لڑکی آئینہ کے سامنے چٹیا بناتے ہوئے

سیلف گرومنگ : ہم آئینہ کیوں دیکھتے ہیں ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین :

ہم آئینہ کیوں دیکھتے ہیں ؟
کچھ دیر سوچ کر بتائیے کہ آپ کا جواب کیا آیا ؟
(اس کا جواب ہر عمر کے فرد کا الگ ہوگا ۔۔۔۔۔)

کسی شیر خوار بچے کو آئینے کے سامنے کھڑا کریں ، وہ اپنے آپ کو دیکھے گا ۔۔۔۔ مزے لے گا ، مسکرائے گا لیکن یہ جانے بغیر کہ یہ خود اس کا ہی عکس ہے۔

اٹھارہ ماہ کا بچہ ۔۔۔۔۔ آئینہ دیکھ کر اپنے آپ کو پہچاننا شروع کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اپنی ذات کی پہچان کے سفر آغاز ہوتا ہے کہ یہ میں ہوں ۔۔۔۔۔ میرا چہرہ ۔۔۔۔ جسم ۔۔۔۔۔ مسکراہٹ ۔۔۔ آنکھیں ۔۔۔۔۔ انسان اپنے آپ کو اپنے خدوخال کو اپنے ظاہری وجود کو پہچاننے لگتا ہے ۔۔۔۔

جیسے جیسے آئینے میں عکس دیکھنے کے عادی ہوتے جائیں ویسے ویسے خیالات و انداز بھی بدلتے جاتے ہیں ۔۔۔۔ پھر عمر کے ایک حصے میں آئینہ دیکھ کر
میں کیسا / کیسی ہوں؟
کب اچھی / اچھا لگتا ہوں؟
کس طرح مزید اچھا لگ سکتا سکتی ہوں
کیا خامیاں ہیں ۔۔۔ کیا کمیاں ہیں ۔۔۔۔
یہ باتیں بہت اہم ہوجاتی ہیں۔

چھوٹی بچیاں آئینے کی طرف متوجہ رہنے لگیں تو مائیں پریشان سی ہوجاتی ہیں۔
کیوں بھئی یہ اتنی دیر سے کیوں کھڑی ہو ؟
یہ ہر وقت آئینہ کیوں چاہیے ؟
غرض طرح طرح سے اپنی بے چینی کا اظہار کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔

بعض والدین آئینے کے سامنے کھڑے ہونے کو اتنا معیوب سمجھتے ہیں کہ گناہ کا درجہ دے ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف ایسا بھی ہے کہ معصومانہ عمر میں بھی بچیاں نک سک کی بےتاب نظر آرہی ہوتی ہیں۔ اعتدال اور میانہ روی کےساتھ عمر کے لحاظ سے مناسب رہنمائی کیا ہونی چاہیے یہ بہت اہم ہے۔

اگر آئینہ میں وقت صرف کرنے کے وقت کو مثبت بنانے کی طرف توجہ دی جائے تو بچے بہت بہتر انداز میں سیلف گرومنگ سیکھ سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ اپنی شخصیت کے اعتماد کو بحال کرنے ، بڑھانے کا ایک بہترین ٹول آئینہ ہے ۔ اس کے سامنے کھڑے ہوکر گفتگو و تقاریر کی مشق آپ کی بولنے کی صلاحیتوں میں زبردست اضافہ کرتی ہے۔

سیلف گرومنگ کی تربیت لڑکے لڑکی دونوں کے لئے ضروری ہے۔ واضح رہے کہ سیلف گرومنگ صرف میک اپ تک محدود نہیں ہے ۔ صحت صفائی سے لے کر اپنی شخصیت کی خوبصورتی میں بہتری کی ہر چیز اس میں شامل ہے۔ بچے کو خوبصورتی کا اسکرین تصور ختم کرکے یہ بتانا کہ جو اللہ نے آپ کو چیزیں دی ہیں ان کی حفاظت کرنا ، ان کا خیال کرنا اور ان کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا بھی پسندیدہ ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ
اکثر صحت صفائی خوبصورتی سلیقہ ،اخلاق ، کردار ہر ایک صفت کا بوجھ صرف لڑکی پر ڈال دیا جاتا ہے۔ لڑکوں کے لئے ایک عجیب انداز تغافل اختیار کیا جاتا ہے کہ انہیں اپنے آپ پر توجہ دینے کی کیا ضرورت ۔
نتیجتاً لڑکے حد سے زیادہ ، روزمرہ کی صفائی سے تغافل شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ سر کے بال تک ترتیب دینا خلاف شان سمجھتے ہیں ، کجا صاف کپڑے اور منہ دھو لیں ۔

بعض جگہوں پر لڑکیوں کے لئے بھی سجنا سنورنا صرف میک اپ تک محدود کردیا جاتا ہے۔ اکثر میلے گندے چہرے پر میک اپ تھوپ کر نکلنے والی لڑکیاں نظر آتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ سیلف گرومنگ سے بالکل ہی نا واقف ہیں ۔

سیلف گرومنگ ایک مسلمان کی شخصیت کا خاصہ بھی ہے۔
بچوں کو صحت صفائی کے ساتھ اپنے آپ کو سنوارنے کا ڈھنگ سیکھنے اور سکھانے کا جائز اور حدود کے اندر رہ کر موقع دینا بہت ضروری ہے ۔

لباس کے طور طریقے سلیقے اور صفائی ستھرائی سے اپنی شخصیت کو سنورنا ایک فن ہے۔
بچوں کو اس کی تربیت اور مواقع نہیں دیں گی تو ۔۔۔کبھی بھی یہ ذوق پیدا نہیں ہوگا ۔
ایک وقت آتا ہے کہ لڑکیوں کو ہر کوئی سجنے سنورنے کو کہتا ہے تو حد سے زیادہ روک ٹوک کے ماحول والی بچیوں کو سجنا سنورنا مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ ان کو اس کے مناسب انداز اور ڈھنگ نہیں آتے ۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ جب ایک طرف سجنے سنورنے کے بے باک انداز موجود ہوں تو ایک مسلمان لڑکی کیسی لگنی چاہیے ، اس کے کیا انداز ہونے چاہیئیں، سکھانا ، بتانا اور ماڈل کرنا بہت ضروری ہے ۔

فی زمانہ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنا اب کوئی سادہ بات نہیں بلکہ ایک گلیمر کا حصہ بننے کی کوشش ہوتی ہے۔ ماحول میں گلیمر کا رحجان جس تیزی سے بڑھ رہا ہے ، اسی تیزی سے چھوٹی بچیوں میں بھی اپنے آپ کو ایک باربی ڈول اسٹائل میں لانے کی خواہش بڑھتی جارہی ہے۔

دن رات کارٹونوں میں یہی سب کچھ دکھایا جاتا ہے کہ جس سے بچیاں ایک آئیڈیل فی میل حلیہ کا تصور راسخ کر لیتی ہیں۔

رہی سہی کسر چھوٹی بچیوں کے وی لاگز نے پوری کردی ہے جس میں وہ اپنی میک اپ کٹ اورمختلف چیزیں دکھا کر بتاتی ہیں کہ وہ کتنا میک اپ کرتی ہیں ؟ کیسے وارڈروب سیٹ رکھتی ہیں ؟

مغربی طرز فکر کو پروان چڑھانے والے یہ سارے اسکرین ذرائع زیادہ فوکس عورت کو کرتے ہیں تاکہ ابتدا سے لڑکی کو

1 . جنس بازار ہونے کا تصور دیا جائے ۔
2 . حلال حرام کی تفریق ختم کی جائے ۔
3 . ستائش کی چاہت اتنی بڑھا دی جائے کہ وہ ہر ایک مردانہ نگاہ سے اسے وصول کرنے کی خواہش مند ہوجائے۔

ایسے ماحول میں ہم اپنی بچیوں کو کیسے بچائیں کہ وہ باغی بھی نہ ہوں ، حسرت کا شکار بھی نہ ہوں اور ایک مناسب معتدل حدود کے اندر رہ کر پسندیدہ رویہ اپنا سکیں ؟
کس عمر سے ان کو میک اپ پر مناسب سی رہنمائی دی جائے ؟
کس عمر میں روکا جائے ؟
کہاں تیار ہونے کی ترغیب دیں ، کہاں نہیں ۔۔۔۔؟

یہ گھر کے ماحول اور والدین کے اوپر ہے۔ فی زمانہ چھوٹی چھوٹی بچیاں اسکرین کی خوبصورتی کے معیار کو دیکھ کر نہ صرف اپنی پسندیدگی اور مرعوب ہونے کا اظہار کرتی ہیں بلکہ اپنی والدہ کو مشورے دیتی ہیں کہ آپ کو کس طرح تیار رہنا چاہیے ؟

دوسرا یہ کہ سجنے سنورنے میں مبالغہ آرائی ، حد سے زیادہ وقت صرف کرنا ، عزت کا معیار قرار دینا ، لوگوں کو متاثر کرنا ، فیشن کا تصور ، باڈی امیج ، خوبصورتی کے مروجہ معیار و ذرائع کے حوالے سے بچوں کے ذہنوں میں درست اسلامی افکار کیسے پروان چڑھیں گے ؟

یہ تمام باتیں واضح ہدایات کے بغیر ماحول سے سیکھنے کے لئے چھوڑ دی جاتی ہیں تو بچے ان کا منفی پہلو سیکھ لیتے ہیں ۔
والدین اور بڑوں کو اس پر کیا رہنمائی دینی چاہیے ، یہ سوچنے کی بات ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں