تزئین حسن، پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی، تجزیہ نگار

فلسطین کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن :

فلسطین کی موجودہ صورت حال میں مسلم دنیا کے عوام بہت تکلیف محسوس کر رہے ہیں اور اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں ریلیوں کا کیا فائدہ ہے؟
عالمی اداروں نے تو خود اسرائیل کی ناجائز ریاست کو جنم دیا، وہ کیوں فلسطینیوں کے حق میں کچھ کریں گے؟ انسانی حقوق کی بات کرنے سے کیا ہوگا ؟ کیا اسرائیل ایسی باتوں سے متاثر ہوکر فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے پر راضی ہوجائے گا یا انہیں دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کردے گا ؟ غزہ کا محاصرہ ختم ہوجائے گا؟

مسلم دنیا میں اس حوالے سے بجا طور پر بہت شدید مایوسی اور بے بسی کے احساسات پائے جاتے ہیں۔

اتنا سمجھ لیجیے کہ کسی بھی ایسے مسئلے کے حل کےلیے کثیر جہتی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں جنگ کے میدان میں طاقت سے مقابلہ کرنا بھی شامل ہے اور ڈپلومیسی اور اظہار یکجہتی بھی، علمی اور تحقیقی کام کی بھی، ابلاغ کی طاقت کے استعمال کی بھی، جنگ کے میدان میں طاقت سے مقابلہ کرنے کی اور جہاد کےلیے طاقت پکڑنے کی بھی۔

خود سیرت رسولؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ اپنی پوری زندگی ڈپلومیسی کی بہترین اہلیت استعمال کرتے ہوئے قبائل سے معاہدے بھی کرتے رہے۔ ان معاہدوں کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں، جنگیں بھی لڑی گئیں، رومی سلطنت اور فارس کے چھوٹے اور بڑے بادشاہوں کو اس دور کے ابلاغ کے انسٹرومنٹس استعمال کرتے ہوئے دعوتیں بھی بھیجی گئیں،

بہترین اخلاق کا مظاہرہ بھی کیا گیا، ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا کام بھی مسلسل جاری رہا اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے کام بھی چلتے رہے، انہیں بھی موقوف نہیں کیا گیا، مثلاً تجارت، شادیاں اور جنگی قیدیوں تک کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح بڑھانے کی کوشش بھی جاری رہی اور ایک ایسے وقت میں جاری رہی جب مسلمانوں کی اپنی بقا شدید خطرے میں تھی۔

مدینے کی چھوٹی سی ریاست چاروں طرف سے اور اندرونی طور پر بھی دشمنوں سے گھری ہوئی تھی۔ اس طرح آہستہ آہستہ ڈپلومیسی دعوت کے ذریعے معاہدوں کے ذریعے طاقت بھی پکڑی گئی۔ یہود سے معاہدے بھی کیے گئے اور ان کی خلاف ورزیوں پر انہیں سزا بھی دی گی۔

اب آئیے موجودہ انتہائی پیچیدہ صورتحال کی طرف جس میں ہم مسلمان شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ خود ہماری اپنی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسرائیل کی زبان بول رہے ہیں اور ایسے لوگ بھی جو اسرائیل پر فوری چڑھائی کےلیے بے چین ہیں۔

فی الحال اتنا سمجھ لیجیے کہ
فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا، ان کے انسانی حقوق کےلیے آواز اٹھانا، علمی اور تحقیقی مواد مرتب کرنا، عالمی تنظیموں میں ڈپلومیسی اور سفارت کاری کے ذریعے ان کے حق میں بین الاقوامی قوانین اور اصطلاحات کا استعمال کرکے بات کرنا، یہ سب مختلف محاذ ہیں، جن میں سے ہر محاذ پر ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں