اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو معذور کیوں بنایا،کیا آپ جانتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرعاصم اللہ بخش
اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ کہا۔ یہ کوئی نمائشی یا لفظی عہدہ نہیں، ب اللہ تعالی نے انسان کے ذمہ زمین کا انتظام چلانے کا کام رکھا اور یہاں پر اسے بااختیار و فیصلہ ساز بنایا۔

انسان کی فطرت ایسی ہے کہ اس کی صلاحیتیں مشکل حالات یا چینلنجز کا سامنا ہونے پر زیادہ کھل کر سامنے آتی ہیں۔ آرام دہ ماحول میں انسان بالکل عضو معطل بن کر رہ جاتا ہے۔ بسا اوقات خود اپنے لیے بھی باعث آزار۔ غالباً اسی لیے اللہ تعالی نے ایک بندوبست تو یہ کیا کہ اس زمین پر بہت سے کام اس سطح پر لا کر چھوڑ دیے کہ خام مال میسر ہے لیکن حتمی صورت گری کا کام نہیں کیا گیا۔ اسے انسان کی محنت اور علم پر موقوف کر دیا گیا۔ تاکہ انسان اسے اپنی ضرورت کے مطابق انجام دے سکے۔ انسان کی ساری ترقی اسی ضرورت اور ایجاد کے دائرے میں گھومتی ہے۔

دوسرا یہ کہ چیزوں کی غالب اکثریت درست بنائی اور پھر کہیں کچھ جھول چھوڑ دیا۔ اس کے بھی کئی مقاصد نظر آتے ہیں ۔۔۔ مثلاً ایک تو انسا پر واضح کرنا کہ اس قدر بڑی تعداد کو درست بنانا ، ایک ہی سانچے میں ڈھالتے چلے جانا کتنی Perfection کا کام ہے۔ اور دوسری جانب یہ کہ اب انسان کے خود پر مان کا امتحآن کہ اگر اتنا ہی طرم خاں ہے تو جو کام سانچے سے ہٹ کر ہے اسے درست کر کے دکھائے ۔۔۔ یا کم از کم اس میں بہتری کی کوشش کرے۔ انسان کمزور ہے اس پر کم کا بوجھ ڈالا گیا ۔ اس سے یہ بھی مطلوب ہے کہ جو کثیر تعداد درست ہے اس کے لیے اپنے رب کا شکر ادا کرے اور جو کمی کی صورت ہے اس کمی کو دور کرنے کی اپنی طرف سے بہت عمدہ پائے کی سعی کرے ۔ دراصل اس صورتحال کی سب سے بڑی مثال خود انسان ہی ہے۔ کتنی عظیم اکثریت ذہنی اور جسمانی لحاظ سے بالکل ٹھیک ہوتی ہے لیکن پھر اس میں وہ لوگ بھی ملتے ہیں جو کسی نا کسی جسمانی یا ذہنی محرومی سے دو چار ہوتے ہیں۔

معذور افراد کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ ان کی محرومی نہ محض ان کی ذاتی آزمائش ہوتی ہے اور نہ ان کے والدین یا گھر والوں کی۔ یہ درحقیقت پورے سماج کی آزمائش ہوتی ہے۔ شکر کی آزمائش کہ اللہ نے انہیں درست بنایا ہے تو وہ اپنے ان بھائی بہنوں کی زندگیاں کیسے نارمل سے قریب تر کر سکتے ہیں کہ وہ خود کو معاشرے کا فعال حصہ تصور کریں۔ اور پھر اس محنت اور توجہ کی آزمائش کے وہ اپنے پروردگار کی نظر میں اس بابت کیسے سرخرو ہوتے ہیں۔ اس سرخروئی کی آئیڈیل سطح یہ ہے کہ اس محروم یا اس کے لواحقین کو کبھی یہ خیال ہی نہ آئے کہ اللہ تعالی سے شکوہ کرنا ہے ۔ سماج انہیں کبھی ایسا محسوس ہی نہ ہونے دے کہ وہ مختلف ہیں ۔۔۔ کمتر ہیں۔

آج معذوروں کا عالمی دن ہے ۔ ہمارے ان ساتھیوں کو ہماری ہمدردی کی ضرورت نہیں ۔۔۔ انہیں ہمارا ساتھ چاہیے ۔۔۔ برابری کا سلوک ان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ شاید یہ خلافت ارضی کا اہم ترین حصہ ہے ۔۔۔۔ ہمیں ہر قدم پر ان کا احساس کرنا ہے، ان کو "احساس” دلائے بغیر !


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں