مصطفیٰ صادق، بانی روزنامہ وفاق ، سابق پاکستانی وفاقی وزیراطلاعات و نشریات

جناب مصطفیٰ صادق کی عظیم کہانی، خود ان کی زبانی ( 3 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے سابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات اور روزنامہ ’ وفاق ‘ کے بانی کی داستان حیات

قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں ، میں جلدی ہی کرائے کے مکان سے راوی روڈ پر قلعہ لچھمن سنگھ میں بھارت سے نقل مکانی کے باعث اپنے استحقاق کی بنیاد پر ایک ایسے مکان میں منتقل ہو چکا تھا جو مجھے محکمہ بحالیات نے الاٹ کیا تھا۔

اس مکان میں آج کل میرے ماموں زاد بھائی چودھری ولی محمد ماشاء اللہ اپنے اہل و عیال سمیت رہائش پذیر ہیں۔ اس مکان سے میری ” ہجرت “ کی داستان بھی میری زندگی کے اہم واقعات کا حصہ ہے جسے ابھی میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

قلعہ لچھمن سنگھ میں قیام کے دوران مجھے ایک فرشتہ سیرت انسان میاں عبدالحفیظ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ میرے بڑے بھائی چودھری قدرت علی نے جو قلعہ لچھمن سنگھ میں میرے ساتھ ہی مقیم تھے اپنے گھر کے قریب ہی ایک جلے سڑے مکان میں دو چار چٹائیاں بچھا کر نماز باجماعت کا اہتمام کیا۔اس وقت تک محترم میاں عبدالحفظ سے قریبی تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ چنانچہ نہ صرف میاں صاحب نے ہمیں باجماعت نماز کی ادائیگی کا پابند کیا بلکہ خود ہی امامت کا فریضہ بھی ادا کرنا شروع کردیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بالخصوص مغرب کی نماز کے بعد مختصر سے وقت کے لیے قرآن و حدیث کا درس دینا بھی شروع کردیا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دوسرے نمازیوں کے علاوہ میں نے میاں عبدالحفیظ سے حدیث کی مشہورکتاب ” بلوغ المرام “ کی دو جلدیں سبقاًسبقاً پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ قرآن و حدیث کے درس کے ساتھ ساتھ میاں صاحب نے مجھے مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی یکے بعد دیگرے دو کتابیں مطالعے کے لیے دیں جو کہ ” خطبات “ اور ” تنقیحات “ کے نام سے اب بھی معروف و مقبول ہیں۔

میں نے ان دونوں کتابوں کا مطالعہ کچھ ایسے ذوق وشوق کے ساتھ کیا کہ مجھے اپنی دنیا بدلتی دکھائی دے رہی تھی۔ ان دنوں مولانا مودودی جہاد کشمیر کے بارے میں ایک ” فتویٰ “ کے الزام میں قید و بند کی سزا بھگت رہے تھے۔ جماعت کے کارکنوں کی طرح میں بھی اس بے بنیاد الزام کی تہ تک پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ انہی دنوں مولانا مودودی کی گرفتاری کے خلاف ایک مظاہرہ کیاگیا جسے خاموش احتجاج کا نام دیاگیا تھا۔

یہ مظاہرہ اس اعتبار سے خاموش احتجاج کی حیثیت رکھتا تھا کہ جماعت کے کارکن مختلف چوراہوں میں ایسے بینر اٹھائے خاموشی سے کھڑے رہے جن پر مولانا مودودیؒ کے جرم بے گناہی اور اس جرم کی پاداش میں مولانا کی نظربندی کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس خاموش احتجاج کاعام راہگیروں پر پڑھے لکھے طبقے اور اس دور کے دانشوروں پر جو بھی اثر ہوا ہوگا وہ تو معلوم نہیں، لیکن میں ذاتی طورپر خاموش احتجاج کا ایک ایک لمحہ اس تصور سے گزار رہا تھا کہ ایک طرف مولانا مودودی کے خلاف اس ظلم عظیم کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جارہا تھا اور دوسری طرف اس یقین میں اضافہ ہوتا جارہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید ہم ایسے بے لوث کارکنوں کو یقیناً نصیب ہورہی ہے۔

یہاں یہ عرض کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ مولانا سے عقیدت تو ان کی تصنیفات کے مطالعے ہی سے شروع ہوگئی تھی ۔ اس احتجاج میں شرکت کے باعث مولانا سے عقیدت میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ ان دنوں میں جماعت اسلامی سے باضابطہ وابستہ نہیں تھا لیکن میاں عبدالحفیظ کے ذریعے سے جماعت کے حلقہ متفقین میں شامل ہوچکا تھا۔

مولانا مودودی 1950ء میں جیل سے رہا ہو کر آئے تو انہوں نے آنے کے کچھ ہی دنوں بعد،ذیلدار پارک اچھرہ میں جماعت اسلامی لاہور کے ارکان کا اجتماع طلب کیا اور ابتدائی گفتگو کے بعد اپنے اس فیصلے کاا علان کیا کہ لاہور کا موجودہ نظم توڑا جاتا ہے اور فرمایا کہ ملک نصراللہ خاں عزیز کے بھرپورراحترام کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی کبرسنی اور نقاہت کے باعث لاہور کی امارت کی ذمہ داریاں کماحقہ ادا نہیں کر پا رہے ، اس لیے لاہور کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ نیا نظم قائم کریں اور باہمی مشورے سے نئے امیر کا تقرر عمل میں لائیں۔

چنانچہ لاہور کے لئے باہمی مشورے سے مولانا امین احسن اصلاحی کو اصلاحی صاحب کے اختلاف اور احتجاج کے باوجود امیر منتخب کرلیاگیا۔ ان دنوں مولانا اصلاحی راجگڑھ نزد چوبرجی میں قیام پذیر تھے اور جماعت کے اجتماعات بالعموم برکت علی اسلامیہ ہال میں ہوتے تھے۔ مشورے کے دوران بعض ارکان نے توجہ دلائی کہ مولانا کے گھر سے اجتماع گاہ کا فاصلہ دور ہے اور مولانا کے پاس کوئی سواری نہیں۔ مردان کے ایک سادہ لوح پٹھان نے جو غالباً پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم بھی تھا یہ پیشکش کی کہ میں اپنی سا ئیکل مولانا اصلاحی کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

یہ پیشکش ایثار وقربانی کے جذبے کی مظہر تو یقیناً تھی لیکن قابل عمل نہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی مولانا مودودی کی تجویز پر قیم شہر کے انتخاب کا فیصلہ بھی ہوگیا جس کے لئے جناب فقیر حسین کے نام پر اتفاق رائے ہوا۔ مولانا کے استفسار پر فقیر حسین نے بتایا کہ وہ اس وقت اے جی آفس میں سپرنٹنڈنٹ کے منصب پرفائز ہیں اور دو سو چالیس روپیہ ماہانہ مشاہرہ لیتے ہیں۔ مولانا نے اس مرحلے پرفرمایا کہ ہمہ وقتی کارکنوں کے بغیر جماعت کے دعوتی کاموں میں توسیع میں مشکلات پیش آتی ہیں لیکن ہمہ وقتی کارکنوں کے مشاہرے کی حیثیت کفاف تک ہونی چاہئے۔ یعنی اس حد تک کہ ان کی بنیادی ضروریات کے لئے کفالت کرسکے۔

اس کے بعد مولانا نے فرمایا کہ قصبات اور دیہات میں دعوتی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لئے ایک نائب قیم کا تقرر بھی ضروری ہے۔ اس منصب کے لئے سب سے پہلے ملک نصراللہ خاں عزیز نے میرا نام تجویز کیا۔ اس کے بعد میاں عبدالحفیظ ، عبدالحمید کھوکھر اور بعض دوسرے ارکان نے اس تجویز کی تائید کی۔ مولانانے میرا نام سامنے آنے پر سوال کیا کہ یہ جماعت کے رکن کب بنے ہیں؟ ملک صاحب نے ہی جواب دیا کہ انہیں آج رکنیت کا حلف لینا ہے۔ مولانا نے فرمایا پہلے انہیں رکن تو بنا لیجئے، چنانچہ مجھے رکنیت کا حلف پڑھنے کو کہا گیا جو بلاشبہ میری زندگی کا ایک اہم واقعہ اورا نتہائی جذباتی لمحہ تھا۔

میری رکنیت کے حلف نامے کی توثیق خود مولانا مودودیؒ نے فرمائی اور جہاں تک مجھے یاد ہے میری رکنیت کا حلف مولانا مودودی کی امارت کے اس دور کا اس نوعیت کا آخری واقعہ تھا۔ اس لئے کہ بالعموم جب کوئی نیا رکن جماعت میں شامل ہوتا تو اس کے حلف نامے کی توثیق مقامی امیر جماعت ہی کرتا رہا ہے۔ رکنیت کا حلف اٹھا لینے کے بعد مجھ سے مولانا نے استفسار کیا کہ آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے؟

میں نے بتایا کہ میں ضلع ہوشیارپور سے وابستہ ہوں اور اب لاہور میں رہتا ہوں۔ اس پر مولانا نے اس اعتبار سے اطمینان کا اظہار کیا کہ زبان وبیان کے لحاظ سے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ اس وقت کیا کام کرتے ہیں؟ اور ماہانہ مشاہرہ کیا وصول کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ لاہور کارپوریشن میں آفس انسپکٹرہوں اور 135 روپے ماہانہ وصول کرتا ہوں لیکن میرا گزارہ ایک سو روپیہ میں ہوجاتا ہے۔ اور ” کفاف “ کے لئے مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں۔

میں نے اس کے ساتھ ہی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور جماعت اسلامی کے دفتر میں نائب قیم کی ذمہ داری سنبھال لی۔ شروع شروع میں میری زیادہ سرگرمیاں لاہور کے قریبی قصبات بالخصوص تحصیل چونیاں اور قصور کے نواحی علاقوں کے دوروں تک محدود رہیں۔ چونیاں کے بعض علاقوں میں چونکہ مسلک اہلحدیث کے پیروکاروں کی غیر معمولی اکثریت ہے۔ اس لئے مجھے ان علاقوں میں کام کرنے کی کوئی زیادہ دشواری پیش نہیں آئی بلکہ اس مرحلے پر میں یہ عرض کرنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ اگر پاکستان میں نہیں تو پنجاب بھر میں ہماری دعوتی کامیابیوں کے اعتبار سے یہ زرخیز ترین علاقہ تھا یا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 1951ء کے انتخابات میں یہی وہ علاقہ تھا جہاں سے جماعت اسلامی کے واحد رکن اسمبلی مولانا محی الدین لکھوی منتخب ہوئے جو صحیح معنوں میں عالم باعمل اور مقبول عام و خاص تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی کامیابی میں ان کی ذاتی مقبولیت کو بھی گہرا دخل تھا۔ اسی طرح پتوکی میونسپل کمیٹی پہلا بلدیاتی ادارہ تھا جہاں عملاً جماعت اسلامی دخیل ہوئی۔ ایک متوسط درجے کے کارخانہ دار اور ہمارے سرگرم کارکن چودھری عبدالمجید میونسپل کمیٹی کے سربراہ تھے۔

دینی شخصیات میں حکیم رائے نعمت علی کوبھی پتوکی میں نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ یہ وہی حکیم رائے نعمت علی ہیں جن کی طبی مہارت اور تقویٰ و پرہیز گاری کی بنیاد پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے معروف نومسلم خاتون مریم جمیلہ کو ان کی تحویل میں دیا اور محترمہ کافی مدت تک ان کے زیر علاج رہیں۔ پتوکی کے قریب ہی گہلن چک نمبر9 واقع ہے۔

یہاں سے معروف اور ممتاز درویش صفت اور جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن چودھری عبدالغنی گہلنوی نمایاں ہو کر میدان سیاست میں اثرے۔ اسی طرح قصور سے جناب ارشاد حقانی جیسے مایہ ناز دانشور کی شمولیت سے جماعت اسلامی کے قد وقامت میں اضافہ ہوا۔ حقانی صاحب جلد ہی مقامی سطح سے اٹھ کر جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں شمار ہونے لگے۔ قصور کالج میں بھی ان کا نمایاں مقام تھا اور جلد ہی وہ پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوگئے۔

اسی طرح پنجابی کے مشہور شاعر عبداللہ شاکر کا تعلق بھی قصور ہی سے تھا اور کچھ وقت کے لئے مولانا محی الدین سلفی گکھڑوی اور عبداللہ شاکر جماعت اسلامی لاہور کے نائب قیم بھی رہے۔ اس دور میں ان دونوں کے علاوہ چودھری عبدالغنی گہلنوی بھی جماعت کے عہدیداروں میں بحیثیت نائب قیم شامل رہے۔ اصل میں مجھے نائب قیم سے ترقی دے کر قیم حلقہ مقرر کردیا گیا تھا اور حلقہ لاہور میں تین اضلاع پر محیط ہوگیا تھا جن میں لاہور،ساہیوال اور شیخوپورہ شامل تھے۔

ساہیوال کے لئے جناب اکرم کاشمیری کو اور شیخوپورہ کے لئے جناب کوثر نیازی کو دعوتی کاموں کی انجام دہی کا فریضہ سونپا گیا۔ یہ اس دور کی بات ہے کہ جب جناب فقیر حسین حلقہ لاہور سے مرکز میں بطور ناظم مالیات منتقل ہوگئے۔ اور مرکزی دفاتر بھی ان دنوں اچھرہ سے منصورہ منتقل ہوچکے تھے۔

مجھے اس رائے کے اظہار میں ہر گز کوئی تردد نہیں کہ ان دنوں تنظیمی اور دعوتی ادارے جس منظم اور مربوط انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے پاکستان کی حد تک کسی بھی دوسری سیاسی یا دینی جماعت کو ایسے انتظامات کا اہتمام کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی زمانے میں جماعت اسلامی کے ایک اہم عہدیدار سعید ملک صاحب نے اسی نوعیت کے منظم اور مربوط مرکزی سیکرٹریٹ کے قیام کی تجویز پیش کی تھی لیکن اس وقت اس تجویز کو پذیرائی حاصل نہ ہوسکی جس کی اصل وجہ بظاہر یہی محسوس ہوتی ہے کہ سعید ملک نے یہ تجویز مولانا مودودی کی اس دور کی پالیسی سے اختلاف رائے کااظہار کرتے ہوئے جائزہ کمیٹی کے سامنے پیش کی تھی۔

یہ وہی جائز کمیٹی ہے جس کی رپورٹ کے نتیجے میں دسمبر56ء میں مولانا مودودی نے جماعت کی امارت سے مستعفی ہو کر مارچ57ء میں پاکستان بھر کے ارکان جماعت کا خصوصی اجلاس طلب کیا تھا۔ یہ اجلاس صادق آباد کے قریب ماچھی گوٹھ میں سردارامین خان لغاری ( جو سرداراحمد اجمل خاں لغاری کے چھوٹے بھائی تھے) کی شوگر فیکٹری کے وسیع و عریض احاطے میں منعقد ہوا تھا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ ماچھی گوٹھ کا اجتماع ارکان جماعت اسلامی کی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس سلسلے میں اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن اس کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ میں بھی ایک شریک اجتماع کی حیثیت سے اپنی معلومات ریکارڈ پر لے آؤں۔

جماعت زندگی کا دوسرا اہم واقعہ اینٹی قادیانی تحریک سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی وہ تحریک ہے جس میں مولانا مودودی اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو نظر بند کر دیا گیا تھا حتی کہ مولانا مودودی کے لئے اس وقت کی فوجی عدالت سے دو دوسرے بزرگوں مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا اختر علی خاں سمیت سزائے موت جیسا سخت ترین فیصلہ سنا دیاگیا تھا۔

یہ دونوں واقعات جماعت اسلامی ہی کے نقطہ نظر سے نہیں قومی اور سیاسی نقطہ نظر سے بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لئے ان واقعات کے با رے میں قدرے تفصیل کے ساتھ اپنی معلومات بیان کرنا پڑیں گی۔
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں