتیں سننے کو ملتی تھیں۔

بچے اسکول آکر خوش ہوتے تھے اپنے ہم جولیوں سے ملنا ملانا ، اساتذہ سے تعلق ، محبت ، مختلف تعلیمی سرگرمیاں اور بچوں پر دی جانے والی توجہ سے بچے نکھر نکھر کر سامنے آتے تھے۔

پھر ہوم اسکولنگ کی لہر نے ایک دم سے اسکولز کو رد کر دیا اور ہر برائی کی جڑ اسکولوں کو قرار دے کر ایک اور انتہا پسندانہ نظریہ جنم دیا ہے۔ گو کہ میں نے خود بھی بچی کی ہوم اسکولنگ کی ہے لیکن ہمیشہ اس سلسلے میں ایک متوازن رائے ہی قائم کی ہے اور مشاہدہ بھی کیا ہے کہ بہت سے بچے اسکول جاکر زیادہ بہتر ہوجاتے ہیں۔

اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اسکول بہتر ہے کہ ہوم اسکولنگ دونوں میں سے زیادہ بہتر آپشن کیا ہے ، یہ آپ کو اپنے وقت حالات اور بچے دیکھ کر خود ہی کرنا چاہیے نا کہ کسی تھیوری سے متاثر ہوکر ، کسی ہوم اسکولرز کی کارکردگی دیکھ کر۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔

اس بحث سے ہٹ کر جو بات قابل توجہ ہے وہ ہوم اسکولنگ کروانے سے پہلے چند سوالات ہیں جو ایک ماں کو اگر ہوم اسکولنگ کروانی ہے تو اپنے آپ سے ضرور پوچھنے چاہئیں اور ان کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے ۔

کیا آپ اپنے آپ کو جذباتی و نفسیاتی طور پر صحت مند محسوس کرتی ہیں؟
آپ بچے کے ساتھ کس قسم کا تعلق رکھتی ہیں؟
اپنا غصہ فرسٹریشن بچے پر تو نہیں نکالتیں؟
کیا آپ کے گھر کا ماحول بچے کے لیے تحفظ ، محبت اور تعلق کا احساس دینے والا ہے ؟
کیا آپ کے گھر میں بچے کو رشتوں سے تعلق و محبت کا مشاہدہ و تجربہ کروایا جاتا ہے ؟
کیا آپ نے ہوم اسکولنگ کو اچھی طرح سمجھ لیا یے؟
کیا آپ بچے کے لیے مشکلات کے باوجود یہ صحت مند ماحول فراہم کر سکتی ہیں ؟

ان سوالات کی وجہ؟

ہوم اسکولنگ ہو یا اسکولنگ دونوں ہی اس صورت میں فائدہ مند ہیں جب بچے کی شخصیت برقرار رہے ، اس کو انسان رہنے دیا جائے ، اس کے جذبات و احساسات کو اہمیت دی جائے ، اس کو عزت اور تحفظ کا احساس ہو۔ یہ کس طرح پڑھنا ہے اور کیسے پڑھانا ہے ؟ سے بھی زیادہ اہم سوالات اور نکات ہیں جن پر ضرور غور کرنا چاہیے ۔

بہت سے گھروں کا ماحول بچے کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ مائوں کی اپنی جذباتی اور نفسیاتی حالت تباہ کن ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے سبھی عجیب سی رسہ کشی کا شکار ہوتے ہیں ، ایسے میں ماں خود بھی گھٹن کا شکار ہوتی ہے۔ بچے کے سیکھنے سیکھانے کے عمل میں بے صبری کرتی ہے ، تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے جذباتی چیخم دھاڑ سے کام لیتی ہے ۔ بچے کو ہنسنے ، کھیلنے کا موقع میسر نہیں تو ایسے میں زیادہ بہتر ہے کیا ہے ؟ بچے کو کسی بیمار ماحول میں رکھا جائے یا کسی بہتر جگہ منتقل کر کے ماحول میں تبدیلی کا آپشن دیا جائے ؟

اس بات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ ابتدائی عمر میں بچے کے لیے ماں کی گود ہی پہلی درس گاہ ہے۔لیکن اس کے بعد بہت سے بچوں کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ انہیں کسی صحت مند ماحول کی ہوا لگائی جائے۔ اسکولوں کے حالات بھی سب کے سامنے ہی ہیں لیکن الحمدللہ ہمارا اپنا پڑھنے پڑھانے کا تجربہ بہت اچھا رہا ہے۔ بہت سے اچھے اسکولز ہیں جو بچے کے لیے اتنے برے نہیں جتنے کہ بنا دئیے گئے ۔ مسئلہ اس سوچ کا ہے جو بچے کی ساری ذمہ داری اسکولز کو سونپ کر خود فارغ ہوجاتے سے شروع ہوتی ہے۔ ۔اسکول سے زیادہ تربیت گھر پر ہوتی ہے۔ سکولز میں بھی ان دو طرح کے بچوں میں کافی فرق ہوتا ہے جن کے والدین گھر پر توجہ دیتے ہیں اور جن کے بچے پورا اسکول پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

اس لیے اگر آپ ہوم اسکولنگ نہیں بھی کرتیں تو بچے کو مناسب وقت میں کوالٹی ٹائم دے کر ، اس کے ساتھ اپنے ساتھ کا احساس دلا کر اس کی صلاحیتوں پر اعتماد کر کے ، اس کی تربیت کی ذمہ داری کو اپنا کام سمجھ کر کریں تو اتنی کوئی پریشانی کی بات نہیں جتنی کہ اب کچھ اسکول بھیجنے والی مائیں محسوس کرتی ہیں۔
آپ کی رائے کیا ہے ؟ آپ اس معاملے کو کیسے دیکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں