مسلمان شوہر قرآن پڑھتے ہوئے ، بیوی اور بیٹی پاس بیٹھی ہیں

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (4)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر بشری تسنیم :

پہلے یہ پڑھیے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (1)

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (2)

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (3)

لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ پہ ایمان کی اگلی شق کلام اللہ پہ مکمل ایمان ہے. ذالک الکتب لا ریب فیه کے اقرار کے بعد اس کے کسی حکم ، جملے آیت پہ شک ہونا یا اس کو اس دور میں قابل عمل نہ سمجھنا ایمان کے منافی ہے اور اس منفی سوچ سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار بھی مشکوک ہوجاتا ہے. اللہ ، رسول اور قرآن پہ ایک ساتھ مکمل لاریب ایمان ہی اسلام کا مکمل دائرہ ہے. قرآن پاک وہ دستور زندگی ہے جس کے مطابق زندگی گزارنا ہی دائرہ اسلام میں رہنے کی شرط ہے.

ہم قرآن پاک کو آئینہ بنا کر اپنے اقوال و أعمال کو پرکھیں ، اپنا احتساب کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کے نام پہ دهوکا دے رہے ہیں. قرآن پاک سے ہمارا سلوک ظالمانہ ہے. اس کے کیا حقوق ہیں؟ بہت کم مسلمان جانتے ہیں. اس کا حقیقی ادب و إحترام کیا ہے؟ اس سے ناواقف ہیں ۔

ہم انتہائی کم عمری میں کتابوں کے ڈھیر اپنی اولاد کی کمر پہ لاد دیتے ہیں ۔ سالہا سال وہ علم کے نام پہ معلومات کا ذخیرہ جمع کرتے ہیں کہ کسی روزگار کے قابل ہو جائیں مگر وہ علم جو دستور زندگی ہے، اس کے لیے زندگی کے پورے پرائم ٹائم میں سے صرف چند گھنٹے کافی سمجھے جاتے ہیں۔

وہ کتاب جس پہ حقیقی زندگی کا دارومدار ہے ، اس سے شناسائی سرسری سی ہوتی ہے. تعلیم تو یہ تھی کہ اس قرآن کو زندگی کے کسی مرحلے میں بھی پس پشت نہ ڈالا جائے ، ہم نے اس کی طرف پشت نہ ہونے کے خدشے کے پیش نظر اسے ایسے اونچے طاق پہ رکھ دیا کہ رسائی مشکل ہو گئی ۔

مقصد تو یہ تھا کہ اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت ، پرورش قرآن کی تعلیمات کے سائے میں کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ رخصت کیا جائے ، ہم نے اس کا بڑا آسان حل نکالا کہ پرورش تو جیسے مرضی کرلیں مگر دلہن کو قرآن مجید کے سائے میں رخصت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرآن کا حق ادا کر لیا.

اپنے معمولات زندگی میں قرآن پاک کے اثر و رسوخ پہ غور کریں توعموماً ایسی صورت حال نظر آتی ہے کہ وہ صرف اس وقت یاد آتا ہے جب کسی دنیاوی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی مرنے والے کے سرہانے یا مرنے کے بعد کئی جمعرات اجرت پہ بلائے گئے قاریوں سے متعدد بار پڑهوا لیا. سمجھے بغیر ، غور و فکر اور تدبر کیے بغیر اس کلام کو زبان سے ادا کر دینا اس کا حق ادا کرنا نہیں ہے۔ افلا یتدبرون القرآن ؟

قرآن مجید الله کا کلام ہے، کسی انسان کا نہیں، اس کی عظمت اسی طرح سب پہ برتر ہے جس طرح اللہ رب العزت کی اپنی ذات.. اللہ کی ذات تک پہنچنے کا ذریعہ اس کا کلام ہے. اس کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اس کا فہم اس پہ تدبر لازمی ہے. اس کا علم دنیا کے سارے علوم کو وقعت عطا کرتا ہے ۔ قرآن کے علم کے بغیر دنیا کا ہر علم صفر ہے. قرآن مجید کی تعلیم کو دنیاوی تعلیم کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دینا اپنے اوپر ظلم ہے اور اللہ کے کلام کی توہین ہے. دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری حاصل کر لینا اس وقت اہم ہو جائے گا جب قرآن پاک کا فہم و تدبر بھی حاصل ہو جائے گا.

ہم بحیثیت مسلمان قوم کوئلوں کے لیے تگ و دو میں زندگی جیسی قیمتی متاع لٹا رہے ہیں جب کہ ہیرے جواہرات ہمارے پاس موجود ہیں۔ قرآن مجید میں انفرادی و اجتماعی فلاح کے سارے راز سمو دئیے ہیں مگر ہم زبان سے انھیں دہراتے ہیں ، فہم نہیں رکھتے۔ اگر کچھ فہم ہے تو عمل سے بےگانہ. اگر کہیں کچھ عمل ہے تو اس میں ریا ہے یا دنیا مقصود ہے.

ہم اس بات کو تو مانتے ہیں کہ اس کے ایک حرف پڑھنے پہ دس نیکیاں ملتی ہیں ، اس لیے قرآن پاک کے ختم کی تعداد بڑھانے کی کوشش کر تے ہیں مگر یہ یاد نہیں رہتا کہ قرآن مجید کا ہر حرف ہمارے خلاف حجت بھی ہوسکتا ، اگر اس کا پورا حق ادا نہ کیا۔ مسلمان پہ قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں :

درست تجوید کے ساتھ تلاوت کرنا یتلونه حق تلاوته ، آیات کو سمجھنا،(ترجمہ،تفسیر ) آیات پہ غوروفکر تدبر کرنا ،آیات پہ عمل کرنا، دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دینا تبلیغ کرنا.

وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اٹھایا جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے ، ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ ( سورۃ الجمعہ ، 2 )

رمضان المبارک قرآن کا مہینہ ہے. اس میں اپنا تعلق قرآن پاک سے جوڑنے کے لئے سب سے پہلے اپنی اب تک کی غفلت کی معافی طلب کی جائے. قرآن پاک کے ساتھ دل کا رشتہ بنانے کے لئے بھی اللہ الخالق کے حضور استدعا کی جائے کہ وہ ہمارے دلوں کے قفل کھول دے. ہمارے لیے وسائل مہیا کرے ، اس کی تعلیم آسان فرمائے. روزانہ کی بنیاد پر ایک آیت سیکھنے کا عمل شروع کیا جائے. راستہ منتخب کر لیا جائے تو راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔
ولقد یسرنا القرآن لزکر فھل من مدکر؟

اپنے گھر، کالونی، ادارے، دفتر، بازار غرض ہر مقام پہ کوئی ایک وقت قرآنی وقت کے طور پر مقرر ہونا چاہیے. روزانہ ایک آیت یا ایک موضوع پہ فہم قرآن کا سلسلہ ہو، قرآنی ما حول بنایا جائے ،اپنی اولاد کو قرآن کے سائے میں پرورش کرنے کی شروع دن سے کوشش کی جائے.اس کی عظمت، اہمیت اور ضرورت کو دنیاوی تعلیم سے زیادہ اہمیت دی جائے. ہماری نجات صرف حامل قرآن ہونے میں نہیں بلکہ عامل قرآن ہونے میں ہے.

الله رب العزت سے دل کی گہرائیوں سے التجا ہے کہ وہ قرآن کو ہمارے آنکھوں کا نور، دل کی بہار ، قبر کی وحشتوں کا ساتھی، دستورِزندگی بنا دے.. ایسا مومن بنا دے جوچلتا پھرتا قرآن ہو.. آمین

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں