رعنائی خیال/ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی
انڈہ تو اچھا ہوتا ہے .اسے بیضوی گول اور چوکور اشکال مں پکایا اور کھایا جا سکتا ہے یعنی بیضوی ابالا جا سکتا ہے .گول مٹول فرائی کیا جا سکتا ہے چوکور آملیٹ بنایا جا سکتا ہے الغرض جیومیٹری کی تین بنیادی اشکال تو بچے کو انڈہ کھانے کھانے میں سکھائی جا سکتی ہیں. . جغرافیہ پڑھانے بیٹھیں تو نقشے کی مانند ٹیڑھا ترچھا انڈہ بنا کر سرحد واضح کیجیے یا دو تین انڈے بیک وقت فرائی کر کے پڑوسی ممالک سے سرحدی لکیر وضاحت سے سمجھایے اس دوران انڈے کی زردی دارالحکومت کی نمائندگی کرے گی. بعینہ یہی صورتحال صوبائی سرحدیں اور دارالخلافے واضح کر سکیں گی . لسانیت کا فرق واضح کرنا ہو تو انڈے میں مختلف رنگ ملا لیجیے اور ہر رنگ کو الگ زبان الاٹ کر دیں.زلزلے کی بعد کی صورتحال سمجھانا مقصود ہو تو ٹوٹا پھوٹا انڈہ بھی بنایا جا سکتا ہے. باہمی ہم آہنگی اور بھائی چارے سے رہنے کی مثال دینی ہو تو آلو انڈے کا سالن بنا لیجیے اور جیسا دیس ویسا بھیس سمجھانا ہو تو نرگسی کوفتے اور انڈے والے گرماگرم پکوڑے کھلا کر مزے سے سکھائیے بیٹی کی تربیت کرنا چاہیں کی سسرال میں کیسے نبھائی جائے تو چکن کارن سوپ میں چکن اور انڈے کو الگ الگ کروائیں. جب بیٹی اس ٹیسٹ میں ناکام ہو جائے تو بس اسے سمجھائیے کہ بس یونہی سسرالی رنگ میں رنگ جانا کہ پہچان باقی بھی رہے اور علیحدگی ممکن بھی نہ ہو اور چکن سوپ میں انڈے کی موجودگی سے جتنا ذائقہ بڑھتا ہے ویسے ہی سسرال میں بہو کی موجودگی رنگ لائے.
یہی انڈہ اگر گندا ہو تو کسی ناپسندیدہ پر پھینکا جا سکتا یے . گندہ انڈا اپنا ہو تو سنبھال سنبھال کے رکھا جا سکتا ہے اور کسی کا ہو تو اچھالا جا سکتا ہے. انڈے کی تاریخ بہت پرانی ہے اتنی پرانی کہ یہ بھی بھول چکا کہ پہلے انڈہ آیا تھا یا مرغی. یہ بحث ویسے بھی مرغی کے ساتھ زیادتی ہے، وہ والی زیادتی نہیں جس کا آج کل شہرہ ہے .
کرکٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بحث کو یوں سمیٹاجا سکتا ہے کہ سب سے پہلے بطخ آئی ہو گی . وہی بطخ جو میچ میں انڈہ دینے والے کھلاڑی کی نشانی ہوتی ہے. ویسے میچ میں انڈے دینے والا کھلاڑی بھی بہت اچھا ہوتا ہے . جتنے انڈے دیتا ہے اور جتنی اسپیڈ سے دیتا ہے، اتنا ہی دوسرے اچھے کھلاڑی کے کریز پر آنے اور کھیلنے کے مواقع بڑھتے چلے جاتے ہیں اور تھکا ہارا انڈہ ریز کھلاڑی اپنا انڈہ سنبھالے بطخ کی سی نازک خرامی سے ڈگمگاتا سنبھلتا پویلین میں پہنچ کر سستا سکتا ہے .
دیکھا نا انڈہ دیں تو ہی سکون ملتا ہے لیکن مرغی کو تو یہ سکون بھی میسر نہیں. انڈہ دیتے ہی کٹ کٹ کٹاک کر کے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے . جیسے اس سے بڑا کارنامہ کسی نے کبھی نہ کیا ہو. آخر ہمارے سارے بہترین کرکٹرز بھی تو ہیں. ان کے ظرف کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی . تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی کھلاڑی نے تازہ بہ تازہ بھاپ اڑاتا انڈہ دیا. ہر بار خاندانی لوگوں کی طرح سر جھکائے چپ چاپ آ کر پویلین میں پاڑا مل بیٹھے. کڑک لیکن خاموش مرغی کی مانند تب تک مکمل متانت بھری چپ کو اپنا وطیرہ بنائے رکھتے ہیں جب تک کوئی چھیڑے نہ. مجال ہے کہ جھکا سر اور جھکی نظر کبھی اٹھائی ہو .
سچ ہے خاندان کی پہچان انہیں انڈوں اوہ سوری کھلاڑیوں سے ہوتی ہے. شو مئی قسمت اگر کوئی شامت کا مارا کڑک کھلاڑی پر آوازہ کس بیٹھا تو پھر کڑک مرغی کی مانند ایسے انڈہ دشمن کو اپنے پنجوں سے لہو لہان کرنا اپنا فرض مرغوی سمجھتے ہیں .اور عین اصیل لڑاکے مرغ کی سی چھب سے اسے نبھاتے بھی ہیں ایسا ملاکھڑا دکھاتے ہیں کہ سنچری بناتے ٹنڈولکر کے میچ کی سنسنی اور آفریدی کے چھکوں کی ہیٹرک اس ملاکھڑے کے سامنے انڈہ ابالنے کا پانی بھرنے لگتی ہے.
صاحبو سنچری بنانا تو عام سی بات ہے . میچ میں انڈے دے کے بطخ جیسی مستانی چال چلنا اصل کمال ہے . پھر بھی جو نہ مانے تو سو پیاز اور سو گندے انڈے سب کے سب اس کے.