فلسطینی لڑکا اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر بیٹھا ہے

اسرائیل کو اپارتھائیڈ ریاست کیوں کہا جاتا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن :

اکثر اسرائیل کو مشرق وسطیٰ یا عرب دنیا (ترکی گریٹر مشرق وسطیٰ کا حصہ سمجھا جاتا ہے ) کی واحد جمہوری ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ ہمارے بعض سادہ لوح پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کا ہیومن رائٹس ریکارڈ بہت اچھا نہیں تو دیگر عرب ریاستوں سے بہتر ہے۔ آئیے! اس دعوے کا جائزہ لیتے ہیں ۔ عام طور سے ہمارے ذہن میں جمہوری ریاست وہ ہوتی ہے جہاں اقتدار کا فیصلہ ووٹ سے ہوتا ہو لیکن یونیورسل سفریج کے علاوہ اس کی بعض دوسری اہم شرائط بھی ہیں-

جمہوریت کی پہلی شرط ملک میں رہنے والوں کے درمیان مساوات ہے یعنی ریاست کی نظر میں تمام شہریوں کا برابر ہونا جبکہ اسرائیل ایک اپارٹہائیڈ اسٹیٹ ہے جس میں ریاست نہ صرف ایک قوم کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک یعنی ڈسکریمینیشن کی مرتکب ہورہی ہے بلکہ پچھلےبہتر سال سے اس کی ایتھنک کلینزنگ (سر زمین سے اس کے صفائے) میں بھی مصروف ہے۔ ہم ان اصطلاحات کو آگے واضح کرتے ییں۔

فلسطین کے منظر نامے میں کئی ایسی چیزیں ہیں جنہیں آج کے قاری کے لئے سمجھنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک اسرائیل کی اپارٹہائیڈ پالیسیز۔ اپارٹ ہائیڈ کا لفظ ایسے طرز حکمرانی کے لئے بولا جاتا ہے جس میں ملک میں موجود دو قوموں کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جائے۔ اسرائیل کا طرز حکمرانی اپنی حدود میں رہنے والے فلسطینی عربوں کے ساتھ 1948 سے یہی رہا ہے ۔ 1948 میں اسرائیل نے فلسطین کے اٹھتر 78 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

سات لاکھ فلسطینیوں کو اردن، لبنان اور شام ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ انہیں باہر نکال کر ان کی واپسی کے تمام راستے مسدود کئے گئے۔ ان کے گھروں کی قیمتی اشیاء لوٹ کر انہیں مسمار کر دیا گیا- یہی نہیں ان کے پھل دار درختوں کو کاٹ کر وہاں ایسے درخت لگائے گئے جو کسی قسم کی غذا فراہم نہیں کر سکتے۔ یہی نہیں ان گاؤں کے گرد باڑ لگا کر انہیں کلوز ملٹری زون ڈکلئیر کیا گیا۔ جہاں کسی در انداز کی موجودگی کی صورت میں اسے فوراً شوٹ کیا جا سکتا ہے۔

ایسا اس لئے کیا گیا کہ اگر لبنان، اردن سے کوئی فلسطینی مہاجر واپس آنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو وہ اپنے گاؤں پہنچ کر دوبارہ اپنا گھر نہ بنا سکے۔ اور ان کے درخت اور فصلیں انہیں زندہ رہنے کے لئے غذا فراہم نہ کر سکیں۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو اسرائیل کی حدود میں رہنے والے عرب فلسطینی بھی ہیں جن کی تعداد 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ڈیڑھ لاکھ رہ گی تھی ۔ آج یہ اسرائیل کی آبادی کا بیس فیصد ہیں- حالیہ دنوں میں ان کے خلاف اسرائیل کے صیہونی شہری وہی کر رہے ہیں جو انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہاہے . جی ہاں ! عرب فلسطینیوں کی مآب لنچنگ کی کئی وارداتیں اسرائیل کے مختلف شہروں میں سامنے آئی ہیں لیکن حالیہ تنازعہ کے شور میں اس مآب لنچنگ کو وہ عالمی کوریج نہیں مل رہی جو ملنی چاہئے-
ان میں سے زیادہ تر وہ فلسطینی ہیں جو 1948 کے بعد اسرائیل کے شہروں میں مقیم تھے۔

یہ بظاہر اسرائیلی شہری ییں۔ ان کے پاس ووٹ دینے کا حق بھی ہے اور اسرائیلی پاسپورٹ بھی۔ لیکن یہ بھی پچھلے 72سال سے مسلسل اپارٹ ہائیڈ پالیسیز کا سامنا کر رہے ہیں۔ 1948 کے بعد سے ہی ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں ہیں۔ مثلاً ناصرہ شہر میں مقیم معروف برطانوی صحافی جوناتھن کک کے مطابق اسرائیل کے قیام کے بعد ان فلسطینیوں کو بغیر اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔

انہیں کسی دوسرے علاقے میں کام کرنے کے لئے سرکاری اجازت نامی درکار ہوتا ہے۔ ایسی پابندیاں آپک ے روزگار اور معاش کے حق پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں لیکن ان اپارٹ ہائیڈ پالیسیز کا سب سے زیادہ کریہہ پہلو فلسطینیوں سے ان کے گھر اور گاؤں خالی کروا کر وہاں مسلسل یہودی بستیاں بسانا یا ان کے گھروں میں یہودیوں کو آباد کرنا ہے-

1967 کی جنگ میں کامیابی کے بعد اسرائیل نے مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے درمیاں یہودی بستیاں قائم کیں تاکہ فلسطینیوں کو مسلسل تقسیم کیا جائے۔ ایسا باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا. پچھلے بہتر سال سے فلسطینی آبادیوں کی تقسیم کا سلسلہ مسلسل جاری یے۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے علاوہ خود مغربی کنارے میں بھی لاتعداد صیہونی بستیاں قائم کی گئیں۔ اس طرح فلسطینی آبادیوں کو مسلسل ایک دوسرے سے کاٹ کر گھیٹوز میں تبدیل کیا گیا اور انہیں اپنی ضروریات کے لئے خود انحصار نہیں رہنے دیا گیا۔ فلسطینی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کبھی کبھی ہسپتال جانے کے لئے بھی اسرائیلی چاک پوسٹوں اور آہنی دیواروں کا سامنا ہوتا ہے جو اپارٹ ہائیڈ پالیسیز کی ہی ایک شکل ہے. فلسطینی گاؤں کو سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا کیا گیا ہے جن پر اسرائیل کا قبضہ ہے-

جوناتھن کک کے مطابق ایسا مستقبل میں کسی بھی فلسطینی ریاست کو قیام میں عمل میں آنے سے روکنے کے لئے کیا گیا- ہمارے سادہ لوح بھائی یہ سمجھتے کہ اسرائیل کا جھگڑا بس حماس سے ہے- اگر حماس اپنی کاروائیوں سے باز آ جائے تو اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام میں سنجیدہ ہے-

ان یہودی بستیوں کی آباد کاری میں بھی شدید بے رحمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ گھر والوں کو چند دن قبل اطلاع دے دی جاتی ہے کہ وہ اپنا گھر خالی کر دیں ورنہ سرکار کسی جانی یا مالی نقصان کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔ امریکی امن ایکٹوسٹ راشیل کی کہانی بہتوں کو یاد ہوگی جو گھروں کو مسمار کرنے سے روکنے کے لئے بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوگئی اور بالآخر خود بھی بلڈوزر ہو کر جان سے گئی۔

اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیز کس قدر بے رحم ہیں۔ جب ایک امریکی لڑکی کےاحتجاج کے سامنے بلڈوزر نہ رک سکا تو فلسطینیوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہوگا۔ ذرا تصور کریں کہ آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا گھر مسمار کرنے سرکار فلاں دن بلڈوزر بھیجے گی- آپ اپنے گھر والوں، بچوں، مال اور مستقبل میں اپنی رہائش کے خود ذمہ دار ہیں-

حالیہ تنازع جو اب پوری طرح جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے بھی شیخ جراح نامی گاؤں سے فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے واقعے کے بعد مسجد اقصیٰ میں اس کے خلاف سویلین احتجاج سے شروع ہوا۔ جب اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں پولیس آپریشن کے ذریعے اس احتجاج کو روکنے کی کوشش کی-

پاکستان میں ناواقف لوگوں کو عام طور سے فلسطین کے پیچیدہ مسئلے کو انتہائی اور سمپلی فائیڈ ورژن دکھایا جاتا ہے کہ یہ ایک مذہبی تنازعہ ہے۔ یہود کا حق فلسطین پر مذہبی لحاظ سے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو فلسطین سے دست بردار ہو جانا چاہئے جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ مسجد اقصیٰ کی حرمت اور حفاظت کا مسئلہ ہے- حقیقت یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

مسجد اقصیٰ کی حرمت مسلمانوں کے لئے یقیناً ایک جذباتی مسئلہ ہے لیکن اگر دنیا میں اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہے تو اسے انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہو گا اور عالمی انسانی حقوق کی اصطلاحات استعمال کر کے اسے خود بھی سمجھنا ہوگا اور سمجھانا ہو گا- اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خود عرب فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ بالفور ڈکلریشن سے پہلے تو فلسطین میں مسلمان، عیسائی اور یہودی مل جل کر رہتے تھے- عربی بولنے والے عیسائی اور یہودی فلسطین میں ہمیشہ ایک معقول تعداد میں موجود رہے اور ان کے درمیان کبھی دنگے فساد نہیں ہوئےجبکہ ان میں نوے فیصد سے زائد مسلمان تھے-

جن لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق ہے کیونکہ ان کے آباؤ اجداد2000 سال پہلے یہاں رہتے تھے اور مذہبی کتب میں بنی اسرائیل کو فلسطین کا وارث کہا گیا ہے وہ ذرا اس سوال کا جواب دیں کہ کیا پاکستان کے شہر لاہور کے رہنے والے یہ پسند کریں گے کی بھارت سے چند لاکھ ہندو آ کر اس بات کا دعویٰ کریں کہ دو ہزار سال پہلے ان کے پرکھے اس سر زمین کے وارث تھے اس لئے اب اس )علاقے سے اس کے مکینوں کو ہندؤں کے حق میں دستبردار ہو جانا چاہئے؟؟ (جاری ہے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں