تھیلیسیمیا کی مریض بچی اور اس کی ماں

تھیلیسیمیا کیا ہے ، بس ! تکلیف اور اذیت بھری ایک کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پری گل :

جب مجھ کمزور ماں کی گود میں سرخ گالوں کے ساتھ نارمل سے زیادہ وزن کا پھول سا بچہ دیا گیا ، اس کو گلے لگاتے ہوئے میں یہی سوچ رہی تھی کہ اللہ تیرا شکر ہے ، مشکل مرحلے کا انجام اتنا پیارا ہے۔

دن گزرتے گئے پیدائشی بہ ظاہر صحت مند بچہ کمزور ہونے لگا ۔ تین مہینے بعد وہ اتنا کمزور ہوا کہ گردن سنبھالنا بھی چھوڑ دیا، رنگ سے سرخی غائب ہوگئی۔ چہرے کی رگیں تک غائب ہوگئیں۔ اپنی ایک ڈاکٹر دوست کو کال کی ، عمر پوچھتے ہی اس کے منہ سے نکلا ” کہیں تھیلیسمیا نہ ہو“

میں اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھنے لگی کون سا ٹیسٹ ہوگا ؟ انہوں نے ایک ابتدائی ٹیسٹ کا کہا ۔ میں بچے کو لے کر دو ڈاکٹرز کے پاس گئی ۔ مجھ سے یہ الفاظ ادا نہیں ہو پارہے تھے کہ بچے کو دیکھیں ، کہیں اس کو تھیلیسمیا تو نہیں؟ اپنے فون سے وہی میسج میں ڈاکٹر کو دکھاتے ہوئے پوچھتی کہ ڈاکٹر صاحب میرا بچہ ایسا مریض تو نہیں لگ رہا نا ؟

ایک ڈاکٹر نے بتایا تھیلیسمیا کا مرض 6 مہینے پہلے پتا نہیں چلتا ، دوسرے ڈاکٹرنے مجھے کمرے سے باہر جانے کا کہا اور بھائی سے بات کی۔ بچے کا جسم خون کی کمی کی وجہ سے گرم ہورہا تھا۔ ہم نے تربت سے کراچی کی ٹکٹ کرائی ۔ کراچی پہنچتے ہی یہاں کے نجی ہسپتال میں ٹیسٹ کرائے ۔ ابتدائی رپورٹ میں خون کم تھا۔ ڈاکٹر خون لگوانے کا کہہ رہے تھے ۔ میں آخری رپورٹ کے انتظار تک خون نہیں لگوانا چاہ رہی تھی۔

ایمرجنسی کے کاغذات پہ دستخط کرکے میں بچے کو لے کر ہسپتال سے نکلی ۔ اگلے دن ایک رپورٹ آئی ۔ وہ دن جتنا تکلیف دہ تھا ، میں لکھ ہی نہیں سکتی ۔ میں نے وہ رپورٹ بھی قبول نہیں کی ۔ تیسرے دن اس ہسپتال کی آخری رپورٹ آئی جس میں بیماری کنفرم تھی ۔ اس دن میں ڈاکٹر کے سامنے نہیں روئی ۔ اس لمحے اپنی قسمت کا لکھا قبول کرتے ہوئے میں نے کچھ نہیں کہا اور گھر پہنچی تو بچے نے اس دن آنکھیں بھی نہیں کھولیں ۔ پورا دن سوتا رہا ۔

رات ایک اور ہسپتال لے کر گئے اور مزید دس ٹیسٹ ہوئے ۔ جب اسے پہلا خون لگا تو۔۔۔۔۔
یہ پہلے خون سے پہلے کی تکلیف کی کہانی ہے اور آگے کی مشکل زندگی کا ایک ٹریلر۔۔۔۔

مجھے اس دن صرف یہ پریشانی تھی کہ میرے بچے کو ہر مہینے خون لگے گا ، مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا اس کے ساتھ اور کیا کیا ہوگا؟ تھیلیسمیا مائنر والدین کی خوشیاں کسی بھی وقت ہمیشہ کی تکلیف میں بدل سکتی ہیں ۔ کسی کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا ۔ بہت سے بچے جوان بغیر کسی بیماری کے چلے جاتے ہیں لیکن ایک بچہ جس نے ابھی دنیا کا لطف ہی نہیں لیا ، ہوش سنبھالتے ہی اپنا ہاتھ خود کینولے کے لیے آگے کرے ، چار گھنٹے خون کا بیگ خالی ہونے کا انتظار کرے ، آئرن نکالنے کی دوائیں زندگی بھر فرض ہوجائیں اس کے والدین کیا کیا دعائیں دیتے ہوں گے؟

کس کس تکلیف کو دیکھتےہوئےدل پھٹتا ہوگا ، اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ ان کے لیے بھی بولیں جن کے لیئے کوئی ٹرینڈ نہیں چلاتا۔ آپ کے خون کے محتاج تو وہ ہیں ہی لیکن آپ بھی عبرت حاصل کریں ۔ تھیلیسمیا مائنر سے شادی نہ کریں چاہےآپ لیلی مجنوں ہی کیوں نہ ہوں.

تھیلیسیمیا کے بعد ہسپتالوں میں جاتے ہوئے، ٹیسٹ کے لیے سوئی لگاتے ہوئے، رپورٹ دیکھتے ہوئے، پھر کراس میچ کے لیے دوبارہ سوئی لگاتے ہوئے ، پھر خون لگانے کے لیے کینولہ لگاتے ہوئے ہسپتال میں باقی بچوں کی حالت دیکھتے ہوئے، بگڑے چہرے دیکھتے ہوئے، اپنی آنکھوں کے سامنے مریض جان سے جاتےہوئے ، خون نہ ملنے پر ، خون لگاتے ہوئے، اس دوران بچے کو روتا ہوا دیکھتے ہوئے، غنودگی میں سوئے ہوئے ، خون لگنے کے بعد چہرے پہ سرخی آتے ہوئے۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ایسے کئی مواقع پہ میں اپنے معصوم عبدالحق کو دیکھتے ہوئے آنسو پونچھتی اور کہیں دھاڈیں مار کر روتی۔

بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تھیلیسیمیا کے مریض کو صرف مہینے میں ایک مرتبہ خون لگتا ہے اور وہ بھی مفت ۔ مفت خون لگانے کے بہت سے ادارے ہیں جہاں یہ زندگی سے بیزار مریض اسی تکلیف سے گزرتے جس سے مفت سروس حاصل کرنے والا کوئی بھی پاکستانی کہیں بھی۔

خون کی اچھی سکریننگ نہ ہونےکی وجہ سے بہت سے بچے ہیپاٹائٹس اور ایڈز وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے والدین یہ نہیں جانتے کہ تازہ نکالا گیا گرم خون کتنا خطرناک ہوتا ہے ، ڈونر ملتے ہی کینولہ لگا کر بغیر ٹیسٹ کے خون لگا دیا جاتا ہے۔

کوئٹہ جیسے شہر میں خون 250 ml بیگ میں چھوٹے بچے کو کم خون لگانے کے لیے بیگ پر قلم سے نشان لگایا جاتا ہے ۔ خون کا فلٹر تو وہاں کے ڈاکٹرز نے بھی کبھی نہیں دیکھا۔ بلکہ راولپنڈی کی ایک دوست بتا رہی تھیں فلٹر وہاں کے سرکاری ہسپتال میں بھی انہوں نے نہیں دیکھا۔

اس فلٹر کی قیمت 3 سے 6 ہزار روپے ہوتی ہے۔ کسی نجی ہسپتال میں خون لگانے کا خرچہ 10 سے 25 ہزار روپے ہوتا ہے ۔ آئرن نکالنے کی دوائوں کی قیمت 10 سے تیس ہزار روپے ہوتی ہے۔ بہت سے بچے 24 گھنٹوں میں سے 15 گھنٹے آئرن نکالنے کے لیے سوئی کے ذریعے ایک دوا لگاتے ہیں جو کچھ بچوں کو روزانہ لگتا ہے۔ جگر اور تلی بڑھنے کے کے خطرات الگ منڈا رہے ہوتے ہیں دل اور گردہ الگ سے خطرے میں ۔۔۔۔۔ بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے دل گردے سنبھالنا۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تھیلیسیمیا کے 50 فی صد بچے 12 سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہم نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جن کے 12 میں سے 9 بچے تھیلیسمیا کی وجہ سے دنیا سے جا چکے ہوتے ہیں۔ بہت سی مائیں کئی مرتبہ حاملہ ہونے کی خوش خبری ملنے کے کچھ عرصے بعد حمل ضائع کرانے کے تکلیف دہ مرحلے سے گزرتی ہیں۔

کئی والدین اپنے بچوں کو اخراجات کے ڈر سے خون ہی نہیں لگواتے اور کئی اپنے گزشتہ تجربے کی بنیاد پر بچے کو کئی سال خون لگوا کر کھونے کے بعد دوسرے بچے کو کم تکلیف دینے کی غرض سے خون نہ لگوا کر موت کا انتظار کرتے ہیں۔ خون لگنے کی تکلیف ، نہ لگنے کی اذیت آہ ۔۔۔۔۔۔ کوئی راستہ نہیں۔ ہاں بون میرو ٹرانسپلانٹ جتنا لمبا نام ، اس سے کئی گنا زیادہ تکلیف اور ٹھیک ہونا بھی کسی پیدائشی بد قسمت کی قسمت پر منحصر ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں